موجودہ سیاست کا انجام اور تبدیلی

March 09, 2021

وزیراعظم عمران خان نے قومی اسمبلی کے اپنے اراکین اور اتحادیوں سے ایک بار پھر اعتماد کا ووٹ حاصل کرلیا۔ اس حصول اعتماد کا طریقہ کار کیا اختیار کیا گیا اور اس کی آئینی و اخلاقی حیثیت کیا ہے اس بحث میں جانے کی ضرورت ہے نہ وقت۔ وقت اس لئے نہیں کہ چیئرمین سینیٹ کا معرکہ سر کرنے کا وقت سر پر ہے۔ میرے خیال میں جس طریقہ سے اور جس سرعت کے ساتھ اعتماد کا ووٹ لینے کو ضروری سمجھا گیا یہ نہ وقت کی ضرورت تھی نہ ابھی اس عمل کا موقع تھا۔ لیکن کیا کیا جائے کہ انہی مشورہ دینے والوں کے مشورے پر ایک بار پھر عمل کیا گیا جن کی وجہ سے یہ نوبت پیش آئی ۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ نہایت قابل تشویش بات ہے کہ جس وقت سیاسی و جمہوری عمل سمجھ کر پارلیمنٹ ہائوس کے اندر اعتماد کا ووٹ حاصل کیا جارہا تھا عین اسی وقت اسی پارلیمنٹ ہائوس کے سامنے سیاست اور جمہوریت کو بے توقیر کیا جارہا تھا۔ ایک سابق وزیراعظم اور اراکین پارلیمنٹ کے ساتھ کیا گیا سلوک سیاست سے اخلاقیات کا جنازہ نکالنے کا مترادف ہے۔ یہ ہے وہ سیاست اور جمہوریت، جس کا دن رات راگ الاپا جاتا ہے۔ یہ نہ تو سیاست ہے نہ جمہوریت ہے۔ بلکہ آنے والے دنوں میں تشویش ناک صورت حال کا نقطہ آغاز ہے ۔ لیکن کوئی سمجھے تو ۔ بہرحال سیاسی کارکنوں کے نام پر کی گئی اس بدلحاظی کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ معلوم نہیں یہ سلسلہ کہاں تک جائے کیونکہ ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں۔ 12مارچ کو چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کا انتخابی معرکہ ہونے والا ہے۔ حکومت کے لئے یہ ایک اور مشکل مرحلہ ہے۔ اگر اس میں بھی اپوزیشن کی جیت ہوئی تو ایک طرح سے وزیراعظم کے اعتمادی ووٹ کا عمل اور نتیجہ بے معنی تصور ہونے لگے گا۔ عددی لحاظ سے سینیٹ میں حکومتی اراکین کی تعداد 47جبکہ اپوزیشن اراکین کی تعداد 53ہے۔ یہ بھی واضح ہے کہ حکومت کسی بھی طرح اپوزیشن میں دراڑ ڈالنے میں کامیاب نہیں ہوسکی اور نہ ہی اپوزیشن ارکان میں سے کچھ کو ادھر ادھر کرسکتی ہے ویسے بھی سیاسی سمجھ بوجھ رکھنے والے سمجھتے ہیں کہ اب ہوائوں کا رخ کس سمت ہے؟ حاصل کلام یہ ہے کہ ایسا کوئی طریقہ نظر نہیں آتا کہ عددی لحاظ سے اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کیا جاسکے۔ اس حساب سے تو پھر بلکہ ایک بار پھر اپوزیشن کے امیدوار یوسف رضا گیلانی کی کامیابی یقینی نظر آتی ہے۔ اور ان کی کامیابی نہ صرف حکومتی امیدوں پر پانی پھیرنے کے مترادف ہوگی بلکہ اس کے بعد حکومتی مشکلات میں مزید اضافے کا بھی باعث ہوسکتی ہے۔ابھی تو جس طرح بھی حکومت نے اپنے اراکین قومی اسمبلی اور اتحادی ارکان سے وزیراعظم پر اعتماد کا ووٹ حاصل کرلیا ہے جو اوپن بیلٹ کے آئینی طریقہ کے مطابق ہے لیکن مشکل مرحلہ تو ابھی باقی ہے جب اپوزیشن عدم اعتماد کی تحریک پیش کرے گی اور آئینی طریقہ کے مطابق وہ عمل خفیہ بیلٹ کے ذریعہ ہوگا۔ اہم بات یہ بھی ہے کہ جس وقت حکومت کے اتحادیوں خصوصاً ایم کیو ایم اور جی ڈی اے نے وزیراعظم کو اعتماد کا ووٹ دیا تو عین اسی وقت حکومت کو اس کے وعدے اور اپنے مطالبات کا بھی اعادہ کیا۔ ایم کیو ایم کے مطالبات میں بعض اہم اور بنیادی مطالبات ایسے ہیں جن کو پورا کرنا حکومت کے بس میں ہی نہیں ہے اور جن کے لئے ایم کیو ایم پاکستان کی قیادت بہرصورت اپنے کارکنان کے سامنے تاحال جوابدہ ہےاور جن مطالبات سے ایم کیو ایم پاکستان کا ایک طرح سے مستقبل وابستہ ہے۔ اس کے علاوہ جی ڈی اے کو حالیہ سینیٹ انتخابات میں جس صدمے کا سامنا کرنا پڑا ہے وہ بھی ناقابل تلافی ہے۔ پگارا خاندان کو شکست ہوئی ہے اور اس شکست کی بنیادی وجہ وہاں پی ٹی آئی کی بے رخی اور بے اعتنائی سمجھی گئی ہے۔ اس لئے جی ڈی اے اور پگارا خاندان پی ٹی آئی کی اس بیوفائی کو نظر انداز نہیں کرسکتے۔

پنجاب اور کے پی میں وزرائے اعلیٰ ، بیوروکریسی اور پولیس میں اعلیٰ سطح پر تبدیلیوں کے امکانات ہیں۔ اگرچہ پنجاب میں وزیراعلیٰ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کیلئے حکمت عملی بھی تیار ہے لیکن وزیراعظم عمران خان شاید حکومت کی ساکھ کو بہتر بنانے کے لئے ازخود اہم تبدیلیاں کرلیں۔ وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری، پنجاب کے چیف سیکرٹری اور کے پی میں بھی اسی نوعیت کی تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ آئی جی کے پی کی تبدیلی کا بھی امکان ہے۔ وفاق میں بھی بعض وزراء اور مشیران تبدیلی کی زد میں آسکتے ہیں۔ ان تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ یہ بھی اہم ہے کہ اب بڑی تبدیلیوں کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ ’’کیونکہ یہ تبدیلیوں کا سال ہے‘‘۔