اقوامِ عالم کے مسائل کا حل

February 28, 2021

ایم اے طاہر دومیلوی، اٹک

اسلام ایک جامع، مکمل نظامِ حیات ہونے کی حیثیت سے دین و دنیا کی تفریق کا قائل نہیں، بلکہ تمام شعبۂ حیات کے لیے واضح، بہترین اصول فراہم کرتا ہے۔ آقائے دوجہاں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پوری دنیاکو اسلام کے اصولوں کے مطابق جملہ کاروبارِ حیات چلانے کی تربیت دینے کے لیے تشریف لائے، تاکہ دنیا سے پچھلے تمام ظالمانہ، باغیانہ نظام ختم ہوجائیں اور ان کی جگہ ایک ایسا عمدہ نظام نافذ العمل ہو، جو انسانیت کی فلاح وبہبود کے نقطۂ نظر سے حرفِ آخر کی حیثیت رکھتا ہو۔ اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف نماز، روزے، حج اور زکوٰۃ ہی کی تلقین پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اللہ کی اطاعت سے منحرف طاغوتی طاقتوں کو بھی للکارا۔

باطل کے ساتھ کشمکش کی بنیاد یہی کلمہ تھا کہ ’’حاکمیت صرف اللہ کے لیے ہے۔‘‘باطل قوتوں کو اللہ کی برتری اور سیاست و ریاست کے معاملات میں اُس کے احکام کی پابندی گوارا نہ تھی۔ اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے معاشرے سے ظلم و استبداد کے خاتمے، عدل و انصاف کی بالادستی اور اعلائے کلمتہ اللہ کے لیے باطل قوتوں کے خلاف تلوار اٹھائی اور مسلمانوں پر جہاد فی سبیل اللہ کا مستقل فرض عاید ہوا۔ خلافتِ راشدہ کے سنہرے دَور میں دین و سیاست میں مکمل ہم آہنگی تھی۔

اس لیے یہ ایک مثالی اور سنہری دور قرار پایا، لیکن خلافتِ راشدہ کے بعد جب بعض حکمرانوں نے نظامِ خلافت کے اسلامی اصولوں سے انحراف کرکے بادشاہت کا دنیاوی اصول اپنایا، تو دین و سیاست میں تفریق کا آغاز ہوا۔ پھروقت گزرنے کے ساتھ دین اور سیاست کے درمیان خلیج وسیع ہوتی چلی گئی۔ دین کا علم رکھنے والے اپنے حجروں میں سِمٹتے گئے اور دینی اقدار سے بے خبر لوگ سلطنتوں، حکومتوں کے مالک بن کر دنیاوی فوائد سمیٹنے لگے۔؎ہوئی دین و دولت میں جس دَم جدائی.....ہوس کی امیری، ہوس کی وزیری ۔

دورِ غلامی کا یہ اثر ہے کہ اس نے ہمارے ذہنوں میں دین و سیاست کی علیحدگی کا تصوّر راسخ کردیا ہے۔ آج یہ عالم ہے کہ ایک طرف اگر کوئی عالمِ دین سیاست کی بات کرتا ہے، تو اُسے ہدفِ تنقید بنایا جاتا اور کہا جاتا ہے کہ ’’حضرت! آپ کو ان سیاسی بکھیڑوں سے کیا غرض، آپ مسجد میں بیٹھ کر اللہ اللہ کریں۔‘‘ دوسری طرف اگر اہلِ سیاست جھوٹ بولیں، دھوکا دہی، فریب سے حکومت کریں، وعدوں کی خلاف ورزی اور اسلامی اصولوں سے انحراف کریں، تو ان کی باتوں کو قابلِ اعتراض نہیں سمجھا جاتا، کیوںکہ عرفِ عام میں یہ مشہور کردیا گیا ہے کہ ’’سیاست میں سب کچھ چلتا ہے، سب کچھ جائز ہے۔‘‘ دین میں سیاست کی یہ تفریق صرف ہمارے یہاں ہی نہیں، اہلِ مغرب اس معاملے میں ہم سے بھی دو قدم آگے دکھائی دیتے ہیں۔ اقبال نے کیا خوب کہا ہے کہ؎جلال پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو.....جدا ہو دیں سیاست سے، تو رہ جاتی ہے چنگیزی۔

اس تفریق کے باعث اہلِ مغرب نے تو خوں ریزی ،قتل و غارت گری اور چنگیزیت کی جو مثالیں پیش کی ہیں۔ ہم ان کے گرد کو بھی نہیں پہنچ سکتے، اہلِ یورپ کے نزدیک مذہب ایک نجی معاملہ ہے اور اس کا دائرئہ عمل محض عبادت گاہ تک محدود ہے۔ انہوں نے سیاست وریاست اور نظامِ حکومت کے معاملات سے مذہب و اخلاق کو بالکل بے دخل کردیا ہے۔ ان کے نزدیک سیاست میں مذہبی اقدار اور مذہبی تعلیمات کو دخل نہیں،حتیٰ کہ مغرب کے امامِ سیاست، میکاولی نے سیاسی امور و معاملات میں خودساختہ اصولوں کو سندِ جواز عطا کی ہے۔

یورپ کا سرمایہ دارانہ نظام استحصال، دھوکا دہی اور فریب کاری کے اصول پر قائم ہے۔ چناںچہ امریکا، برطانیہ، فرانس،ہالینڈ ،پرتگال نے صدیوں تک افریقا اور ایشیاء کی کم زور قوموں کو غلامی میںجکڑے رکھا۔ان پر بے پناہ مظالم ڈھائے، ان کا بدترین استحصال کیا، تمدّنی و تہذیبی اور تعلیمی اعتبار سے انہیں اپنا ذہنی غلام بنانے کی کوششیں کیں، جب کہ دوسری طرف اشتراکیت نے جو جارحانہ نظامِ حکومت قائم کیا، انسانی تاریخ اس کی مثال بھی پیش کرنے سے قاصر ہے۔

اس وقت دنیا کو جن بین الاقوامی معاملات اور انسانی المیوں کا سامنا ہے، ان میں کشمیر، افغانستان، عراق، فلسطین، فلپائن، چیچنیا اور برما کے مظلوم مسلمانوں کے مسائل سرِفہرست ہیں۔ اقوامِ متحدہ امن قائم کرنے میں ناکام ہوچکی ہے۔ اس کا سبب کیا ہے؟ محض دین و سیاست کی تفریق۔ اہلِ سیاست دینی اور اخلاقی اصول کو ماننے پر تیار نہیں، وہ بدستور دھوکے، فریب اور جبرو تشدّد کی سیاست چاہتے ہیں۔ اس صورتِ حال میں آخر مسائل کیسے حل ہوں اور امن و خوش حالی کا خواب کیوںکر شرمندئہ تعبیر ہو۔

یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ کسی بھی ملک میں اُس وقت تک امن قائم نہیں ہوسکتا، جب تک اس کے حکمران ،افسران اور صاحبِ حیثیت اصولوں کی پابندی نہ کریں۔ بصورتِ دیگر غربت، جبر و استبداد اور نا انصافی کا دَور دورہ رہے گا۔ لوگوں کے حقوق غصب کیے جاتے رہیں گے، باہمی دشمنی اور نفرت بڑھتی رہےگی۔ انسانوں کی ساری صلاحیتیں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے صرف ہوں گی، وہ ایک دوسرے کے خلاف برسرِ پیکار ہوں گے، جس کے نتیجے میں خلقِ خدا ہی کا خون بہے گا، تاریخ ِانسانی کا مطالعہ کیا جائے، تو پتا چلتا ہے کہ مختلف زمانوں میں وحشت و بربریت کے جو طوفان اٹھے، اُن کی وجہ صرف یہی تھی کہ حکمرانوں نے نظامِ زندگی چلانے کے لیے خدائی اصولوں یعنی دین کو پسِ پشت ڈال کر اپنی مرضی کے قوانین بنانےشروع کردیئے تھے۔ مختلف اقوام کو یہ حماقت لے ڈوبی کہ انہوں نے دین کو ضابطۂ حیات سمجھنے کی بجائے اسے صرف عبادات کا مجموعہ سمجھ لیا۔ زندگی کیا ہے، یہ ایک مکمل اکائی ہے، اسے مختلف خانوں میں تقسیم کرنا فطری اور منطقی اعتبار سے سراسر غلط ہے۔

دین اس کی روح ہے، تو سیاست اس کا جسم۔ جس طرح جسم سے روح نکل جائے تو سوائے بے جان لاشے کے کچھ نہیںبچتا، اسی طرح دین و سیاست کی تفریق بھی انسانیت کی تباہی و ہلاکت پر منتج ہوتی ہے۔ اسلامی جہاد کا مقصد غیر اللہ کی حکمرانی کا خاتمہ اور حاکمیتِ الٰہی کا قیام ہے، جس کے تناظر میں مذہب، اخلاقیات، تہذیب، ثقافت، معیشت، معاشرت، قانون اور تعلیم غرض نظامِ زندگی کے سارے شعبوں میں اسلام کو غالب اور نافذ کرنا مسلمان حکمرانوں اور اسلامی ریاست کے باشندوں کی اجتماعی ذمّے داری ہےاور اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ اقوامِ عالم کے مسائل کا حل بھی صرف اور صرف اسلامی اصول اپنانے اور دین و دنیا کی تفریق سے بالاتر ہونے میں پوشیدہ ہے۔