ٹین ایجر سے میچور چیف ایڈیٹر تک

March 31, 2021

میر جاویدرحمٰن کی اپنے والد میرخلیل الرحمٰن اور بھائی میرشکیل الرحمٰن کے ساتھ ایک یادگار تصویر

نثار احمد زبیری

گورا، چٹا رنگ، چھ فٹ یا اس سے زائد قد، قدرے بھاری جسم، سیدھا سادا دفترانہ قسم کا بے تکلف پہناوا ،ہلکی ہلکی سی مردانہ خوشبو ،یہ تھے میر جاوید رحمٰن جو اخبار جہاں میں میرے امیجیٹ باس تھے۔ کوئی نہیں کہہ سکتا تھا کہ کل کا یہ معصوم ٹین ایجر ایک دم ایک ممتاز ہفت روزہ کا چیف ایڈیٹر بن کر اسے لاکھ سے بڑی اشاعت پر پہنچا دے گا۔

1965ءمیں جنگ ستمبر کے بعد میں نے روزنامہ ’’جنگ‘‘ میں ملازمت شروع کی اور طلبا کے لیے ایک ہفتہ وار صفحہ نکالنا شروع کیا تھا۔اس وقت ان سے پہلی بار ملاقات ہوئی تھی۔ انہیں محترم یوسف صدیقی صاحب ساتھ لے کر میرے کیبن میں آئے تھے اور ان کا تعارف کرایا تھا۔’’یہ میر صاحب کے بڑے بیٹے ہیں، جاوید‘‘۔ اس وقت وہ پتلے دبلے اور قد میں اخبار جہاں کے دور کے مقابلے میں کچھ کم تھے۔ شان دار لباس، سلیقےسے سنورے ہوئے بال اور آن بان سب کچھ بالکل واضح۔ یوسف صاحب تعارف کرا کے واپس چلے گئے۔جاوید صاحب بیٹھ گئے اور صفحہ طلباء کے بارے میں باتیں کرنے لگے۔ کچھ تعریف ،کچھ تجاویز اورکچھ تنقید ۔ان سے یہ پہلی ملاقات اچھی رہی۔ ان دنوں باتوں میں ترتیب اور تسلسل کم کم ہی تھا ۔ اچانک انہوں نے سگریٹ طلب کیا۔ان دنوں میں بھی سگریٹ پیتا تھا۔ ڈبیہ میز پر رکھی تھی، میں نے پیش کر دیا۔ ان کی بے تکلفی کچھ حیران کن تھی ،مگر اچھی لگی۔

میں1970میں روزنامہ ’’جنگ‘‘ سےمستعفی ہو کر ایک دوسرے اخبار میں ملتان چلا گیا۔اس کے ناکام ہونے پر واپس آیا تو میر صاحب نے بڑی کشادہ دلی سے مجھے پھر رکھ لیا۔ کچھ دن جنگ کا اداریہ لکھتا رہا، پھر محمود شام اخبار جہاں چھوڑ کر اپنا رسالہ نکالنے کے لئے چلے گئے تو میرا تبادلہ ’’اخبار جہاں‘‘میں کر دیا گیا۔اب جاوید صاحب سے روزانہ کی بنیاد پر سردو گرم ملاقاتیں اور پیشیاں ہونے لگیں۔

میر جاویدرحمٰن ، اپنے بھتیجے میر ابراہیم کے ساتھ

جاوید صاحب کا ہونہار روپ اس سے بالکل مختلف تھا جو میں نے چند سال پہلے دیکھا تھا۔ اب ان کا قد کچھ اونچا ہو گیا تھا اور بدن بھی کچھ بھاری ہو گیا تھا۔ 1973کا زمانہ تھا ۔یہاں سے شروع ہو کر 1984تک، یعنی گیارہ سال ان سے ہفتے کے دن متعدد بار ملاقات، بحث مباحثہ اور تعریف و تنقید سب کچھ جاری رہا۔ لیکن اب وہ پہلے والے ٹین ایجر نہ تھے۔اب وہ سنجیدہ، بردبار اور صحافت کی اونچ نیچ سمجھنے کےلیےبڑی حد تک تیار ہو چکے تھے۔ اس زمانے میں ان کی دلچسپی کے خاص محور تین تھے:

(1)اخبار جہاں کو میگزین کی خوبصورتی کی معراج پر پہنچانا ( 2)اس کے تمام صفحات کو رنگین اور بامقصد مواد سے سجانا (3)ٹائٹل اور سینٹر اسپریڈ کے لیے خوبصورت ٹرانسپرنسیوں کا انتخاب کرنا۔

اب ان کی سائیڈ ٹیبل کے ایک حصے پر دھندلا شیشہ لگ گیا۔ آئی گلاس آ گیا اور مشہور فوٹو گرافر محمد اسرار کی تقریباً روزانہ حاضری ہونے لگی۔ اسرار ،ہفتہ میں کئی بار ٹرانسپیرنسیاں لے کر حاضر ہوتے اور پھر ٹائٹل وغیرہ کے انتخاب کےلیے لمبی لمبی میٹنگ ہوتی۔ کافی تگ ودو کے بعد انتخاب ہوتا اور تصاویر ،فلمیں بنانے کے لیے متعلقہ شعبے کے سپرد کی جاتیں۔ کام مکمل ہونے اورچھپائی شروع ہونے پر جاوید صاحب پریس میں گھنٹوں کھڑے رہ کر رنگ ہلکا، تیز کرانے کو فرض کی طرح ادا کرتے۔ لیکن جب پیر کے دن تیار اخبار جہاں ہمیں ملتا تو ہر طرف خوشی کی لہر دوڑ جاتی۔

اس کام میں جاوید صاحب نے غیر معمولی دلچسپی سے بڑی مہارت حاصل کی۔ اور اس کے ساتھ ہم سب نے مل کر اخبار جہاں میں ڈائجسٹ ،رسالوں کے ممتاز ترین، مہنگے ترین لکھنے والوں کو جمع کر کے رسالے کو غیر معمولی کامیابی کی راہ پر ڈال دیا۔ یہ سب میر جاوید الرحمٰن اور اخبار جہاں کی ایک ساتھ غیر معمولی ذہنی ،ترقی اور کامیابی کا مظہر تھا۔

جاوید صاحب کے ساتھ مختلف کاموں میں مزا اس وقت آتا جب ان سے اختلاف رائے ہو جاتا تھا۔ اس کا ایک عام لگا بندھا انداز تھا۔وہ ٹائٹل کے لئے کوئی ٹرانسپیرنسی منتخب کرتے اور میں کہتا کہ یہ نہیں وہ دوسری والی ہونی چاہیے۔ اس پر بحث ہوتی، پھر جاوید صاحب کا چہرہ غصےسے سرخ ہو جاتا۔وہ سب ٹرانسپرنسیاں سمیٹ کر ایک طرف رکھ دیتے ۔میٹنگ بھی سمیٹ دی جاتی ،لیکن سب جانتے تھے کہ آدھے گھنٹے بعد کیا ہو گا ۔ آدھے گھنٹے بعد میٹنگ پھر شروع ہوتی اور ایک متفقہ فیصلہ ہو جاتا۔ ضد باقی رہتی نہ غصہ ، پھر وہ فلمیں بنوانے اور طباعت کی ہدایات میں لگ جاتے۔

میں نے انہیں ایک لاابالی ٹین ایجر کے طور پر دیکھا تھا اور ان سے باتیں کی تھیں۔ اس وقت وہ ایس ایم کالج کے طالب علم تھے۔ تقریباً چھ سات سال میں وہ بالکل بدل گئے تھے یا یوں کہئے کہ ایک دم بڑے ہو گئے تھے ۔ غیر ملکی رسائل و جرائد کے خیالات سےجاوید صاحب اورعملے نےمدد لے کر پاکستان سے متعلق موضوعات تلاش کیے۔سرکولیشن بڑھنے پر وہ انتہائی خوش تھے،پھر بڑے میر صاحب کی طرح انہوں نے اخبار جہاں میں پروف ریڈنگ کی اور دوسری اقسام کی غلطیوں کی طرف توجہ مرکوز کی ۔یہ غلطیاں ہزار کوشش کے باوجود رہ ہی جاتی تھیں۔اغلاط پر عملے کے لوگوں کی پیشی ہوتی … اچھے خاصے معرکے ہوتے۔اس کا خوش گوار نتیجہ یہ نکلا کہ عملے کے لوگ اور خود میں پہلے سے زیادہ متوجہ اور محتاط ہو گئے۔ زبان اور پروف کی غلطیوں پر توجہ دی جانے لگی۔

جاوید صاحب کے پاس انگریزی رسالوں سے ملے ہوئے بہت سے آئیڈیاز ہوتے تھے۔ ان کے کہنے پر اخبار جہاں میں کئی ایسے فیچرز وغیرہ شائع ہوئے جن کی دھوم مچ گئی۔ ان میں موٹر سائیکل چلانے والی لڑکیوں اور تعویذ گنڈے کرنے والے دھوکہ باز خواتین پر بنائے گئے فیچر خوب پڑھے گئے ۔،1973،1974کے زمانے میں موٹر سائیکل چلانے والی لڑکیاں چند ایک ہی تھیں، تصاویر کے ساتھ ان کے بارے میں فیچر بہت کامیاب رہا۔

ان کے ساتھ طویل عرصہ ہر طرح کے اتار چڑھائو سے عبارت ہے۔ ہر فرد کی طرح کبھی بہت غصے میں ہوتے اور کبھی بالکل نرم مزاج۔ اچھی بات یہ تھی کہ مزاج کی کوئی کیفیت لمبی نہیں چلتی تھی۔ کتنی بار ایسا ہوا کہ کسی کام کے لیے میں نے کہا اور انہوں نے صاف انکار کردیا، لیکن پھر کچھ دیر بعد جیسے میں نے چاہا تھا ویسے کردیا۔

اب وہ موجود نہیں ہیں تو ان کی بہت سی باتیں یاد آرہی ہیں۔

اخبار جہاں میں گزرے گیارہ، ساڑھے گیارہ سال میری زندگی کاقیمتی سرمایہ ہیں جس میں بے شمار تلخ و شیریں واقعات کی بھیڑ ہے۔ ان کا غصہ، ان کی محبتیں، ہنسنا ہنسانا… سب کچھ ہمیشہ یاد آتا ہی رہے ۔