حضرت صفیہ بنتِ عبد المطلب رضی اللہ عنہا (قسط نمبر 9)

March 28, 2021

جبلِ اُحد کے دامن میں شہداء کی لاشیں ایک الگ ہی منظر پیش کر رہی تھیں۔ نبی کریم ﷺ زخمی ہونے کے باوجود شہداء کی لاشوں کا معائنہ فرما کر عزیز اَز جان چچا، سیّد الشہداء، حضرت امیر حمزہؓ کے جسدِ مبارک کے پاس موجود تھے، جنہیں ایک غلام، وحشی بن حرب نے چُھپ کر پیچھے سے نیزہ مار کر شہید کیا اور پھر ہند بنتِ عتبہ نے غزوۂ بدر میں مارے جانے والے اپنے باپ کے انتقام میں لاش کا بدترین مثلہ کیا۔اللہ کے رسولﷺ غم زدہ تو پہلے ہی تھے، لیکن اب بہت زیادہ دُکھی ہوگئے۔

مسلمانوں کے انتشار، عارضی پسپائی اور حضورِ انورﷺ کے زخمی ہونے کی خبریں مدینہ منوّرہ پہنچیں، تو جیسے بھونچال آگیا۔ بیش تر خواتین میدانِ جنگ کی جانب دوڑ پڑیں، جن میں ایک عُمر رسیدہ، شیر دِل خاتون، حضرت صفیہ بنتِ عبدالمطلبؓ بھی تھیں، جو ہاتھ میں نیزہ پکڑے میدانِ اُحد کی جانب جا رہی تھیں۔ راستے میں کچھ لوگوں کو میدانِ جنگ سے منہ موڑ کر مدینہ منوّرہ واپس آتے دیکھا، تو چہرہ غصّے سے سُرخ ہوگیا۔ غضب ناک انداز میں بولیں’’ تم کیسے مسلمان ہو کہ رسول اللہﷺ کو تنہا چھوڑ کر بھاگ نکلے؟‘‘ آنحضرت ﷺ کو اپنی پھوپھی، حضرت صفیہؓ کے آنے کی خبر ملی، تو اُن کے صاحب زادے، حضرت زبیر بن عوامؓ سے فرمایا’’زبیرؓ! اپنی والدہ کو آگے آنے سے روکو، اُنہوں نے اپنے بھائی، حضرت حمزہؓ کی لاش دیکھ لی، تو کہیں صبر و ضبط کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑ دیں‘‘۔

زبیرؓ تیزی سے والدہ کی جانب دوڑے اور اُن کا راستہ روکتے ہوئے کہا’’ امّاں جان! رُک جائیے۔ آگے نہ جائیں۔‘‘ حضرت صفیہؓ نے بیٹے کو گھورتے ہوئے سخت لہجے میں کہا ’’زبیرؓ! میرا راستہ چھوڑ دے۔ مجھے معلوم ہے کہ تُو مجھے کیوں روکنا چاہتا ہے؟ مَیں جانتی ہوں کہ میرا بھائی شہید کردیا گیا ہے اور مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ اُن کی لاش کا مثلہ کیا گیا ہے، لیکن اِس وقت تو مجھے اللہ کے رسولﷺ کی فکر ہے۔‘‘ بیٹے نے کہا’’ امّاں جان! رسول اللہﷺ خیریت سے ہیں اور اللہ کی حفاظت میں ہیں۔‘‘ بیٹے کو ہاتھ سے پَرے کرتے ہوئے بولیں ’’یااللہ تیرا شُکر ہے۔ اب تُو بھی میرے راستے سے ہٹ جا۔ مَیں اپنے بھائی کو دیکھے بغیر نہیں جائوں گی۔‘‘

نبی کریمﷺ نے جب یہ سُنا، تو فرمایا ’’زبیرؓ! انہیں سیّد الشہداء کے پاس لے جائو۔‘‘ صبر و تحمّل کی پیکر، باہمّت بہن نے ماں جائے کا مجروح جسم اور بکھرے اعضاء نہایت حوصلے سے دیکھے اور گویا ہوئیں’’اے جانِ مدر! تُو نے یہ شہادت اللہ اور اُس کے رسولﷺ کی خُوش نُودی کے لیے قبول کی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اِن شاء اللہ بہت جلد اللہ مسلمانوں کو اِس عظیم قربانی کا اجر دے گا۔‘‘ یوں دُعائے مغفرت کے بعد مدینہ منوّرہ واپس چلی گئیں۔(سیرت ابنِ اسحاق، صفحہ497) مؤرخین نے لکھا ہے کہ اُنہوں نے اِس موقعے پر بھائی کے کفن کے لیے آنحضرتﷺ کی خدمت میں دو سفید چادریں پیش کیں۔

نام و نسب

اِس بہادر خاتون کا نام حضرت صفیہؓ تھا اور حضور انورﷺ کے دادا، جناب عبدالمطلب کی صاحب زادی تھیں۔ والدہ کا نام، ہالہ بنتِ وہب تھا، جو آنحضرتﷺ کی والدۂ ماجدہ، حضرت بی بی آمنہؓ کی ہم شیرہ تھیں۔ اِس بناء پر حضرت صفیہؓ، رسول اللہﷺ کی پھوپھی کے علاوہ خالہ زاد بہن بھی تھیں۔

سیّد الشہداء، حضرت حمزہؓ بھی حضرت ہالہؓ کے بطن سے تھے، چناں چہ حضرت صفیہؓ اور حضرت حمزہؓ حقیقی بہن، بھائی تھے۔ مؤرخین لکھتے ہیں کہ نبی کریمﷺ کی چھے پھوپھیاں اور 9چچا تھے، جن میں سے حضرت حمزہؓ اور حضرت عبّاسؓ مشرف بہ اسلام ہوئے۔ حضرت صفیہؓ اور اُن کے صاحب زادے، حضرت زبیرؓ ’’سابقون الاوّلون ‘‘میں سے تھے۔ جب کہ مزید دو پھوپھیاں، حضرت عاتکہؓ اور ارویؓ بھی بعد میں مسلمان ہوگئی تھیں۔

نکاح اور اولاد

حضرت صفیہؓ کا زمانۂ جاہلیت میں ابوسفیانؓ کے بھائی، حارث بن حرب کے ساتھ نکاح ہوا تھا، جن سے ایک لڑکا بھی پیدا ہوا۔ اُن کے انتقال کے بعد دوسرا نکاح ،اُم المومنین، حضرت خدیجتہ الکبریٰؓ کے برادرِ حقیقی، عوام بن خویلد سے ہوا۔ اُن سے تین بچّے زبیرؓ، سائب اور عبدالکعب پیدا ہوئے۔تاہم، عوام بن خویلد بھی جَلد وفات پاگئے۔ یوں حضرت صفیہؓ جوانی ہی میں بیوہ ہوگئیں اور پھر اپنے بچّوں کی پرورش کی خاطر زندگی بھر نکاح نہیں کیا۔(طبقات ابنِ سعد اردو، جِلد9 ، صفحہ283)۔ حضرت زبیرؓ کے علاوہ باقی دو بچّوں کا سیرت کی کتب میں ذکر نہیں ملتا۔ اِس لیے اکثر مصنّفین نے صرف حضرت زبیرؓ ہی کا تذکرہ کیا ہے۔

صاحب زادے کی خصوصی تربیت

حضرت صفیہؓ بہادر اور بارُعب سردار کی بیٹی، سیّد الشہداء حضرت حمزہؓ جیسے بھائی کی بہن، شجاعت و بے خوفی، حق گوئی و بے باکی کی پیکر، نہایت زیرک، دانش مند، پُرعزم اور مدبّر خاتون تھیں۔حضرت زبیرؓ کو توانا، مضبوط، جرّی اور نڈر بنانے کے ساتھ ساتھ سامانِ حرب کے استعمال کی خصوصی تربیت کا انتظام کیا، چناں چہ وہ شمشیر زنی، تیر اندازی، نیزہ بازی اور شہ سواری کے ماہر تھے۔

غزوات کے دَوران میدانِ کار زار میں اُن کے کارنامے تاریخِ اسلامی کی صفحات پر سنہرے حروف سے منقّش ہیں۔ حضرت زبیرؓ کو’’ عشرۂ مبشرہ‘‘ میں شامل ہونے کا بھی شرف حاصل ہے۔ رسول اللہﷺ نے اُنہیں’’ حواریٔ رسولؐ ‘‘ کے اعلیٰ خطاب سے نوازا۔ حضرت زبیرؓ کہتے تھے کہ’’ یہ سب میری والدہ، حضرت صفیہؓ کی تربیت کا انعام ہے۔‘‘

حضرت صفیہؓ کی شاعری

حضرت زبیرؓ ابھی کم عُمر تھے کہ اُن کا بازار میں ایک جوان شخص سے جھگڑا ہوگیا۔ لوگوں نے حضرت صفیہؓ کو جاکر بتایا، تو بولیں’’ یہ بتائو، تم نے کیا دیکھا؟ زبیرؓ نے مقابلہ کیا یا اُس جوان سے ڈر گیا؟‘‘ لوگوں نے بتایا کہ ’’آپؓ کے بیٹے نے تو اُس طاقت وَر شخص کا بازو توڑ دیا۔‘‘ اِتنے میں وہ شخص خود بھی آگیا۔ حضرت صفیہؓ شاعرہ بھی تھیں، لہٰذا اُنہوں نے اُس نوجوان سے مخاطب ہو کر ایک شعر کہا، جس کا ترجمہ یہ ہے’’اے شخص! تُو نے زبیرؓ کو سمجھا کیا تھا! کیا تُو نے اُسے پنیر سمجھا تھا یا کھجور یا پَر پھیلانے والا شِکرہ۔‘‘کچھ اہلِ سیر نے اپنی کتب میں حضرت صفیہؓ کی شاعری کا تذکرہ کیا ہے۔ حضرت حمزہؓ کی شہادت، حضرت عبدالمطلب کی وفات اور نبی کریمﷺ کی رحلت کے موقعے پر اُن کے کہے گئے اشعار کتب کی زینت ہیں۔

غزوۂ احزاب کی شیر دِل مجاہدہ

کفّار کے دس ہزار جنگ جوئوں کا مشترکہ لشکر مدینے کو تاخت و تاراج کرنے کے لیے آندھی طوفان کی طرح قریب آتا جا رہا تھا۔شہر کی حفاظت کے لیے خندق کھودنے کا کام پایۂ تکمیل کو پہنچ چُکا تھا۔ آنحضرتﷺ کو مسلمان خواتین اور بچّوں کی حفاظت کی فکر تھی۔ اُس زمانے میں انصار کے قلعوں میں سب سے مضبوط اور محفوظ قلعہ، شاعرِ رسولؐ ، حضرت حسّان بن ثابتؓ کا قلعہ’’فارع‘‘ تھا، جو بنوقریظہ کی یہودی آبادی سے متصل تھا۔ چوں کہ بنو قریظہ سے امن کا معاہدہ تھا، لہٰذا اللہ کے نبیﷺ نے تمام خواتین اور بچّوں کو حضرت حسّانؓ کے قلعے میں منتقل فرما دیا اور آپؐ خود صحابۂ کرامؓ کے ساتھ مدینے سے باہر تشریف لے گئے۔

ابنِ ہشام کے مطابق، مدینے کے تقریباً تمام مسلمان مرد اس جنگ میں مصروف تھے۔ کفّار کی فوج خندق کے باہر سے مدینے کا محاصرہ کرچُکی تھی کہ اچانک بنو قریظہ نے حضورانورﷺ سے معاہدہ توڑ کر کفّارِ مکّہ کا ساتھ دینے کا اعلان کردیا اور اس کے ساتھ ہی مدینے کے اندر موجود یہودیوں نے قلعے پر حملے کی منصوبہ بندی کرلی۔ اُنھوں نے حملے سے قبل ایک جاسوس قلعے کے معاینے کے لیے بھیجا۔ یہ شخص اندر کی سُن گن لینے اور فوجی طاقت کا اندازہ کرنے کی کوشش کر رہا تھا کہ حضرت صفیہؓ کی اُس پر نظر پڑ گئی۔ وہ صاحبِ فراست خاتون تھیں۔ اس یہودی کی پُراسرار حرکات و سکنات سے اُنہیں اندازہ ہوگیا کہ یہ شخص ضرور کوئی جاسوس ہے۔

حضرت صفیہؓ فوری طور پر قلعے کے نگران، حضرت حسّانؓ کے پاس پہنچیں اور اُنہیں اپنے خدشات سے آگاہ کرتے ہوئے درخواست کی کہ اُس شخص کو قتل کردیں۔ حضرت حسّانؓ عُمر رسیدہ تھے، لہٰذا اُنہوں نے کہا کہ’’اگر مَیں اس یہودی سے لڑنے کے قابل ہوتا، تو اِس وقت یہاں بیٹھنے کی بجائے رسول اللہﷺ کے ساتھ جہاد میں مصروف نہ ہوتا؟‘‘ حضرت صفیہؓ کی عُمر بھی اُس وقت 58سال تھی، لیکن صحت مند تھیں۔ وہ کہتی ہیں کہ’’ مَیں نے جب حضرت حسّانؓ کا جواب سُنا، تو خود ہی کمر کَس لی۔ قریب ہی ایک ڈنڈا پڑا ہوا نظر آگیا۔ مَیں اُسے مضبوطی سے پکڑ کر دروازے کی جانب گئی۔ ابھی مَیں نے دروازہ ہلکا سا کھولا ہی تھا کہ اُس شخص نے اندر گُھسنے کی کوشش کی اور یہی وہ وقت تھا، جب مَیں نے ڈنڈے کی تابڑ توڑ ضربوں سے اُسے موت سے ہم کنار کردیا۔

پھر حضرت حسّانؓ کے پاس گئی اور اُن سے کہا کہ’’ مَیں نے اُس یہودی کا کام تمام کردیا ہے۔ اب آپ جاکر اُس کے ہتھیار اور دیگر سامان اُتار لیں، وہ مرد ہے، وگرنہ مَیں خود اُتار لیتی۔‘‘ حضرت حسّانؓ بولے’’ مگر مجھے تو اُس کے ہتھیاروں اور سامان کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘ حضرت صفیہؓ فرماتی ہیں کہ’’ میرا خدشہ صحیح تھا۔ اپنے ایک ساتھی کی موت کے بعد یہودیوں کو یقین ہوگیا کہ قلعے کے اندر بھی مسلمان فوجی موجود ہیں۔ چناں چہ پھر اُنہیں حملہ کرنے کی جرأت نہ ہوسکی۔‘‘ (سیرت ابنِ ہشام، 69/3) ابنِ اثیرؒ تحریر کرتے ہیں کہ’’ حضرت صفیہؓ پہلی مسلمان خاتون ہیں، جنہوں نے بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک اسلام دشمن کا سَر قلم کیا، جس کی بنا پر مسلمان خواتین محفوظ رہیں۔‘‘

پھوپھیؓ اور بھتیجےؐ کے درمیان احترام و محبّت کا بے مثال رشتہ

نبی کریمﷺ کو اپنی پھوپھی، حضرت صفیہؓ بہت محبوب تھیں۔ حضور انورﷺ اُن کے بھتیجے تھے اور خالہ زاد بھائی بھی، چناں چہ اُنہیں بھی آنحضرتﷺ سے بہت محبّت تھی۔ حضور انورﷺ اکثر اُن کے صاحب زادے، زبیرؓ کو’’ ابنِ صفیہؓ ‘‘کے نام سے پکارا کرتے تھے۔ویسے تو پورا مدینہ اور تمام مسلمان رسول اللہﷺ کے انتقال پر غم زدہ تھے، لیکن دو ہستیاں، حضرت فاطمۃ الزہراؓ اور حضرت صفیہؓ سب سے زیادہ نڈھال تھیں۔

وفات اور تدفین

حضرت صفیہؓ’’ سابقون الاوّلون‘‘ میں سے تھیں، لہٰذا اُنہوں نے مکّے میں قریش کے جبر و استبداد کا وہ دَور بھی دیکھا کہ جب اپنے عزیز، رشتے دار خون کے پیاسے ہوچُکے تھے۔ خود ان کے معصوم فرزند، زبیرؓ پر اُن کا حقیقی چچا، نوفل بن خویلد ظلم و ستم کے پہاڑ ڈھاتا کہ لہولہان ہوجاتے۔پھر اُنہوں نے اسلام کا وہ دورِ عروج بھی دیکھا، جب مسلمان فاتحِ عالم تھے اور دنیا کے بہت بڑے حصّے پر اسلامی پرچم لہرا رہا تھا۔

مسلمان خواتین کے لیے رہتی دنیا تک جرأت و بہادری اور صبر و استقامت کی اعلیٰ مثال بننے والی اس عظیم مجاہدہ نے 20ہجری میں 73سال کی عُمر میں امیر المومنین، سیّدنا حضرت عُمر فاروقؓ کے دورِ خلافت میں داعیٔ اجل کو لبّیک کہا اور جنّت البقیع میں سپردِ خاک کی گئیں۔