صحرا میں ایک رات

March 14, 2021

سنسان راستہ ہو ، ویرانہ ہو، دور دور تک کوئی آبادی نہ ہو، تا حد نگاہ تاریکی ہو، کسی ذی روح کا نشان نہ ہو، سکوت ہو اور جدید زندگی کے جہاں آثار نہ ہوں۔۔۔ ایسا سفر ایک خواب تھا جو بالآخر پورا ہو گیا۔

ہم بہاولپور سے نکلے تو شام کے ساڑھے پانچ بج رہے تھے۔ مضافات میں پنجاب کا حسن اپنے جوبن پر ہوتا ہے، سرمئی دھندلکے میں لہلہاتی فصلیں ایک عجیب سی رومان انگیز فضا پیدا کردیتی ہیں۔ قدرت سے اگر بیوپار ممکن ہوتا تو ہم اِن حسین نظاروں کے عوض اپناسب کچھ تیاگ دیتے۔اس وقت ہماری گاڑی پنجاب کے قصبات اور دیہات کے درمیان دوڑتی ہوئی جا رہی تھی، تھکا ماندا سورج دھیرے دھیرے ڈھل رہا تھااور شام انگڑائی لے کر بیدار ہو رہی تھی ۔ہم قومی شاہراہ این ایچ 5پر تھے اور فی الحال ہماری منزل دراوڑ کا قلعہ تھی جو دو گھنٹے کی مسافت پر تھا۔ قریباً سوا گھنٹے کے بعد ہم اِس مرکزی شاہراہ کو چھوڑ کر احمد پور کی جانب مڑ گئے اور وہاں سے ہمارا رُخ دراوڑ فورٹ روڈ پر ہو گیا ۔اِس راستے پر آباد ی نسبتاً کم ہو گئی مگر مسلسل رہی ۔یہ پنجاب کا خاصا ہے، آپ کسی بھی دور دراز یا پسماندہ علاقے میں چلے جائیں، چند لمحوں کے لیے یوں لگے گا جیسے تمدن سے آگے نکل آئے ہوں مگر ذرا سی دیر میں کوئی قصبہ آ جائے گاجہاںجدید زندگی کی چہل پہل ہو گی۔قصبے سے نکلنے کے بعد وہ رونق ماند ضرور پڑ جاتی ہے مگرآبادی ختم نہیں ہوتی اور خستہ حال اسکول، بوسیدہ سرکاری عمارتیں، کچے پکے مکانات اور کھانے پینے کے کھوکھے گزرتے چلے جاتے ہیں۔ یہ راستہ بھی ایسا ہی تھا، ایک لمحے کے لیے یوں لگتا تھا جیسے ہم کسی دور افتادہ مقام پر آ گئے ہیں مگر پھر اچانک کوئی جگ مگ کرتا پٹرول پمپ مل جاتا اور ہماری امیدوں پر اوس پڑ جاتی۔ ناامیدی والی بات میں نے اِس لیے کی کہ جب ہم لاہور سے نکلے تھے(یہاں ہم سے مراد محبی حبیب اکرم، یار دلدار گل نو خیز اختر اور Yours Trulyہیں) تو یہ طے کیا تھا کہ کچھ بھی ہو اِس مرتبہ صحرا کے اندر تک جانا ہے چاہے وہ راستہ کتنا ہی سنسان کیوں نہ ہو۔اپنی اِس خواہش کا اظہار میں نے کمشنر ملتان جاوید اختر سے کیا، جو بیوروکریٹ ہونے کے باوجود ایک باغ و بہار شخصیت کے مالک ہیں، تو موصوف نے کہا کہ آپ کی یہ خواہش یقیناً پوری کی جا سکتی ہے بلکہ اگر آپ چاہیں تو صحر ا کا وہ علاقہ بھی دکھایا جا سکتا ہے جہاں راستے میں انسانی ہڈیاں اور ڈھانچے ملتے ہیں۔ ’’کیا مطلب ؟‘‘ میں نے حیرت سے پوچھا۔ ’’مطلب یہ کہ صحرا میں جب کوئی شخص راستہ بھول جاتا ہے تو پھر اُس کی ہڈیاں ہی ملتی ہیںلیکن آپ بے فکر رہیں ہم آپ کو راستہ بھولنے نہیں دیں گے۔‘‘ مکرمی جاوید اختر نے فلک شفاف قہقہہ لگاتے ہوئے کہا۔ ان کا مذاق ہو گیا اور میری روح لرز گئی۔ موصوف کے ساتھ ہونے والا یہ مکالمہ میں نے اپنے ہم سفر دوستوں کو اُس وقت سنایا جب ہم عین رات کی تاریکی میں صحرا میں بھٹک رہے تھے۔ یہ بتانے کی چنداں ضرورت نہیں کہ جواب میں انہوں نے کیا کہا۔ اتنا لکھنا کافی ہے کہ تبرے کی نئی جہت اُس وقت دریافت ہوئی۔

دراوڑ قلعے تک پہنچتے پہنچتے ساڑھے سات بج گئے۔ یہاں سے ہمارا ایڈونچر شروع ہونا تھا۔ ایک سرکاری اہلکار ساتھ ہو لیا جس نے بتایا کہ اصل صحرا دس بارہ کلومیٹر آگے ہے، اُس طرف گاڑی موڑ لیں۔ ابھی ہم کچھ ہی دور گئے ہوں گے کہ یکدم راستہ سنسان ہو گیا، دائیں اور بائیں جانب کا تصور ختم ہو گیا ،سہ جہتی دنیا سے ہم یک جہتی دنیا میں آ گئے، کچھ سمجھ ہی نہ آیا کہ ہمارا منہ کس جانب ہے۔ تاہم راہبر کے چہرے پر سادھوئوں جیسا اطمینان تھا، وہ ٖڈرائیور کو یوں دائیں بائیں مڑنے کی ہدایات دے رہا تھا جیسے وہ کسی بھرے پرے شہر کی سڑک پرگاڑی چلا رہا ہو اور سامنے جا بجا رہنمائی کے نشانات لگے ہوں۔ وہاں عالم یہ تھا کہ ویران ریگستان میں دو گاڑیاں آگے پیچھے دھول اڑاتی جا رہی تھیں، چاروں طرف گھپ اندھیرا تھا او ر ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دے رہا تھا، ایسے میں اگر ہم گاڑی کی روشنیاں گُل کر دیتے تو ایک دوسرے کی شکلیں بھی نہ دیکھ پاتے۔ اچانک ڈرائیور نے بتایا کہ پچھلی گاڑی نظر نہیں آرہی۔ ہم سب گاڑی سے نیچے اتر آئے اور پیچھے دیکھنے کی کوشش کی مگر ہماری اِس حرکت کا کوئی فائدہ نہ ہوا، وہاں ’آگے پیچھے دائیں بائیں‘ کچھ بھی نہیں تھا، خوف کی ایک لہر ہمارے جسم میں دوڑ گئی۔ ہمارے راہبر نے اُس لمحے یہ بتانا بھی ضروری سمجھا کہ اِس صحر ا میں دو قسم کے سانپ پائے جاتے ہیں۔ ’’کیا یہ سانپ زہریلے ہوتے ہیں؟‘‘ میں نے پوچھا ۔ ’’جی ہاں۔‘‘ اُس نے اطمینان سے جواب دیا مگر ساتھ ہی یہ بھی بتایا کہ صحرا میں زہر کے تریاق کے لیے ایک بوٹی ملتی ہے جسے ’اَک‘ کہتے ہیں۔ ممکن تھا کہ یہ گفتگو طول پکڑتی مگر ہمیں دوسری گاڑی کی روشنیاں نظر آ گئیں، وہ گاڑی ریت میں کہیں پھنس گئی تھی اِس لیے پیچھے رہ گئی تھی۔

صحرا کاسفر دوبارہ شروع ہوا، اب ہم ریگستان کے اندر کسی نامعلوم مقام پر تھے، یہاں کوئی بندہ تھا نہ بندہ نواز، جدید زندگی اور تمدن کہیں پیچھے رہ گئے تھے، ہمارا راہبر البتہ ڈرائیور کو اب بھی یوں ’راستہ ‘سمجھا رہا تھا جیسے شہری علاقوں میں گوگل میپ والی لڑکی بتاتی ہے۔ دس بارہ کلومیٹر صحرا میں سفر کرنے کے بعد دور ایک روشنی نظر آئی، یہی ہماری منزل تھی، یہ ایک ڈیرہ تھا جو کسی مقامی آدمی کی ملکیت تھا، یہاں روشنی کا انتظام جنریٹر یا شمسی توانائی کی مدد سے کیا گیا تھا اور ضرورت کی تمام اشیا موجود تھیں، یوں سمجھیں جیسے کسی نے جنگل میں منگل کر دیا ہو۔ اِس ڈیرے کے آس پاس کچھ بھی نہیں تھا۔ ہمارے میزبان نے بتایا کہ اگر ہم صحرا میں اسی طر ح ڈیڑھ سو کلومیٹر آگے سفر کریں تو بھارت کی سرحد تک پہنچ جائیں گے۔ ڈیرے پر کچھ دیر سستانے کے بعد ہم نے اپنے میزبانوں سے اجازت لی اور چولستان کے صحرا کو الوداع کہہ کر لوٹ آئے۔ ہم اپنی جدید زندگی میں واپس تو آ گئے ہیں مگر لگتا ہے کہ ’نہ ہو گا یک بیاباں ماندگی سے ذوق کم میرا‘۔ میں ایک مرتبہ پھر چولستان جائوں گا کیونکہ مجھے لگتا ہے کہ میں اپنا دل وہیں چھوڑ آیا ہوں۔