کورونا وائرس ویکسین

February 28, 2021

پاکستان میں کورونا وائرس سے بچاؤ کے لیے حفاظتی ٹیکوں (ویکسی نیشن) کی مُہم کا باقاعدہ آغاز ہو چُکا ہے۔ پہلے مرحلے میں ہیلتھ کیئر ورکرز کو یہ ویکسین لگائی جارہی ہے، جس کے بعد 60سال یا اس سے زائد عُمر کے لوگوں اور آخر میں 18سال یا اس سے زائد عُمرکے لوگوںں کو لگائی جائے گی۔ گزشتہ برس سے دُنیا بَھر میں کورونا وائرس کی ویکسین کی تیاری اور خریداری کا عمل جاری تھا۔ مختلف مُمالک کووِڈ-19کی ویکسین تیار کرنے کی دوڑ میں شامل تھے اوربالآخر مختلف کمپنیز کی ویکسینز تحقیق کے کئی مراحل سے گزرنے کے بعد نہ صرف تیار ہوچُکی ہیں، بلکہ پوری دُنیا میں سب سے زیادہ طلب بھی ان ہی کی ہے۔

سرکاری سطح پر ہمارے مُلک میں جن ویکسینز کے استعمال کا باقاعدہ طور پراعلان کیا گیا ہے، اُن میں چین کی تیار کردہ ویکسین سائنو فارم (Sinopharm Vaccine)، آکسفورڈ یونی ورسٹی کی آسڑازنیکا (AstraZeneca Vaccine) اور روس کی تیار کردہ اسپٹنک (Sputnik Vaccine)شامل ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق مُلک بھر میں سال2021ء کے دوران تقریباً سوا کروڑ افراد کے لیے ویکسین مہیا کی جائے گی، جس کی17لاکھ ڈوزز60برس سے زائد عُمر والوں کے لیے ہیں۔ ایک ویکسین کی اندازاً قیمت 10ڈالر ہے، جو پاکستانی قریباً 15ہزار روپے بنتے ہیں۔

8دسمبر 2020ء وہ تاریخی دِن ہے، جب امریکا اور جرمنی کی دو ادویہ ساز کمپنیز کے اشتراک سے تیار کردہ ویکسین برطانیہ میں ایک 91سالہ خاتون کو لگا کر کورونا وائرس کے خلاف ویکسی نیشن کے عالمی پروگرام کا آغازکیا گیا۔ پاکستان کو چین کی تیارکردہ ویکسین کی فراہمی کا آغاز ہوچُکا ہے۔ گرچہ یہ قدرے تاخیر سے فراہم کی گئی، پھر فوری طور پر عام افراد تک اس کی رسائی بھی ممکن نہیں اور کب تک ہوگی، اس حوالے سے بھی حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جاسکتا، جب کہ آئندہ چند ماہ تک عالم گیر وبا کے مکمل خاتمے کے بھی کوئی امکانات نظر نہیں آرہے۔

لیکن خوش آئند امر یہ ہے کہ بہرحال ویکسین کی صُورت اُمید کی ایک کرن ضرور جاگی ہے۔ مُلک بَھر میں ویکسی نیشن کے آغاز کے ساتھ ہی منفی پروپیگنڈے کا بھی آغاز ہوگیا ہے ،تو اس ضمن میں جہاں ویکسین سے متعلق ہر سطح تک آگہی پھیلانے کی اشدضرورت ہے، وہیںویکسین مہیا ہونے کے باوجود بھی ہمیں اس وبائی مرض سے محفو ظ رہنے کے لیے احتیاطی تدابیر پر عمل کرنا ہوگا، خاص طور پر ماسک پہننا، بار بار ہاتھ دھونا یا سینیٹائز کرنا اور سماجی فاصلہ برقرار رکھنا ہی ہے۔جب کہ کسی بھی قسم کی لاپروائی اور غیر سنجیدگی کا مظاہرہ بھی نہ کیا جائے۔

چوں کہ اس نئے وائرس سے متعلق جامع معلومات دست یاب نہ ہونے کے نتیجے میں ماضی میں بھی کئی افواہیں اور غلط اطلاعات زیرِگردش رہیں، تو ویکسی نیشن مُہم کے آغاز کے بعد بھی کئی بھی غلط فہمیاں اور مَن گھڑت کہانیاں عام ہورہی ہیں، جن کا حقیقت سےکوئی تعلق نہیں۔ خصوصاً ویکسین کے محفوظ ہونے کے حوالے سے طرح طرح کےسوالات اُٹھائے جارہے ہیں اور ان خدشات کو زیادہ تقویت اُس وقت ملی، جب ایک نرس کو آن کیمرا ویکسین لگانے کے فوراً بعد مشہور کر دیا گیا کہ اُس کا انتقال ہو گیا ہے۔ حالاں کہ اس نرس کو صرف چکّر آئے تھے، جیسا کہ کسی کو بھی انجیکشن لگنے کے بعد آسکتے ہیں اور اس بات کی وضاحت مذکورہ نرس نے ہوش میں آنے کے بعد پریس کانفرنس کے ذریعے کر بھی دی تھی، لیکن پروپیگنڈے کے زیرِاثر معاشرے میں کسی خبر کا ایک پہلو دیکھنے کے بعد حقیقت جاننے کی کوشش ذراکم ہی کی جاتی ہے۔

واضح رہے، لاکھوں کی تعداد میں مریضوں کو ویکسین لگانے اور اس کے بے ضرر ہونے کی بَھر پور تسلّی کے بعد ہی اس کے استعمال کی منظوری دی گئی ہے،جب کہ جانچ کے تمام تر مراحل میں کسی بھی موقعے پر اسے ناقابلِ تلافی مضر اثرات پیدا کرنے کا باعث نہیں پایا گیا۔ ایک تصوّر یہ بھی عام ہے کہ معالجین زبردستی لوگوں کی ویکسی نیشن کرنا چاہتے ہیں۔ تو ڈاکٹرز کا کام آگاہی فراہم کرکے اُنہیں ویکسین کے لیے آمادہ کرنا ہے، نہ کہ زبردستی ویکسی نیشن کرنا۔ بہرکیف، معالجین کی پہلی ترجیح مریضوں کی جان بچانا ہے، لہٰذا اُن پر اعتماد کیا جائے۔ یہ بات گِرہ سے باندھ لیں کہ صحت سے متعلقہ معاملات میں اگر عوام النّاس کی ایک منظّم طریقے سے غلط رہنمائی کی جا رہی ہو، تو اس صُورت میں ڈاکٹرز کی رائے اور رہنمائی خاصی اہم گردانی جاتی ہے۔

ایک ایسے وقت، جب ہمارے مُلک میں کووِڈ-19کی ویکسین کا پہلا مرحلہ جاری ہے، یہ بحث کرنا کہ کورونا وائرس کی ویکسین حلال ہے یا حرام؟درست نہیں۔ یاد رکھیے، کسی بھی شئے کو حرام یا حلال قرار دینا علمائے کرام کا کام ہے اور مستند علماء نے کورونا وائرس کی ویکسین کا استعمال جائز قرار دیا ہے۔علاوہ ازیں، یہ کہنا کہ ویکسی نیشن کے ذریعے جسم کے اندر ایک مخصوص چِپ داخل کرکے لوگوں کو ٹریک کیا جا رہا ہے اور یہ عمل کسی عالمی سازش کا حصّہ ہے۔تو یہ بھی سراسر مَن گھڑت اور بے بنیاد باتیں ہیں، جن سے ہمیں دُور رہنا چاہیے۔ دُنیا بَھر کے خود مختار متعلقہ اداروں نے کورونا وائرس ویکسین کو منظور کیا ہے اور اس میں کسی بھی قسم کی چِپ کی موجودگی نہیں پائی گئی۔

ویسے بھی لوگوں کی نقل و حرکت معلوم کرنے کے کئی دیگر ذرائع موجود ہیں، جیسے موبائل فون، واٹس ایپ وغیرہ۔ لہٰذا نقل و حرکت پر نظر رکھنے کے لیے ایک نئی ویکسین بنانے جیسا مشکل کام کرنا، سمجھ سے باہر ہے۔ پھر بعض افراد ادویہ ساز کمپنیز کو قابلِ بھروسا نہیں سمجھتے، اس بناء پر ویکسین کے استعمال سے انکار کرتے ہیں۔ ہاں یہ ممکن ہو سکتا ہے کہ ماضی میں کبھی کسی کمپنی نے ناپسندیدہ اور غیر اخلاقی کام کیے ہوں، لیکن گِنی چُنی مثالوں کو بنیاد بنا کر شک کرنا قطعاً مناسب نہیں۔ ان معروف کمپنیز نے شب وروز تحقیق کے بعد متعدّد ادویہ بھی متعارف کروائی ہیں، جو برسوں سے مسلسل استعمال کی جا رہی ہیں، لہٰذا یہ کہنا کہ ویکسین تیار کرنے کا بنیادی مقصد عالمی سازش کا حصّہ بننا ہے، بالکل غلط ہے۔

بعض افراد اس شبہے کا اظہار بھی کررہے ہیں کہ چوں کہ ویکسین کم عرصے میں تیار کی گئی ہے، لہٰذا یہ کووِڈ-19سے بچاؤ کے لیے غیر مؤثر ثابت ہوسکتی ہے۔ دراصل کم عرصے میں ویکسین بننے اور منظور ہونے کی وجہ یہ تھی کہ عالمی سطح پر اس وبا سے نمٹنے کے لیے دُنیا بَھر کے سائنس دانوں نے غیر معمولی رفتار سے کام کیا اور کئی برسوں کا کام مہینوں میں مکمل کرلیا۔اس کے ساتھ لائسنس جاری کرنے والے اداروں نے بھی اس وبا کے تیز پھیلاؤ کو مدِّنظر رکھتے ہوئے تیز رفتاری سے منظوری کے تمام مراحل مکمل کیے ہیں۔ بعض افراد کا یہ خیال کہ جب کورونا وائرس سے بیش تر افراد صحت یاب ہو ہی جاتے ہیں، تو پھر ویکسین کروانے کی کیا ضرورت ہے؟

تو یہ حقیقت کیسے جھٹلائی جاسکتی ہے کہ دُنیا بَھر میں لاکھوں افراد کورونا وائرس کی وجہ سے لقمۂ اجل بھی بنے اور لاکھوں اس وائرس کے لاحق ہونے کےنتیجے میں شدید قسم کی پیچیدگیوں کا شکار ہیں۔ یاد رکھیے، ویکسین کے معمولی اور وقتی مضر اثرات، جان جانے یا مختلف پیچیدگیاں لاحق ہونے کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں۔ایک مخصوص حلقے کا کہناہے کہ ہمیں معاشرے میں قدرتی طور پر قوّتِ مدافعت پیدا ہونے کا انتظار کرنا چاہیے۔تو اس طرح کی قوّتِ مدافعت تب ہی پیدا ہو سکتی ہے، جب عوام کی اکثریت کورونا وائرس کا شکار ہو چُکی ہو۔

عالمی ادارۂ صحت کے مطابق دُنیا بَھر میں کروڑوں افراد کورونا وائرس سے متاثر ہوئے ہیں، تو لاکھوں لقمۂ اجل بن چُکے ہیں، جب کہ قدرتی قوّتِ مدافعت پیدا کرنے کے لیے اس سے بھی زیادہ افراد کے متاثر ہونے اور موت کے منہ میں جانے کا خدشہ ہے، جو تباہ کُن ثابت ہو سکتا ہے۔ اس ضمن میں اپنی قوّتِ مدافعت مضبوط کرنے پر دھیان دیا جائے، جس کے لیے مناسب آرام، باقاعدگی سےورزش اورمتوازن غذا کا استعمال ضروری ہے، جب کہ تمباکو نوشی اور دیگر نشہ آور اشیاء سے اجتناب برتا جائے۔

پاکستان میں کورونا ویکسی نیشن کے ضمن میں ایک مربوط اور منظّم نظام ناگزیر ہے، جو سیاست، علاقائیت اور ذاتی مفادات سے مکمل طور پر بالاتر ہو اور قومی ہم آہنگی کا آئینہ دار ہو۔ بظاہر محسوس ہوتا ہے کہ حکومت کی جانب سے ویکسین کی خریداری، بکنگ اور ترسیل کے تمام مراحل سُست روی کا شکار ہیں۔ نجی سیکٹرز تک ویکسین کی ترسیل، عام آدمی کی قوّتِ خرید میں رکھنے، بلیک مارکیٹنگ اور مصنوعی قلتسے روکنے کے لیے قانون سازی اور تمام مراحل کی نگرانی وقت کا تقاضا ہے۔

چوں کہ کووِڈ-19 ویکسین اس وبائی مرض سے بچاؤ کے لیے اللہ کی رحمت و کرم کے بعد اُمید کی واحد کرن ہے، اس لیے حکومت عام افراد تک اس کی رسائی سہل بنانے کے لیے بہترین حکمتِ عملی مرتّب کرے اور یقینی طور پر حکومت، عوام کو اس موذی مرض سے بچاؤ کے سفر میں تنہا نہیں چھوڑے گی۔ جیسا کہ کورونا کے آغاز ہی سے سیاسی چپقلش اور یک ساں پالیسی کے فقدان کے باعث قابلِ حصول فوائد حاصل نہیں کیے جا سکے تھے،لیکن اب حکومت اور تمام طبقات قومی ہم آہنگی کا مظاہرہ کریں کہ یہ انسانی زندگیوں کا معاملہ ہے۔ ہیلتھ کیئرورکرز کی(جن میں ڈاکٹرز اور نرسز کے علاوہ وہ تمام عملہ بھی شامل ہو، جو کورونا وائرس سے متاثرہ اور عمومی طور پر دیگر عوارض میں مبتلا مریضوں کی دیکھ بھال کرتا ہے) ترجیحی بنیادوں پر ویکسی نیشن کی جائے۔

اس میں نجی اداروں میں خدمات انجام دینےوالے ہیلتھ کیئر ورکرز کو بھی شامل کیا جائے۔ ویکسی نیشن سینٹرز پر ہجوم، بےقاعدگی اور اقربا پروری جیسے ناخوش گوار واقعات بھی رونما ہوسکتے ہیں، جنہیں روکنا بہرحال مرکزی و صوبائی حکومتوں کا اوّلین فرض ہے۔ حکومت پر یہ ذمّے داری بھی عائد ہوتی ہے کہ وہ میڈیا کے ذریعے ویکسی نیشن کی افادیت سے متعلق معلومات عام کرنے کے ساتھ عوام میں پائے جانے والے شہبات بھی دُور کرے۔ علاوہ ازیں، قابلِ بھروسا، تجربہ کار اور سینئر ڈاکٹرز بھی اپنے طور پر عوام کو مثبت پیغام دیں۔ عوام کے تحفظات دُور کرنے کے لیے ایک ہیلپ لائن قائم کی جائے اور اس ضمن میں حکومت کے ساتھ نیم سرکاری اور نجی اداروں کو بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ یاد رہے، پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن (پیما) نے کورونا وائرس سے متعلق عوامی آگاہی مُہم میں نہ صرف بَھرپور حصّہ لیا، بلکہ اس مُہم کا دائرہ کار وسیع کرنے کے بھی اقدامات کررہی ہے۔

(مضمون نگار، معروف کنسلٹنٹ فزیشن اور ماہرِامراضِ گُردہ ہیں۔ پاکستان کڈنی اینڈ لیور انسٹی ٹیوٹ، لاہور میں بطور ڈین خدمات انجام دیں، جب کہ پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن (پیما) کے مرکزی صدر بھی رہ چُکے ہیں)