جمہوری اخلاقیات، وقت کی ضرورت

March 18, 2021

تاریخ گواہ ہے کہ صرف انہی معاشروں نے ریاست اور عوام کے درمیان رشتہ پیدا کیا ہے جہاں جمہوری عمل مسلسل ارتقا پذیر رہا ہے اور سیاست کا محورصرف اور صرف اس سماج کےعوام رہے ہیں ۔ اس نقطہ نگاہ سے اگر ہم پاکستانی جمہوریت کو دیکھیں تو ایسا لگتا ہے کہ جمہوریت کےارتقا اور آئین کی پاسبانی کے عمل کو ابھی وقت لگے گا لیکن جس طرح پچھلے دنوں الیکشن کمیشن نے ڈسکہ کے انتخابات اور سپریم کورٹ میں جو موقف اختیار کیا، اس سے قوی امید ہو چلی ہے کہ الیکشن کمیشن وقت کے ساتھ ساتھ ایک ایسا ادارہ بن جائے گا جس پر بانی پاکستان کی روح بھی خوش ہوگی۔ہماری بھارت کے ساتھ مختلف میدانوں میں مقابلے کی خواہش رہی ہے ۔مودی نے ہندوتوا کے نظریے کو فروغ دے کر نفرتوں کے انبار لگا دیے ہیں لیکن اس کے باوجود 1947سے لے کر آج تک کسی بھی بھارتی الیکشن کو حزب اختلاف نے متنازع قرار نہیں دیا کیونکہ وہاں الیکشن کمیشن ایک آزاد ادارے کے طور پر کام کررہا ہے جس پر تمام سیاسی جماعتیں نہ صرف متفق ہیں بلکہ اس ادارے کو مزید پختہ روایتوں پر پروان بھی چڑھا رہی ہیں۔

ڈسکہ کے ضمنی انتخابات اوراس کے نتیجے میں جس طرح الیکشن کمیشن نے ان انتخابات کوکالعدم قرار دیا اس نے تحریک انصاف کے تقدس کا نقاب مکمل طور پر اتار دیا ہے۔ جو پارٹی کل تک آزادانہ انتخابات ، احتساب اور جمہوریت کے نام پر کچھ بھی کرنے کو تیار تھی وہ آج ایک لمحے کیلئے بھی اس بات پر غور کرنے کو تیار نہیںکہ الیکشن میں دھاندلی سے نہ صرف جمہوریت بلکہ وفاق کے مستقبل کیلئے بھی برے نتائج نکل سکتے ہیں ۔2018کے الیکشن کی شفافیت پر انتخابات سے پہلے ہی انگلیاں اٹھ رہی تھیں اور پھر اسی کے تسلسل میں حکمرانوں نے سینیٹ میں سنجرانی ماڈل متعارف کروایا اور بلوچستان میں رات کے اندھیرے میں مسلم لیگ ن کی حکومت تبدیل کر دی گئی اور ساتھ ہی جنوبی پنجاب سے مسلم لیگ ن کے ٹکٹ ہولڈرز نے اپنی پارٹی کے ٹکٹ ایک اسکیم کے تحت آخری روز واپس کر دیے۔ کہا جا رہاہے کہ گیلانی کے حق میں ووٹ ڈالنے والے اکثر یہی لوگ تھے جنہوں نے مسلم لیگ ن سے اگلے انتخابات میں اپنے لیے پارٹی ٹکٹ کی یقین دہانی چاہی۔

الیکشن کمیشن نے 2018ء کے انتخابات میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کو استعمال کیا ۔ اس مقصد کیلئے پولنگ اسٹیشنوں پر کیمرے لگائے گئے۔ آر ٹی ایس کا نظام متعارف کیا۔ انتخابی نتائج کیلئے فارم 45کو دوبارہ ترتیب دیا گیا۔مگر الیکشن والے دن اکثر کیمروں نے کام نہیں کیا اوراس کے ساتھ ساتھ نامعلوم افراد نے پریزائیڈنگ آفیسرز کو مجبور کیا کہ وہ آر ٹی ایس نظام کا استعمال نہ کریں۔یاد رہے کہ آر ٹی ایس کے نظام کو نادرا نے منظم کیا تھا اور وہ آج تک اس بات پر مصر ہے کہ یہ نظام الیکشن والے دن بالکل ٹھیک کام کر رہا تھا۔بہت سارے پولنگ اسٹیشنوں پر گنتی کے وقت پولنگ ایجنٹس کو باہر نکال دیا گیا اور بہت سارے علاقوں میں پولنگ ایجنٹس سے فارم 45پر دستخط نہیں لیے گئے۔عمران خان نے اقتدار سنبھالنے کے بعد ان سنگین بدعنوانیوں پر تحقیقات کروانا ضروری نہیں سمجھااور جب حزب اختلاف کے مطالبے پر ایک پارلیمانی کمیٹی بنائی گئی تو حکمران جماعت کی عدم دلچسپی کے باعث اس کمیٹی کے ٹی او آرز بھی نہیں بن سکے یوں 2018کے الیکشن میں سنگین دھاندلی کے الزامات کے باوجود کوئی تحقیقات نہیں کی گئیں۔ آج عمران خان یوسف رضا گیلانی کی جیت پر الیکشن کمیشن پر آگ بگولہ ہوگئے ہیں حالانکہ جب 2019میں چیئر مین سینیٹ صادق سنجرانی کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کی گئی تو حاصل بزنجو کے حق میں اس وقت سینیٹ میں 64سینیٹرز نے ہاتھ اٹھا کر عدم اعتماد کی تحریک کی حمایت کی اور حکومت کے پاس صرف 36ووٹ تھے۔ آج دراصل یوسف رضا گیلانی کی جیت ،صادق سنجرانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد کا ایکشن ری پلے تھا۔اس وقت شیخ رشید نے یہ فرمایا تھا کہ حکومت کے پاس کچھ تعویز ہوتے ہیںجبکہ عمران خان نے ان تعویزوں کے استعمال کو اراکین کے ضمیر کی آواز قرار دیا تھالیکن آج عمران خان نے گیلانی کی کامیابی کو پیسے کا کرشمہ قرار دیا اور کہاکہ ایجنسیوں کو پتہ ہے کہ کتنے پیسوں میں ووٹ خریدے گئے مگر انہوں نے نامعلوم وجوہات کی بنا پر ان ایجنسیوں کی رپورٹ کو افشا نہ کیا کیونکہ انہیں انہی بکنے والے اراکین سے اعتماد کا ووٹ بھی حاصل کرنا تھا۔شیخ رشید پھر یہ کہہ رہے تھے کہ چیئر مین سینیٹ کیلئے صادق سنجرانی دوبارہ حکومت اور ریاست کے امیدوار ہیں ۔دراصل وہ یہ عندیہ دے رہے تھے کہ تحریک انصاف کی حکومت صادق سنجرانی کو کامیاب کروا کے ہی دم لیں گے۔

آج پاکستان کا سیاسی بحران 2018کے الیکشن میں دھاندلی سے شروع ہوا تھا جس کا حل ایک آزاد الیکشن کمیشن اور جامع انتخابی اصلاحات میں ہی مضمر ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ تمام سیاسی پارٹیوں کو ایک پیج پر رہنے کی رٹ سے اجتناب کرتے ہوئے اپنی رٹ کو مضبوط کرنا ہوگا۔آزادانہ الیکشن کمیشن اور آئین کی پاسداری کے بغیر نہ تو جمہوریت اپنے پائوں جما سکتی ہے اور نہ ہی موجودہ سیاسی مسائل کا حل ڈھونڈا جا سکتا ہے ۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)