سینیٹ انتخابات

March 02, 2021

کل سینیٹ آف پاکستان کے انتخابات ہو رہے ہیں۔ ان انتخابات کے نتائج جو بھی ہوں گے لیکن ان نتائج کے اثرات اپوزیشن پر کم اور حکومت پر زیادہ پڑیں گے۔ سینیٹ کے انتخابات میں سب سے اہم نشست اسلام آباد کی ہے۔ جس پر حکومتی امیدوار حفیظ شیخ، جن کے پاس خزانہ کا قلمدان بھی ہے اور اپوزیشن کے مشترکہ امیدوار سابق وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی مد مقابل ہیں۔یوسف رضا گیلانی کاتعلق پیپلز پارٹی سے ہے۔ اس نشست کی اہمیت اس لئے زیادہ ہےکہ اس انتخاب کے لئے ووٹ ارکان قومی اسمبلی دیں گے۔ اگر یوسف رضا گیلانی یہ نشست جیت جاتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ اپوزیشن کے تمام اراکین قومی اسمبلی کے علاوہ تحریک انصاف اور بعض اتحادی جماعتوں کے اراکین قومی اسمبلی نے بھی اپوزیشن امیدوار کوووٹ دیے۔

جس سے اخلاقی طور پر یہ تاثر لیا جا سکتا ہے کہ قومی اسمبلی میں وزیر اعظم کے لئے مطلوبہ ووٹوں میں کمی آ گئی ہے۔ ایسی صورت میں یا تو وزیر اعظم خود پارلیمنٹ سے اعتماد کا ووٹ لیںاوربصورت دیگر اپوزیشن ان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کر سکتی ہے۔ ان خدشات کے پیش نظر حکومت نے سپریم کورٹ میں صدارتی ریفرنس داخل کیا کہ سینیٹ انتخابات میں ووٹ کی خریدو فروخت روکنے کیلئے یہ انتخابات خفیہ کے بجائے ہاتھ اٹھا کر ووٹ دینے پر عدالت اپنی رائے دے۔ 17روزہ سماعت کے بعد سپریم کورٹ نے اس ریفرنس پر اپنی رائے دے دی۔ ابتدائی فیصلے کے مطابق سینیٹ کے انتخابات آئین کے آرٹیکل 226کے تحت ہی خفیہ رائے شماری کے ذریعہ ہونے چاہئیں۔ البتہ شفاف انتخابات کیلئے الیکشن کمیشن کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ اس کیلئے تمام تر ٹیکنالوجی استعمال کر سکتا ہے۔

پنجاب میں سینیٹ الیکشن میں امیدواروں کی بلا مقابلہ کامیابی حکومت اور اپوزیشن کے ہاتھ ملانے کا نتیجہ ہے،وہاں نہ خفیہ بیلٹ نہ اوپن ہینڈ، یہ شاید اپنی نوعیت کا پہلا باہمی مفاہمت کا فارمولا ہے۔ جب فریقین اپنے اپنے مفادات کیلئے ایک انجمن مفاہمت باہمی سینیٹ انتخابات کے لئے پنجاب میں بنا سکتے ہیں تو باقی صوبوں اور وفاق میں بھی تو ایسا کیا جا سکتا تھا۔

بہرحال یہ ایسے معمے ہیں جو سمجھنے کے ہیںنہ سمجھانے کے۔بات وفاق کی نشست کی ہورہی تھی تو اس ضمن میں صورتحال یہ ہے کہ اگر یوسف رضا گیلانی جیت جاتے ہیں یا حفیظ شیخ تو کیا ہو سکتا ہے۔ اگر یوسف رضا گیلانی جیت جاتے ہیں تو پی ڈی ایم اپنے طے شدہ منصوبے کے تحت تحریک عدم اعتماد پیش کرے گی۔ علاوہ ازیں وہ چیئرمین سینیٹ کے لئے بھی اپوزیشن کے مشترکہ امیدوار ہوں گے اور اگر حفیظ شیخ جیت جاتے ہیں تو اپوزیشن اپنے پلان کے مطابق اس مہینے لانگ مارچ کرے گی اور اسلام آباد میں دھرنا دے گی۔

صوبائی سطح پر سندھ ،بلوچستان اور خیبر پختونخوا میںحکومت کیلئے مشکلات نظر آ رہی ہیں۔ بلوچستان میں12نشستوں پر حکمران جماعت اور اپوزیشن کے درمیان سخت مقابلہ ہو گا جس کے نتائج حیران کن ہونگے۔ یہاں پر حکمران جماعتوں بلوچستان عوامی پارٹی اور تحریک انصاف میں امیدواروں کو ٹکٹ دینے کے معاملہ پر شدید تحفظات و اختلافات ہیں، بلوچستان کی بعض سیاسی قد آور شخصیات میں اتحاد و اختلاف نے معاملے کو اور زیادہ گھمبیر بنا دیا ہے جس کا نقصان حکومتی اراکین کو ہو سکتا ہے۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کی واضح اکثریت اپنی جگہ ہے لیکن ٹکٹوں کی تقسیم پر سندھ میں تحریک انصاف میں شدید اختلافات موجود ہیں اور اس وجہ سے یہاں پر تحریک انصاف واضح طور پر دو دھڑوں میں تقسیم ہے۔ اس کے علاوہ جی ڈی اے میں شامل جماعتوں میں بھی وہ ایکا نظر نہیں آتا جو گزشتہ عام انتخابات میں دیکھا گیا تھا۔ایم کیو ایم بھی کشمکش کا شکار ہے۔ اس طرح صوبہ کے پی میں صورتحال اور بھی زیادہ تبدیل اس وقت ہوئی جب اپوزیشن کی تمام جماعتوں بشمول جماعت اسلامی کے مشترکہ امیدواران سامنے لانے اور ایک دوسرے کی حمایت کا فیصلہ کیاگیا۔ یہاں بھی تحریک انصاف کے اندر تحفظات ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان نے اگرچہ وزیر اعلیٰ محمود خان اور عاطف خان کے درمیان صلح تو کرا دی ہےلیکن ٹکٹوں کی تقسیم پر پی ٹی آئی کے درمیان اختلافات موجود ہیں۔ ویڈیو دکھانے کے معاملہ پر بھی ان کے اپنے اراکین صوبائی اسمبلی بددل ہیں۔ ان تمام وجوہات کے پیش نظر مذکورہ تینوں صوبوں اور وفاق میں حکومت کے لئے مشکلات ہو سکتی ہیں اور سینیٹ الیکشن کے آنے والے نتائج حیران کن ہو سکتے ہیںجس کے بعد ملکی سیاسی صورتحال یقیناً نیا رخ اختیار کرے گی اور بہت کچھ ادھر ادھر ہو سکتاہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)