اللہ ہی شفا دیتا ہے

March 07, 2021

یہ 1969ء کا واقعہ ہے۔ تب میں دسویں جماعت میں تھا اور گرمیوں کی چھٹیوں میں اپنے بہنوئی حاجی عبداللہ کے گھر گیا ہوا تھا۔ وہ فورٹ عباس کے ایک گائوں چک نمبر 311میں رہتے تھے۔ اُس دَور میںیہ گائوں انتہائی پس ماندہ تھا۔ دُور دُور تک کھیتوں کا ایک طویل سلسلہ تھا، جس کے اطراف زیادہ تر مٹّی کے کچّے مکانات تھے۔ مجھے دیہی ماحول بہت پسند تھا، اسی لیے جب بھی موقع ملتا، وہاں چلا جاتا تھا۔ اہم بنیادی سہولتوں سے محروم اُس گائوں میںبجلی کا تو نام و نشان بھی نہیں تھا۔ لوگ صبح کا آغاز نقّارے کی آواز سے کرتے اور مساجد میں بغیر اسپیکر کے اذان دی جاتی تھی۔

علی الصباح نقّارے کی آواز سنتے ہی گائوں کے لوگ بیدار ہوتے اور اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہوجاتے۔ میرے بہنوئی، حاجی عبداللہ، گائوں کےمعروف حکیم تھے، اُن کے ہاتھ میں اللہ تعالیٰ نے کافی شفا دی تھی، گائوں کے علاوہ آس پڑوس کے دیہات سےبھی لوگ اُن سے علاج کروانے آتے تھے۔ حاجی عبداللہ نے اپنے مطب کے ساتھ ایک جنرل اسٹور بھی کھول رکھا تھا، جہاں سے لوگ ادویہ اور دیگر سودا سلف بھی خریدلیتے تھے۔ مَیں جب یہاں آتا، تو پڑھائی کے ساتھ حاجی صاحب کا ہاتھ بھی بٹاتا تھا۔

ایک دن میں دکان میںبیٹھا، پڑھ رہا تھا کہ اونچی پگڑی پہنے ایک صاحب، حاجی صاحب کے پاس تشریف لائے۔ وہ قیمتی لباس میں ملبوس تھے اورشکل و صورت سے چوہدری لگ رہے تھے۔ انہوں نے مطب میںداخل ہوتے ہی حاجی صاحب سے گرم جوشی سے مصافحہ کیا اور پھر اپنے تعارف اور علیک سلیک کے بعد انتہائی پریشانی کے عالم میں بتایا کہ ’’حاجی صاحب! میرا ایک ہی بیٹا ہے، اس کا نام سلیم ہے، جو خاندان کا اکلوتا وارث بھی ہے۔ کچھ عرصہ قبل اس کے پیر میں نہ جانے کس طرح ایک پھوڑا نکل آیا، جو بڑھتے بڑھتے پورے پیر میں پھیل گیا ہے۔

شہر کے بڑے بڑے ڈاکٹروں کو دکھایا، مگر کوئی افاقہ نہیں ہوا۔ اب تو سب نے جواب دے دیا ہے اور کہتے ہیں کہ اس کی ٹانگ کاٹنی پڑے گی۔ آپ کے بارے میں معلوم ہوا، تو ہم ایک آخری امید لے کر آپ کے پاس آئے ہیں، خدارا! ممکن ہو تو اس کا علاج کریں، ہم آپ کو منہ مانگی فیس ادا کریں گے۔‘‘ میرے بہنوئی نے ساری رُوداد سننے کے بعد اُنہیں تسلّی دیتے ہوئے کہا۔ ’’اللہ تعالیٰ خیر کرے گا، چوہدری صاحب! مایوسی کفر ہے، آپ بالکل پریشان نہ ہوں، اپنے بیٹے کو چند روز کے لیے میرے پاس چھوڑ دیں، مَیں اس کا ہر ممکن علاج کرنے کی کوشش کروں گا۔ اللہ نے چاہا، تو آپ کا بیٹا تندرست ہوجائے گا۔ آپ حوصلے کے ساتھ اپنے گھر چلے جائیں۔‘‘ بہنوئی کی باتوں سے چوہدری صاحب کے چہرے پر اطمینان کی لہر دوڑ گئی۔

انہوں نے اپنے بیٹے کو بڑے پیار سے وہاں چند دن گزارنے پر راضی کرنے کے بعد کچھ ہدایات دیں اور خود پُرامید ہوکر اپنے گائوں چلے گئے۔ اُن کے جاتے ہی حاجی صاحب نے مجھ سے کہا۔ ’’بیٹا تاج دین! کھیتوں کی طرف جائو اور نیم کے درخت سے کچھ پتّیاں توڑ کر لے آئو۔‘‘ مَیں دوڑتا ہوا کھیتوں میں گیا اور نیم کی اچھی خاصی پتّیاں توڑ لایا۔ حاجی صاحب نے ان پتّیوں کو گرم پانی میں اُبالا اور چوہدری کے بیٹے کی ٹانگ اچھی طرح صاف کرکے ان نیم کی پتّیوں پر مرہم رکھ کے پٹّی کردی۔ اور اُسے آرام کی غرض سے چارپائی پر لٹادیا۔ اُس کے بعد میں روزانہ صبح و شام نیم کی پتّیوں سے چوہدری سلیم کی ٹانگ دھوتا اور حاجی صاحب اُس کے زخم پر مرہم پٹّی کردیتے۔

آہستہ آہستہ اُس کے پیر کا زخم سوکھنے لگا اور چند روز بعد آدھی سے زیادہ ٹانگ ٹھیک ہوگئی۔ چوہدری کے گھر سے روزانہ کوئی نہ کوئی اُسے دیکھنے آتا۔ تیزی سے بھرتے زخم دیکھ کر وہ حاجی صاحب کو بہت دعائیں دیتے تھے۔ آخرکار اللہ تعالیٰ کے کرم سے حاجی صاحب کی محنت رنگ لائی اور چوہدری کے بیٹے کا زخم مکمل طورپر مندمل ہوگیا۔ وہ بالکل تندرست و توانا ہوکر اپنے پیروں پر چلنے لگا۔

ایک روز میں درخت کے سائے تلے بیٹھ کراپنے اسکول کا کام کررہا تھا کہ دُور سے ڈھول بجاتے لوگوں کو مطب کی جانب آتے دیکھا۔ قریب آئے تو ڈھول کی آواز تیز ہوگئی، لوگوں کا ایک جمِ غفیر تھا، جو زور زور سے ’’حاجی صاحب! زندہ باد‘‘ کے نعرے لگارہے تھے۔ حاجی صاحب زندہ باد کے نعرے سُنے تو میری سمجھ میں سب کچھ آگیا۔ کچھ دیر بعد وہ سب مطب کے ارد گرد بیٹھ گئے۔ حاجی صاحب نے فوراً ٹھنڈے مشروب کا انتظام کیا۔

چوہدری صاحب اپنے ساتھ پھولوں اور نوٹوں سے آراستہ ایک خُوب صُورت بھینس کے علاوہ بکریاں اور مرغیاں بھی لائے تھے، جو انہوں نے حاجی صاحب کی خدمت میں عقیدت و احترام سے پیش کیں اور اُن کا تہہ دل سے شُکریہ ادا کرکے ہنسی خوشی اپنے بیٹے چوہدری سلیم کو گھوڑےپر بٹھا کر اپنے ساتھ لے گئے۔ پچاس برس قبل کا یہ واقعہ آج بھی جب مجھے یاد آتا ہے، اُس دور کی سادہ زندگی اور اخلاقی اقدار و کردار کے لوگ نگاہوں کے سامنے آجاتے ہیں کہ کیسے میرے بہنوئی نے بالکل دیسی طریقے سے لڑکے کا علاج کیا اور اللہ تعالیٰ نے مکمل شفا دے دی۔ (سائیں تاج دین بٹ، عدیل ٹاؤن، فیصل آباد)