شیطان مردود اور اختلاف رائے

March 07, 2021

تحریر:ڈاکٹر رحیق احمد عباسی ۔۔۔لندن
قرآن میں بہت سی ایسی آیات ہیں جن میں جھوٹے خدائوں کا رد کرتے ہوئے ان سے محبت کا دم بھرنے اور مدد مانگنے والوں کیلئے وعید کا بیان ہے ۔ بد قسمتی سے کچھ لوگ معبودان باطلہ کے ابطال میں نازل ہونے والی ان آیات کا اطلاق بلا استثنیٰ انبیاء و رسل عظام علیھم السلام اور اولیاء و صلحاء پر کر دیتے ہیں اور کفار کے اس قبیح عقیدہ و عمل کی مذمت میں نازل ہونے والی وعید کا اطلاق اہل ایمان کی اس ایمانی محبت و عقیدت پر کردیتے ہیں جو وہ انبیاء عظام ، اہلبیت اطہار، صحابہ کرام، اولیاءاللہ اور صالحین امت سے رکھتے ہیں ۔ ان کی اس جاہلانہ روش سے قرآنی احکام کے بیان کی طرف سے اصل توجہ نہ صرف ہٹ جاتی ہے بلکہ خدا کے محبوب اور مقرب بندوں کی تنقیصِ شان بھی واقع ہوتی ہے جو نہ شارعِ اسلام علیہ الصلوٰۃ والسلام کا منشا ہے اور نہ کلام باری تعالیٰ کا مقصود۔ مزید برآں اس غلط اطلاق سے اہل توحید کی عین رضائے الہی کی خاطر اللہ کے بندوں سے خالص ایمانی محبت و عقیدت پر طعن و تشنیع کی جاتی ہے۔ قرآن کی کوئی آیت جو کسی خاص تناظر میں نازل ہوئی ہو اس کا اس طرح سے غیر موزوں اطلاق کرنا دور صحابہ میں تو خوارج کا وتیرہ تھا جو اصل مدعا کلام الہی کو سمجھے بغیر الفاظ کے ظاہری عموم کی بناء پر قرآنی حکم کا ہر جگہ اطلاق کرتے تھے۔ خوارج کے بارے میں حضرت عمرؓ کا ایک قول منقول ہے جسے امام بخاریؒ نے اپنی صحیح میں ایک باب کے عنوان کے طور پر ان الفاظ میں شامل کیا ہے ’’حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ان (خوارج ) کو بدترین مخلوق سمجھتے تھے اور فرماتے تھے ، یہ وہ لوگ ہیں جو کفار کے حق میں نازل ہونے والی آیات کا اطلاق اہلِ ایمان پر کرتے ہیں‘‘۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ خوارج کو اس لئے اللہ تعالیٰ کی بدترین مخلوق سمجھتے تھے کہ وہ ان آیات کو جو کفار و مشرکین کے حق میں نازل ہوئی تھیں، اہلِ ایمان پر منطبق و چسپاں کرکے انہیں کافر و مشرک ٹھہراتے تھے۔ قرآنی الفاظ کا عموم ہو یا خصوص، ضروری ہے کہ ان کے استعمال کا اصول اور اسلوب ہمیشہ پیشِ نظر رکھا جائے۔ اگر یہ بنیادی پہلو ہی نظر انداز ہو گیا تو اس غلط تفسیرِ قرآن سے گمراہی کے دروازے کھل جائیں گے۔ اس لئے آیات اور الفاظِ قرآنی کا اصل مورد و محل جانے بغیر انہیں اس طرح بے باکی کے ساتھ ہر جگہ استعمال کرنا بذاتِ خود ایک بہت بڑی گمراہی ہے۔ قرآن کے ہر طالب علم کا اس گمراہی سے بچنا ضروری ہے۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ہر دور میں یہ طریقہ بد عقیدہ اور گمراہ فرقوں کا معمول بن گیا۔ جس طرح کفار کے حق میں نازل ہونے والی آیات کا اطلاق اہل ایمان پر نہیں کیا جا سکتا اسی طرح شیطان کا بارگاہ خداوندی میں انکار ، اپنے اس انکار کی توجیہ کرتے ہوئے اس پر دلیل دینے کے واقعے کا اطلاق بھی اپنی رائے سے اختلاف کرنے والوں پر کردینا کسی انسان کے لئے جائز نہیں ۔ اس واقعہ کا غیر موزوں اطلاق اگر ہم اپنی ذات سے اختلاف کرنے والوں پر کر دیں گے تو شاید دلیل اور علم کی بنیاد پر اپنی ذات سے اختلاف کرنے والوں کو تو ہم بزعم خود شیطان قرار دے دیں لیکن کیا ہم اپنے آپ کو خدا و رسول کے درجے پر رکھیں گے(نعوذباللہ) کہ جن سے اختلاف کرنا کفر ہے ؟ حالانکہ یہ شان صرف اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل ہے کہ ان سے کوئی اختلاف کرنے کا حق نہیں رکھتا۔ ان کے بعد ہر ایک سے دلیل کی بنیاد پر اختلاف ہو سکتا ہے۔ اس اختلاف کی مثالیں صحابہ کرام کی زندگیوں میں بھی ملتی ہیں لیکن انہوں نے ایک دوسرے کو کافر نہیں کہا اور نہ ہی اپنے سے اختلاف کرنے والوں کو شیطان مردود کہا۔ اسی طرح تابعین کرام ، سلف صالحین اور ائمہ و مجتہدین میں اختلاف رونما ہوا جو کہ دلیل کی بنیاد پر تھا مگر کسی نے اپنی رائے سے اختلاف کرنے والوں کو شیطان مردود کے اس واقعہ سے تشبیہ نہیں دی۔ حتیٰ کہ اصاغر نے اپنے اکابر سے اختلاف کیا ، شاگردوں نے اپنے اساتذہ سے اختلاف کیا مگر اسلاف کی روایات میں کہیں بھی اس متشددانہ اور انتہا پسندانہ سوچ کی مثال نہیں ملتی کہ اپنی ذات سے علم اور دلیل کی بنیاد پر اختلاف کرنے والوں کو سیدھا شیطان مردود اور بدبخت قرار دے دیا جائے۔ در اصل ایسا طرز عمل تو دلیل اور علم پر مبنی استدلال سے راہ فرار اختیار کرنے کے مترادف ہے ۔ ایسے لوگ کیا اپنی اس جسارت سے بھی بے خبر ہوتے ہیں کہ جب وہ اپنے سے اختلاف کرنے والے کو مردود شیطان سے تشبیہ دے رہے ہوتے ہیں تو وہ ایک طرح کا دعویٰ خدائی کر رہے ہوتے ہیں کیونکہ شیطان نے تو اللہ کی بارگاہ میں اپنی بے بنیاد دلیل کے سہارے انکار و نافرمانی کی گستاخی کی تھی۔ حضور نبی اکرمﷺ سے بڑھ کر کوئی اللہ کا محبوب نہ ہوا نہ ہو سکتا ہے ۔ ذخیرہ حدیث میں آپ کو کوئی ایسی روایت شاید ہی ملے جس میں آپ نے کبھی کسی کلمہ گو مسلمان کو شیطان مردود قرار دیا ہو یا اس کو شیطان سے تشبیہ دی ہو۔ اپ کو کتب حدیث فقہہ اور تاریخ میں صحابہؓ کی جماعت کا آپس میں بے شمار علمی اختلافات کا تذکرہ ملے گا۔ سیاسی اور انتظامی امور پر بھی ان میں کم اختلافات نہیں ہوئے۔ خلافت راشدہ کے ہی دور میں عہد عثمانؓ کے اواخر اور عہد علی المرتضیؓ میں یہ اختلاف جنگوں تک بھی پہنچ گئے جن میں ہزارہا کی تعداد میں صحابہ شہید بھی ہوئے۔ لیکن کبھی آپ نے سنا کی کسی ایک فریق نے دوسرے فریق پر شیطان مردود ہونے کا فتوی لگایا ہو، یہاں تک کہ ان جنگوں کے دوران جان سے ہاتھ دھونے والے دونوں اطراف کے صحابہ کو شہید ہی مانا جاتا ہے ۔ لہذا آج 1400 سو سال بعد اپنے سے اختلاف کرنے والے کو سیدھا شیطان مردود قرار دینے والے اہل علم، صاحبان مرتبہ اور ان کے پیروکاروں کو اپنے طرز عمل کا جائزہ لینا چاہئے۔