سمیرا غزل
رات آنچل میں میرے پگھلتی رہی
چاندنی رات بھر مجھ پہ ڈھلتی رہی
تارے کرتے رہے مجھ سے سرگوشیاں
مجھ پہ صُورت بھی آخر وہ کھلتی گئی
وہ جو خوابوں کی مٹّی سے گوندھے گئے
ایسے کوزوں کے درپن جو گھلتی گئی
نیند آتی گئی تارے گِنتے ہوئے
اور جھلک چاند سے میری ملتی گئی
اِک سمندر تھا تکتا رہا رات بھر
بن کے دریا مَیں اس میں نکلتی رہی