زیر لب مسکرانے میں کوئی حرج نہیں

June 02, 2013

غربت، روز افزوں مہنگائی، کرپشن اور مسائل میں گھری پاکستانی قوم کے اداس اور مایوس چہروں پر مسکراہٹیں بکھیرنا کسی نیکی اور سے صدقے سے کم نہیں۔ میرے دیرینہ مہربان ڈاکٹر خلیل اللہ شیخ نے نوڈیرو لاڑکانہ سے ایک لطیفہ بھجوایا ہے جس سے میں محظوظ ہوا ہوں۔ سرداروں اور ”خانوں“ کے لطائف بہت آسان ہوتے ہیں جنہیں توجہ دئیے بغیر بھی انجوائے کیا جاسکتا ہے لیکن دانشوروں کے لطائف الفاظ میں ملفوف ہوتے ہیں اس لئے ان سے لطف اندوز ہونے کے لئے ذرا سی توجہ کی ضرورت ہوتی ہے ورنہ یہ لطیفے سر کے اوپر سے یوں گزر جاتے ہیں جیسے مولوی کا وعظ۔ لطیفہ یوں ہے کہ دو جڑواں بھائی جو ہم شکل بھی تھے ایک کمرے میں بیٹھے تھے، ایک بھائی ہنسی سے لوٹ پوٹ ہورہا تھا جبکہ دوسرا سردی سے کانپ رہا تھا۔ اتنے میں والد صاحب کمرے میں تشریف لائے اور پریشان ہو کر ہنسنے والے سے پوچھا کہ یہ کیا ہورہا ہے؟ تم کیوں ہنس رہے ہو اور یہ کیوں کانپ رہا ہے؟ اس نے ہنستے ہوئے جواب دیا ڈیڈی کوئی خاص بات نہیں۔ امی نے اس کو دوبار نہلا دیا ہے۔ اس لئے وہ سردی سے کانپ رہا ہے اور میں ہم شکل ہونے کی وجہ سے سردی میں نہانے سے بچ گیا ہوں اس لئے اسے کانپتے ہوئے دیکھ کر ہنس رہا ہوں۔ میرا تجربہ ہے کہ جڑواں بچے اگر ہم شکل بھی ہوں تو کبھی کبھار ان کو جنم دینے والی ماں بھی دھوکہ کھاجاتی ہے۔ میں ایم اے کرنے کے فوراً بعد گورنمنٹ کالج لاہور میں لیکچرار تعینات ہوا تو میری کلاس میں دو جڑواں ہم شکل بہنیں میری شاگرد تھیں۔ میں اکثر دھوکہ کھا جاتا تھا لیکن ان کی پہچان کا آسان نسخہ یہ تھا اگر میں ان میں سے ایک کو دوسری کے نام سے پکارتا تو وہ کھکھلا کر ہنستی اور کہتی کہ سر میرا نام یہ ہے اگر اتفاق سے صحیح نام سے پکارا جاتا تو سنجیدہ سا”یس سر“ سنائی دیتا۔ دونوں بہنیں ایک جیسے کپڑے پہنتیں، ہر امتحان میں ایک جتنے نمبر حاصل کرتیں اور اکٹھی بیمار ہوتی تھیں حتیٰ کہ ان کو نزلہ زکام بھی اکٹھے ہوتا تھا اور وہ ٹھیک بھی اکٹھے ہی ہوتی تھیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ ان کی شادیاں بھی کسی جڑواں بھائیوں سے ہوئیں یا نہیں ورنہ ان کے خاوندوں کے لئے گھمبیر مسائل پیدا ہونے کا خطرہ تھا۔ ہم نام اور ہم شکل ہونے کے کچھ فوائد بھی ہوتے ہیں کہ ایک دوسرے کے کپڑے بلا تکلف استعمال کئے جاسکتے ہیں لیکن بعض اوقات اس کے کچھ نقصانات بھی ہوتے ہیں۔
یہ لطیفہ نہیں سچا واقعہ ہے جو میں نے طویل عرصہ قبل کسی برطانوی اخبار میں پڑھا تھا۔ یہ تو آپ جانتے ہیں کہ انگلستان کی ملکہ الزبتھ کا بیٹا پرنس چارلس ،پرنس آف ویلز یعنی ولی عہد بھی ہے۔ طویل عرصہ قبل وہ پہلی بار آسٹریلیا کے سرکاری دورے پر گیا تو اس کا شاندار استقبال کیا گیا کیونکہ کسی زمانے میں آسٹریلیا بھی برطانوی کالونی ہوتی تھی اسی استقبال کے سلسلے کی ایک اہم کڑی شہزادہ چارلس سے ایک ایسے شخص کی ملاقات تھی جو بالکل شہزادے کا ہم شکل تھا۔ اس ملاقات کا انتظام سرکاری سطح پر کیا گیا تھا چنانچہ جب اس شخص نے پرنس چارلس سے ہاتھ ملایا تو چارلس نے حاضر دماغی اور حس ظرافت کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ مجھے آپ سے مل کر بہت خوشی ہوئی۔ آپ بالکل میرے ہم شکل ہیں حالانکہ میرے والد گرامی کبھی آسٹریلیا نہیں آئے۔ وہ شخص بھی برابر کی چوٹ تھا۔ اس نے مسکرا کر جواب دیا شہزادے آپ بالکل ٹھیک کہتے ہیں لیکن میرے والد صاحب اکثر لندن جایا کرتے تھے۔ کہتے ہیں کہ برابر کی چوٹ نے شہزادے کو حواس باختہ اور لاجواب کردیا اور وہ بغلیں جھانکنے لگا۔ ویسے دیکھنے میں بھی بیچارہ پرنس چارلس مسٹر”بغلول“ ہی لگتا ہے۔
ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ جس طرح ہم شکل اور جڑواں ہونے کے کچھ فائدے ہوتے ہیں اور کچھ نقصانات۔ اسی طرح کالج فیلو اور کلاس فیلو ہونے کے بھی کچھ فوائد ہوتے ہیں اور کچھ نقصانات۔ ایک طالبعلم بی اے کرنے کے بعد ایم بی اے میں داخلے کے لئے ایک پرائیویٹ یونیورسٹی میں گیا۔ فارم داخلہ بھرتے ہوئے اس نے چوکیدار سے پوچھا کہ بھائی! یہ یونیورسٹی کیسی ہے؟ چوکیدار نے نوجوان کو محبت بھری نگاہوں سے دیکھا اور جواب دیا کہ بہت اعلیٰ درجے کی یونیورسٹی ہے۔ میں نے بھی یہیں سے ایم بی اے کیا تھا۔ یہ اپنی اپنی قسمت ہے کچھ حضرات ایم بی اے کرکے بھی مجبوری کے تحت چوکیدار لگ جاتے ہیں جبکہ کچھ جعلی ڈگریاں لے کر پارلیمنٹ کے اراکین بن جاتے ہیں اور پوری قوم کے لئے قانون سازی کرتے ہیں۔ قانون سازی نہ بھی کرسکیں تو اپنی لشکارے مارتی پجارو یا پریڈو کے سامنے ایم پی اے، ایم این اے یا سینیٹر کی پلیٹ سجا کر سڑک پہ یوں نکلتے ہیں جیسے سکندر اعظم آرہا ہو۔
کلاس فیلو کا رشتہ بڑا پیارا اور محبت بھرا رشتہ ہوتا ہے جو تقریباً ساری عمر نبھتا ہے۔ آپ ساٹھ سال کی عمر میں بھی کسی کلاس فیلو سے ملیں تو یوں لگتا ہے جیسے آپ چالیس برسوں کا واپسی سفر طے کرکے پھر بیس برس کے نوجوان بن گئے ہیں۔ میں جب ایم اے کرنے کے فوراً بعد گورنمنٹ کالج لاہور میں لیکچرار بنا تو میرے وہ دوست جو مجھ سے فقط ایک سال پیچھے تھے اگلے سال میرے شاگرد بن گئے۔ ظاہر ہے ان سے”استادی“ منوانا نہایت مشکل کام تھا۔کسی ایسے ہی موقع پر حفیظ جالندھری نے کہا تھا
حفیظ اہل زباں کب مانتے تھے
بڑی مشکل سے منوایا گیا ہوں
میرے ایسے ہی شاگردوں میں مکرم سید، رضا مہدی مرحوم اور افتخار بٹ بھی تھے۔ مکرم سید انگلستان چلا گیا، لندن سکول آف اکنامکس سے ایم ایس سی کرنے کے بعد تاجر بنا اور پھر لندن میں خاصی پراپرٹی خریدنے کے بعد دولت مند ہوگیا۔ افتخار بٹ پاکستان میں کاروبار کرتا رہااور کچھ عرصہ قبل دبئی چلا گیا۔ دراصل مکرم سید، افتخار بٹ ،رضا مہدی مرحوم اور امجد اسلام امجد بچپن کے دوست سکول فیلوز اور پرانے لاہورئیے ہیں اور جگت بازی، فقرے بازی اور ٹانگ کھینچنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ اچھی بات یہ ہے کہ فاصلے اور وقت نے ان کا کچھ نہیں بگاڑا چنانچہ یہ لوگ سال میں ایک دو بار مل بیٹھنے ،ہنسنے کھیلنے اور جگت بازی کی پریکٹس کرنے کے لئے اکٹھے ہوجاتے ہیں اور کبھی کبھار مجھے بھی مہمان نوازی کا موقع دے دیتے ہیں کیونکہ ان میں تین میرے شاگرد اور کالج فیلوز ہیں۔ صرف امجد اسلام امجد میری شاگردی سے محفوظ رہا کیونکہ وہ اردو کا طالبعلم تھا۔ مکرم کے چہرے پر ابھی تک جوانی ا نگڑائیاں لے رہی ہے۔ وہ بالوں کو رنگ لگا کر تیس برس پیچھے چلا گیا ہے۔ اس کے دوستوں کا خیال ہے کہ کچھ دولت مند سیاستدانوں اور حکمرانوں کی مانند مکرم کی جوانی کا راز اس کی تین شادیوں میں مضمر ہے جبکہ میں کریڈٹ لندن کی زندگی کو دیتا ہوں ویسے میں نے عام طور پر ایک یا دو بیویوں والوں کو بہت ناخوش دیکھا ہے لیکن تین بیویوں والے اکثر خوش پائے جاتے ہیں۔ بیویاں آپس میں لڑتی رہتی ہیں اور میاں دوستوں کے ساتھ قہقہے لگانے میں مصروف رہتے ہیں ۔ افتخار بٹ کے سارے بال اس قدر سفید ہوچکے ہیں، یوں لگتا ہے جیسے وہ پیدا ہی سفید بال لے کر ہوا تھا۔ کچھ عرصہ قبل یہ جگت باز مجھ سے ملنے آئے تو مکرم سید نے بڑی سنجیدگی سے کہا کہ ڈاکٹر صاحب آپ سے ایک سفارش کروانی ہے۔ یہ آپ کا شاگرد تھا افتخار بٹ مجھ سے ملنے لندن آتا رہتا ہے اس بابے سے کہیں کہ یہ وہاں لوگوں کو یہ نہ بتایا کرے کہ یہ میرا کلاس فیلو تھا۔ خدا کے لئے اسے منع کیجئے ۔اس پر محفل میں قہقہہ لگا اور جگت بازی کی پریکٹس شروع ہوگئی۔ سچ ہے کہ تھوڑی سی زحمت کے باوجود بچپن کی محبتیں اور کلاس فیلوز کی دوستیاں بہت بڑی نعمت ہے اور موجودہ ذہنی دباؤ کے دور میں تو یہ نعمت غیر مترقبہ ہے ۔
غنیمت جانیے مل بیٹھنے کو
قیامت کی گھڑی سر پہ کھڑی ہے