سیاسی جماعتوں کا قبرستان

March 30, 2021

ترکی ایک ایسا جمہوری ملک ہے جہاں دنیا میں سب سے زیادہ تعداد میں سیاسی جماعتوں پر پابندیاں لگاتے ہوئے انہیں سیاست کے میدان سے نکال باہر کیے جانے کا سلسلہ جو اتاترک کے دور سے شروع ہوا، موجودہ صدر ایردوان کے دور تک جاری ہے۔ جدید ترکی کے قیام 1923سے لے کر 1945تک واحد جماعتی نظام قائم رہا اور اس کے بعد آہستہ آہستہ چند ایک پابندیوں کے ساتھ نئی سیاسی جماعتوں کا قیام عمل میں آتا رہا لیکن جیسے ہی ملک پر مارشل لا لگتا ملکی سیاست میں اپنا کردار ادا کرنے والی سیاسی جماعتوں پر پابندیاں عائد ہوتی رہیں۔ مرحوم نجم الدین ایربکان کی جماعت کو ہر پانچ چھ سال بعد کالعدم قرار دیتے ہوئے ان پر سیاست کے دروازے بند کیے گئے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ایربکان کی جماعت پر جتنی بار پابندی عائد کی گئی وہ نئی جماعت بنا کر ترکی کی سیاست میں پہلے سے زیادہ عوامی طاقت حاصل کرکے ابھرے۔ صدر ایردوان بھی اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں کہ سیاسی جماعت پر پابندی لگانے سے کسی سیاسی مسئلے کو حل نہیں کیا جاسکتا کیونکہ وہ خود بھی اس کا شکار رہ چکے ہیں اور مذہبی رجحان ابھارنے والی ایک نظم پڑھنے کی وجہ سے قید کی سزا بھی بھگت چکے ہیں۔ اس لٗئے انہوں نےاقتدار میں آنے کے بعد ملک میں جمہوریت کو فروغ دینے اور سیاسی اصلاحات کو متعارف کروا کر ایک ایسا کارنامہ سر انجام دیا جس کے بارے میں کوئی سیاسی رہنما سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ سب سے پہلے سیاسی جماعتوں کو کالعدم قرار دینے والے قوانین میں ترامیم کرواتے ہوئے آئندہ کسی بھی سیاسی جماعت پر پابندی کو مشکل بلکہ ناممکن بنادیا۔ صدر ایردوان کی سیاسی جماعت جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ (آق پارٹی) کو اقتدار میں لانے میں کردالنسل باشندوں نے بڑا نمایا ں کردار ادا کیا ہے بلکہ جنوب مشرقی اناطولیہ اور بڑے بڑے شہروں میں آباد کردوں کی اکثریت نے ایردوان کو ووٹ دے کر اس جماعت کیلئے اقتدار کی راہ ہموار کردی تو صدر ایردوان نے دیگر سیاسی رہنمائوں کے برعکس کردوں کے مسائل کے حل کی جانب خصوصی توجہ دی ۔ انہوں نے کردی زبان میں نشرو اشاعت، گانا گانے، تعلیم حاصل کرنے پر جو پابندیاں عائد تھیں ان کو ختم کرتے ہوئے کردوں کے دل جیت لئے اور جنوب مشرقی اناطولیہ اور دیگر علاقوں میں دہشت گردی کے واقعات پر مکمل طور پر قابو پانے اور دہشت گرد تنظیم پی کے کے، کا مکمل طور پر خاتمہ کرنے اور کردوں کو ترکی کی سیاست میں مزید اہم کردار ادا کرنے کا موقع فراہم کرنے کے لئےکردوں کی سیاسی جماعت پیپلز ڈیموکرٹیک پارٹی HDPاور جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کے درمیان مذاکرات کا سلسلہ شروع ہوا۔ ان مذاکرات کی وجہ سے ترک قومیت پسند جماعت نیشنلسٹ موومنٹ پارٹی MHPنے واویلا مچایا اور ایردوان پر ملک سے غداری کرنے کے الزامات لگائے لیکن صدر ایردوان نے اپوزیشن کی پروا کیے بغیر مذاکرات کا سلسلہ جاری رکھا اور دہشت گرد تنظیم پی کے کے دہشت گردوں کو ترکی کی حدود سے باہر کرنے کا باقاعدہ سلسلہ بھی شروع ہوگیا لیکن یہ مذاکرات ناکامی پر منتج ہوئے۔ ان مذاکرات کی ناکامی کے بعد حالات نے یکسر پلٹا کھایا اور صدر ایردوان پر غدار ہونے کا الزام لگانے والی جماعت MHPصدر ایردوان کے ساتھ صدارتی نظام متعارف کروانے کے بعد شریک اقتدار ہوگئی اور یوں اس ترک قومیت پسند جماعت نے کرد قومیت پسند جماعت HDPکے خلاف زہر اگلنے میں تمام حدود کو پار کرلیا جس پر آق پارٹی نے کھل کر HDPکو وطن دشمن اور دہشت گردی کی حمایت کرنے والی جماعت کے طور پر میڈیا کے سامنے پیش کرنا شروع کردیا۔ بلا شبہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اگر آق پارٹی اور HDPکے درمیان مذاکرات کامیاب ہو جاتے تو شاید ملک میں دہشت گردی کا ہمیشہ کے لئے قلع قمع ہو جاتا ۔ تاہم HDPنے اس عرصے کے دوران ملک میں جاری سیاسی اصلاحات سے بھرپور فائدہ ا ٹھایا اور اپنی سیاسی قوت میں اضافہ کرتے ہوئے ترک پارلیمنٹ میں 66نشستیں حاصل کرتے ہوئے ترک قومیت پسند جماعت MHPکو پیچھے چھوڑدیا جو صرف پارلیمنٹ میں 49نشستیں حاصل کرتے ہوئے آق پارٹی کے اقتدار میں شامل ہو گئی۔ان حالات میں ملک کی سپریم کورٹ کے چیف پراسیکیوٹر نے عدلیہ سے رجوع کرتے ہوئے HDPپر غداری اور دہشت گردی کی پشت پناہی کرنے کا الزام لگایا ہے اور اس جماعت کے 687اراکین کے خلاف مقدمہ چلانے کی استدعاکی ہے جسے منظور کرلیا گیا ہے اور جلد ہی مقدمے کی کارروائی کا آغاز کیا جا سکتا ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ مقدمے کی درخواست سپریم کورٹ کے پراسیکیوٹر جنرل نے اس وقت دی جب برسر اقتدار جماعت MHPکا سالانہ کنونشن منعقد ہو رہا تھا اور دولت باہچے لی کو ایک بار پھر پارٹی چیئرمین منتخب کیا گیا۔ آئینی عدالت کیلئے 687افراد پر غداری کامقدمہ چلانے اور فیصلہ آنے میں ایک سو دو سال لگ سکتے ہیں اور اس دوران HDPخاموش نہیں بیٹھی رہے گی بلکہ انتخابات سے قبل اپنی مظلومیت کو پیش کرتے ہوئے کرد عوام سے زیادہ سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کرے گی۔اگرچہ اس سے قبل جنوب مشرقی اناطولیہ میں آق پارٹی کو کردوں کی بھاری اکثریت ووٹ دیتی چلی آرہی ہے لیکن ایردوان کے رویے میں ہونے والی تبدیلی کی وجہ سے حالات بدل سکتے ہیں اور پہلی بار کردوں کی اس جماعت کواتنی بڑی تعداد میںووٹ پڑیں گے جس کی ابھی تک کوئی توقع نہیں کر پا رہا یا پھر اس جماعت کے بارے میں غلط اندازے لگائے گئے ہیں۔ کہیں MHPخدانخواستہ آق پارٹی کو ہی نہ لے ڈوبے۔