سر رہ گزر

April 04, 2021

اعلان ہی کافی ہے

پنجاب حکومت نے چینی کی پرچون قیمت 85روپے کلو مقرر کردی۔ شاید پنجاب حکومت کا اتنا ہی کام تھا اب اس اعلان پرعملدرآمد کا بھی وہی حشر ہوگا جو باقی اشیائے خوردنی کی پرچون قیمتوں کا ہوا، بلکہ مقررہ قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے، رمضان المبارک کے احترام میں حکومت اور دکانداروں کا یہ مقدس رویہ 99فیصد عوام کی نیندیں حرام کرے گا تو ایک فیصد اشرافیہ کی شرافت میں مزید اضافہ، اور حکومت جو خود اشرافیہ ہوتی ہے وہ مقررہ نرخوں کے نفاذ میں اتنا ہی کمال دکھائے گی جو اس نے لاہور کو کچرے سے پاک کرنے میں دکھایا۔ جملہ معترضہ کہ مفتاح اسماعیل کی دی ہوئی انکم ٹیکس چھوٹ یاد آتی ہے تو وہ ٹوٹ کے یاد آتے ہیں، انہیں مبارک ہو کہ الیکشن لڑنے کے لئے اہل قرار دے دیئے گئے۔ امیر جماعت اسلامی جو عوام کی بہترین خیر خواہی میں بیان فرماتے ہیں کہ مہنگائی کے سونامی نے عوام کو گھر یلو سامان کی نیلامی پر مجبور کردیا۔ شاید اس کے بعد وہ مقام آئے گا جب یہ گیت آن ایئر ہوگا؎

نیلام ہو رہی ہے مری ’’عزت‘‘ سرِبازار

میری قسمت کے خریدار اب تو آ جا

یہ خبر کہ مہنگائی 7ماہ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی اس کی تفصیل پڑھی نہیں جا سکتی، حکومتی رٹ حسب معمول ایک عرصے سے لاپتہ ہے، اسے بھی لاپتہ افراد میں شامل کرلیں مصائبِ مہنگائی میں اور تاثیر پیدا ہوگی، دوسرے ملکوں میں کورونا عذاب کی وجہ ان کے اپنے امیرانہ کرتوت ہوں گے مگر ہمارے ہاں یہ عذاب ظالمانہ مہنگائی کی تیز ترین اڑان کے سبب مسلط ہے، ہمارے پاس تو اتنا بھی نہیں کہ لوگوں کے دروازے ویلڈ کردیں اور ان کو گھر بیٹھے من وسلویٰ پہنچائیں، ناچار غریب عوام دانہ چگنے باہر نکلیں گے اور کورونا کا شکار بھی ہوں گے اور دل ہوگا چراغ مفلس کا۔ یہ اطلاع بھی عرض ہے کہ غریبوں کو اب عوام کہا جاتا ہے، ذخیرہ اندوزوں پر سی ایم صاحب میں ہمت ہے تو ہاتھ ڈال کر دکھائیں؟ پر کتھوں!

٭٭٭٭

تجارت بھی کریں

وزیر اعظم:مقبوضہ کشمیر کی پرانی حیثیت بحال ہونے تک بھارت سے تجارت نہیں کریں گے، تجارت نہ کرنے سے پاکستان کا نقصان ہوگا، ٹیکسٹائل بحران بڑھے گا، اور مقبوضہ کشمیر پر ظلم میں بھی اضافہ ہوگا، پہلے تجارت جاری کرنے کی بات کی پھر چند وزرا کے کہنے پر فیصلہ واپس، حکومت کی باتوں میں یہ سیمابی پن اس ملک کو کہاں پہنچا دے گا یہ اندازہ تو اصحاب دانش ہی لگا سکتے ہیں، بھارت سے ہماری یا بھارت کی ہم سے جنگ دونوں ملکوں کی تباہی کے سوا کچھ نہیں، ہمارے نرم رویوں کے نتیجے ہی میں بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی پرانی حیثیت بدلی، ہم کیوں اتنے گیلے ہو جاتے ہیں کہ نچوڑ لئے جاتے ہیں اور اتنے سخت کیوں کہ توڑ دیئے جاتے ہیں، یہ قبلے بدلنے کی پریکٹس جب بند ہوگی اور راہِ اعتدال اختیار کی جائے گی تو مسائل میں مسالہ کم ہوگا،باہمی تجارت جس قدر بڑھے گی تعلقات و حالات میں اس قدر بہتری آئے گی، پاک بھارت ہمسائیگی میں بہتری ہی دونوں ہمسایوں کے حق میں بہتر ہے، یہ جو ہم نے بھارت سے تعلقات خوشگوار بنانے سے توبہ کرلی تھی اس سے ہمیں کیا ملا، غالبؔ نے کیا خوب کہا تھا ، وزیراعظم غور فرمائیں؎

میں اور بزم مے سے یوں تشنہ کام آئوں

گرمیں نے کی تھی توبہ ’’ساقی‘‘ کو کیا ہوا تھا

نقصان اٹھانے کو جب فائدہ اٹھانا جان لیا جائے تو جان جانے کا خطرہ پیدا ہو جاتا ہے، اس لئے باہمی تجارت باہمی حاجت مندی کو جنم دیتی ہے، ان کا مال بکے ، ہمارا مال بکے تو دکان محبت چل پڑے گی، ہم نے جو دعا دی تھی وہ ہمارے لئے بددعا بن گئی، ہم تو نہ اپنی پالیسیوں کو سمجھ سکے نہ بھارت کی پالیسیاں جان سکے۔

٭٭٭٭

خود ہی گر گئے گراتے گراتے

اپوزیشن بھی شاید اسی بیماری کا شکار ہے جو روز اول سے حکومت کو لاحق ہے، اب دو گرتوں کو اٹھانے کے لئے ساقی کو نشہ پلانے کے بجائے نشیئوں کو اٹھانے کا بندوبست کرنا ہوگا۔ یہ صورت کب تک رہےگی کہ اپنی ٹانگ کی کھجلی مٹانے کے لئے دوسرے کی ٹانگ کھجلاتے رہیں‘یہ جو ہماری کھجلیاں ختم نہیں ہوتیں اس کی یہی وجہ ہے، ایک کو حکمرانی نہیں آتی دوسرے پر جوانی نہیں آتی، رانا ثنا کہتے ہیں کہ حکومت گرانے کےلئے پی ڈی ایم کے پاس کئی آپشنز ہیں، یہی پی ڈی ایم اگر مائنس مولانا کرکے کھڑی کی جاتی تو اب تک حکومت گر جاتی، بہت دیر کے بعد پی پی اور ن لیگ کو معلوم ہوگا کہ اسٹیبلشمنٹ کے مہرے کیسے پہچانے جاتے ہیں، عوامی مفاد کا ایک ہی کام جاری ہے کہ اب دونوں فریق ووٹ کو عزت دینے کے دعویدار بن گئے ہیں، ووٹ کو عزت دو، ووٹر کو ذلیل و خوار کرو؎

یہ عجیب رسم دیکھی کہ بروز عید قرباں

وہی قتل بھی کرے ہے وہی لے ثواب الٹا

کچھ مزے کرچکے ہیں کچھ مزے لے رہے ہیں، یہ ہے حزب اقتدار و اختلاف کا سارا فسانہ ، بزدار شہر یار کی حکمرانی کا یہ عالم کہ؎ اساں جان کے میٹ لئی اکھ وے، شہر لاہور ٹھیک ان کی ناک تلے واقع ہے مگر انہوں نے کبھی ناک کھجلا ئی تک نہیں، جب کوئی افسراُن کے کہنے میں نہیں ہوتا اسے تبدیل کر دیتے ہیں، جبکہ ان کا کام ہی کام لینا ہے، وزارت اعلیٰ کو سنبھالا دینا نہیں، لاہور میں سلامت پورہ کے علاقہ میں آٹھ سرکاری بھٹیاں دن رات کوڑا جلاتی ہیں جس کے نتیجے میں مکینوں کے سونگھنے کی صلاحیت نے مساوات اختیار کرلی ہے، پہلے کچھ اور ہی سنا تھا مگر قبلہ بزدار صاحب مبارک ہو کہ ؎

جانتا ہوں کہ اس کے فیض سے تو

پھر نیا چاہتا ہے ماہِ تمام

٭٭٭٭

آہ شوکت علی بھی نہ رہے

o....لیجنڈ گلوکار شوکت علی 77برس کی عمر میں انتقال کرگئے۔

شوکت علی اور میاں محمد بخشؒ لازم و ملزوم تھے، دونوں نہ رہے مگر ایک کا کلام دوسرے کی تان قائم رہے گی، خدائے ذوالجلال مرحوم کوگوشہ فردوس میں جگہ عطا فرمائے۔ حقیقت تو یہی ہے کہ ؎

ڈیگر تے دن آیا محمد اوڑک نوں ڈُب جانا

o....جیو کی ایک میزبان نے تجزیہ کاروں کے سامنے یہ سوال رکھا کہ کیا شوکت ترین کا یہ موقف درست ہے کہ حکومت کو پہلے اپنا گھر ٹھیک کرنا ہوگا ورنہ کشتی آگے نہیں بڑھے گی۔

پہلے تو یہ طے کرلینا چاہیے کہ حکومت کا کوئی گھر ٹھکانہ ہے بھی یا نہیں، کشتی کا ذکر تو طوفان کے پس منظر میں بعد میں کیا جائے گا۔