پاک چین دوستی زندہ باد

March 01, 2021

پاک چین سفارتی تعلقات کے 70سال پورے ہو رہے ہیں اور یہ خوش آئند امر ہے کہ پاکستانی معاشرے میں جس معاملے پر اختلاف موجود نہیں ہے، اس میں چین سے دوستی سرفہرست ہے۔ پاکستان میں چین سے قریبی تعلقات قائم کرنے کی افادیت کے حوالے سے مثبت رائے چینی انقلاب کے روبہ عمل ہونے کے ساتھ ہی قائم ہو گئی تھی۔ جب 2015میں چینی صدر شی نے پاکستان کا اپناپہلا دورہ کیا تو انہوں نے اس حوالے سے ایک مضمون تحریر کیا جس میں انہوں نے اپنے جذبات یوں بیان کئے:

When I was young, I heard many touching stories about Pakistan and the friendship between our two countries. To name just a few, I learned that the Pakistani people were working hard to build their beautiful country, and that Pakistan opened air corridor for China to reach out to the world and supported China on restoring its lawful seat in the United Nations. The stories have left me with a deep impression.

ان الفاظ میں موجود پاکستان کے لئے اپنائیت پاکستان کے لئے قومی اثاثے کی حیثیت رکھتی ہے، یہ کوئی ایسا جنوں نہیں ہے کہ چڑھا اور اتر گیا بلکہ دونوں ممالک کے صاحب الرائے اور مقتدر افراد کی سوچی سمجھی رائے ہے کہ یہ دوستی مزید گہری ہونی چاہئے۔ جب 1949میں چین میں کمیونسٹ انقلاب آ گیا تو دنیا میں سرمایہ داری اور کمیونزم میں شدید جھگڑا چل رہا تھا۔ غیرکمیونسٹ ممالک چینی انقلاب کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نظر نہیں آتے تھے مگر ان حالات میں انقلاب کے صرف تین ماہ بعد 4جنوری 1950کو پاکستان نے اپنا ایک اعلیٰ سطحی وفد چین روانہ کردیا اور معاملات سفارتی تعلقات کے قیام کی جانب بڑھنے لگے۔ دونوں ممالک کے درمیان 21مئی 1951کو باقاعدہ سفارتی تعلقات قائم ہو گئے، خیال رہے کہ پاکستان مسلمان ممالک میں وہ پہلا ملک تھا جس نے چینی انقلاب کے بعد اس سے سفارتی تعلقات قائم کئے جبکہ غیرکمیونسٹ ممالک میں تیسرا ملک تھا جس نے یہ قدم اٹھایا۔ اس سے باآسانی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ شہیدِ ملت نوابزادہ لیاقت علی خان کی حکومت اس معاملے کا کتنی معاملہ فہمی سے جائزہ لے رہی تھی۔ اس کے بعد 1955میں چین کی طرف سے اعلیٰ سطحی وفد نائب صدر Madam Song Chingکی قیادت میں پاکستان پہنچا جبکہ جواب میں وزیراعظم حسین شہید سہروردی نے 1956میں چین کا دورہ کیا۔ 1963 میں کیے گئے پاکستان اور چین کے مابین باؤنڈری ایگریمنٹ کو اہم ترین دستاویز کی حیثیت حاصل ہے کیونکہ اس کے نتیجے میں ہی چین کے ساتھ تمام سرحدوں کو باقاعدہ تسلیم کیا گیا تاکہ مستقبل میں کوئی اختلاف پیدا نہ ہو۔ پاکستان غیرکمیونسٹ ممالک میں وہ پہلا ملک بنا جس کی ایئر لائن نے بیجنگ کے لئے 1964میں فلائٹس کا آغاز کیا۔ اور دنیا سے چین کی تنہائی کو کم کرنے کے لئے اپنا کردار ادا کرنا شروع کر دیا۔ اسی طرح 1976میں سائنٹیفک اینڈ کلچرل کوآپریشن کا معاہدہ ہوا جس نے سائنسی امور کے حوالے سے پاکستانیوں کیلئے نیا راستہ کھول دیا۔ 1978میں قراقرم ہائی وے نے پاکستان کو مغربی چین سے ملا دیا جبکہ چین کے لئے بحیرہ عرب تک رسائی بھی ممکن ہو گئی۔ اسی طرح 1995میں پاکستان، چین، قازقستان اور کرغیزستان کے درمیان ٹرانزٹ ٹریڈ کا معاہدہ ہوا اور سینٹرل ایشیا سے لے کر یوریشیا تک کے راستے کھلنے لگے۔ پاکستان کو اپنے قیام کے وقت سے ہی بھارت سے دفاعی خطرہ درپیش رہا ہے، اس درپیش خطرے اور بھارت کی فضائی برتری کو قائم نہ ہونے دینے کے لئے نواز شریف حکومت نے 1999میں چین سے جے ایف 17تھنڈر لڑاکا طیارے بنانے کا معاہدہ کیا اور یہ لڑاکا طیارے 2010میں پاکستان کے فضائی بیڑے میں شامل ہو گئے۔ 2013میں زرداری حکومت کے دور میں چینی وزیراعظم لی پاکستان آئے اور Comprehensive Strategic Cooperationکے تصور پر دونوں ممالک نے گفتگو کی۔ 2013میں پاکستان میں نواز شریف حکومت قائم ہو گئی تھی، اسی سال انہوں نے چین کا دورہ کیا اور Vision for deeping China-Pakistan strategic partnership in the new era پیش کیا گیا اور پھر صدر شی نے 2015میں پاکستان کا تاریخی دورہ کیا جس میں بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کے چینی پلان کے بنیادی منصوبے سی پیک پر دستخط ہوئے۔ اس حوالے سے کوئی دوسری رائے قائم نہیں کی جا سکتی ہےکہ کسی بھی قسم کے حالات ہمارے باہمی تعلقات کو بگاڑ نہیں سکتے مگر یہ قابلِ تشویش ہے کہ 2018کی ’’سیاسی تبدیلی‘‘ کے بعد ایک خاموشی سی محسوس ہونے لگی ہے اور سی پیک پر خاموشی بہت غیرمناسب ہے۔ ویسے ہی ہماری دنیا میں سفارتی پوزیشن کمزور ہو رہی ہے۔ اس وقت چینی سفارتی حلقے یہ استفسار کرتے نظر آتے ہیں کہ پاکستان کے مستقبل کا سیاسی منظر نامہ کیا ہوگا؟ کیونکہ وہ صدر شی کا اپریل کے بعد دورۂ پاکستان پلان کر رہے ہیں مگر مؤخر ہونے کا اندیشہ بھی ظاہر کیا جا رہا ہے اگر ایسا ہوا تو یہ بہت غیرمعمولی بات ہو گی۔