اللہ امریکہ پر رحم کرے

June 01, 2013

ٹی وی آن کیا تو ہر طرف تباہی کے مناظر تھے۔تباہ شدہ گھر،سڑکیں،ٹوٹی پھوٹی کاریں۔جسے بھی دیکھیں بچشم نم۔ وسیع پیمانے پر دہشت گردی کے باعث ایسے مناظر اسلامی ممالک کے شہروں،قصبوں،دیہاتوں سے مشروط ہوکر رہ گئے ہیں لیکن یہ امریکہ کے شہر اوکلاہوما کے مضافات کے مناظر تھے۔جہاں تاریخ کے بدترین بگولے کی زد میں آکر سو سے زائد افراد ہلاک، سینکڑوں زخمی اور ایک ہزار سے زائد عمارتیں مکمل طور پر تباہ ہوگئیں۔ایک خاتون کہہ رہی تھیں ”میں بیان نہیں کرسکتی وہاں کیا ہوا۔ایک بہت بڑا بگولہ زمین اور فضا میں مسلسل گردش کر رہا تھا اور اپنی زد میں آنے والی ہر چیز کو برباد کررہا تھا۔لوگ مدد کے لئے بلا رہے تھے لیکن ایسا لگ رہا تھا کہ خدا ہم سے ناراض ہے اور اس نے بگولے کی شکل میں ہم پرعذاب بھیجا ہے“…”ہم نے ان پر تیز و تند ہوا بھیجی“۔۔۔”وہ ہوا فرشتوں کے بھی ہاتھوں سے نکل رہی تھی اتنی تیز و تند ہوا تھی کہ فرشتوں کے بھی قابو میں نہیں آرہی تھی“…”ہم ان کو ہوا کے ذریعے اٹھا کر آسمان کی طرف لے گئے اورپھر ان کو زمین پر پٹخا اور ایسے کردیا جیسے کھوکھلی کھجور“۔
امریکی فکر اور اسلوب کو سامنے رکھتے ہوئے تصور کیجئے اگر بگولے کی تشکیل اور امریکہ میں تباہی میں انسانی ہاتھ کارفرما ہوتا توکیا ہوتا۔اس کا تعلق فوری طور پر مسلم دہشت گردی سے جوڑ دیا جاتااور قرار دیا جاتاکہ”یہ امریکی تہذیب پر حملہ ہے۔یہ ہماری خامیوں پر نہیں بلکہ پاکدامنی پر حملہ ہے“۔حقیقت یہ ہے قدرتی آفات وجہ ہوں یا انسانوں کے پیدا کردہ سانحے انسانی جانوں کا زیاں ہر حال میں افسوسناک صدمے اور رنج کا باعث ہے۔ان کا تعلق کسی بھی قوم،ملک،نسل اور مذہب سے ہو۔لیکن امریکہ کے صدر اوباما ایسا نہیں سمجھتے۔وہ یکطرفہ انصاف کے اصول پر یقین رکھتے ہیں۔ان کی نظرمیں انسان صرف امریکہ میں رہتے ہیں جن کی جان و مال کا تحفظ امریکی حکومت اور عالمی برادری کی ذمہ داری ہے۔ گزشتہ دنوں واشنگٹن میں امریکہ کی انسداد دہشتگردی کی پالیسی کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ امریکہ نے یہ قانون بنا دیا ہے کہ امریکی سرزمین پر ڈرون حملے ناجائز ہیں لیکن دوسرے ملکوں کے شہریوں پر جائز ہیں۔ صدر امریکہ یہ سمجھتے ہیں کہ امریکی شہریوں کی سلامتی کیلئے ضروری ہے کہ امریکہ دوسرے ملکوں کے شہریوں پر میزائل برساتا رہے۔بیان میں یہ بات واضح نہیں کی گئی کہ دوسرے ملکوں کے ان ہلاک شدگان پر ازراہ”امریکی انسانیت نوازی“ ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی جائے گی یا نہیں اور امریکہ کی جانب سے کوئی تعزیتی پیغام بھی بھیجا جائے گا یا نہیں۔پاکستان میں سیکیورٹی اہلکاروں سمیت چالیس سے پچاس ہزار انسان امریکی دہشت گردی کا نشانہ بنے ہیں جس پر امریکہ کو کسی طرح کا افسوس ہے اور نہ ندامت۔ واشنگٹن میں انسداد دہشتگردی کے پالیسی بیان میں صدر اوباما نے رحم دلی کا عظیم مظاہرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ سی آئی اے سے ڈرون حملوں کی ذمہ داری لیکر فوج کو سونپ دی جائے گی۔یہ بات گمراہ کن ہے۔ٹھیک ہے آئندہ ڈرون حملوں کی سی آئی اے براہ راست ذمہ دار نہ ہوگی لیکن حملوں کے لئے خفیہ اطلاعات تو بہرحال سی آئی اے ہی فراہم کریگی۔ پینٹاگون کو حملوں کا اختیار دیئے جانے کے بعدممکن ہے کہ یہ مہذب راستہ اختیار کیا جائے کہ ایک طرف ڈرون میزائل برسائیں اور دوسری طرف امریکی جنگی جہاز خوراک کے ڈبے گرائیں۔ صدر اوباما نے تقریر میں ڈرون حملے ختم کرنے کی بات نہیں کی بلکہ ایک نئے مرحلے کا آغاز کیا ہے۔ البتہ اس نئے مرحلے میں بھی امریکہ کے سب سے بڑے اتحادی اور اسٹریٹیجک پارٹنر پاکستان کے بارے میں سب کچھ بدستور رہے گااور ڈرون حملوں کا کنٹرول سی آئی اے کے پاس ہی رہے گا۔ پاکستان میں امریکہ کو ایک سہولت اور حاصل ہے وہ یہ کہ پاکستان میں ڈرون حملوں کی اجازت پاکستان کے حکمران بنفس نفیس خود دیتے ہیں۔ پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جس کے حکمران دوسرے ملک سے اپنے شہریوں پر بمباری کراتے ہیں۔صدر اوباما نے اس تاثر کو رد کیا ہے کہ امریکہ اسلام کے خلاف حالت جنگ میں ہے۔امریکی صدر کا یہ کہنا دنیا بھر کے مسلمانوں کے اس ردعمل کے جواب میں ہے جو نہ منظم ہے اور نہ مربوط۔جس کا کوئی مرکز ہے اور نہ مشترکہ حکمت عملی لیکن اس کے باوجود امریکی حکمران اس خیال سے خوفزدہ ہیں۔دہشت گردی کے خلاف امریکی مہم میں عالم اسلام عدم تحفظ کا شکار ہے حالانکہ اسلامی دنیا کے تقریباً تمام حکمران لیڈر اور سیاستدان امریکہ کے ساتھ ہیں۔ ایک طرف مسلمانوں کا یہ حال ہے تو دوسری طرف امریکی عوام میں بھی امریکی جنگی اقدامات صلیبی جنون کو ہوا دے رہے ہیں۔ ایک سروے کے مطابق زیادہ ترامریکی ڈرون حملوں کے حامی ہیں۔ری پبلکن 79فیصد اور ڈیموکریٹس 64فیصد۔اس کا ایک جواز یہ بھی ممکن ہے کہ امریکی عوام کے دماغ اس حد تک کنٹرولڈ ہیں ان کے ذہنوں میں یہ بات بٹھادی گئی ہے کہ کوئی بھی ایسا فعل جو اخلاقیات سے کتنا ہی گرا ہوا کیوں نہ ہواگر امریکی سلامتی کے حق میں ہے تو ثواب کا کام ہے۔ اللہ امریکہ اور ان پر رحم کرے۔ جہاں قوموں کی قسمت کے ستارے ڈوب جاتے ہیں فتح کے تاثر کے ساتھ امریکہ کو وہاں سے بحفاظت واپسی درکار ہے۔اس مہم میں ہم امریکہ کے پارٹنر ہیں یعنی شریک۔ غور کرکے بتایئے کہ یہ شراکت جرم کی شراکت ہے یا حق کی۔