کیا جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ فیصلوں میں بھی بااختیار ہوگا؟

April 08, 2021

جنوبی پنجاب سیکریٹریٹ کے حوالے سے پیدا ہونے والا ابہام اگرچہ وزیر اعلی عثمان بزدار کی پریس کانفرنس نے بڑی حد تک دور کر دیا ہے، مگر اس کے باوجود کچھ ایسے سوالات ہیں، جن کا ابھی تک کسی نے جواب نہیں دیا، ایک طے شدہ معاملہ کو کس نے پٹری سے اتارا اور آخر کیا کھچڑی رہی تھی کہ جس کا نتیجہ اس نوٹیفیکیشن کی صورت میں سامنے آیا ،جو 29 مارچ کو کیبنٹ ڈویژن کی جانب سے جاری کیا گیا ،جس میں باقاعدہ یہ لکھا گیا ہے کہ گیارہ ستمبر 2020 ءکو جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ بنانے کے حوالے سے جو نوٹیفیکیشن جاری کیا گیا تھا اور جس میں علیحدہ سیکرٹریٹ کے قواعد وضوابط وضع کیے گئے تھے، اسے گورنر پنجاب کی منظوری سے واپس لے لیا گیا ہے۔

یہ اتنا بڑا واقعہ تھا کہ اس کی خبر جنوبی پنجاب کے سیاسی و سماجی حلقوں اور قوم پرستوں تک پہنچی،تو گویا ایک طوفان برپا ہو گیا، لوگ اس بات پر حیران تھے کہ آخر کن وجوہات کی بنا پر گیارہ ستمبر 2020 کا نوٹیفکیشن واپس لیا گیا ہے ،کیونکہ تحریک انصاف اور خصوصا ًوزیراعلی پنجاب نے یہ نوٹیفیکیشن جاری کرتے ہوئے بڑے فخر سے اس بات کا اعلان کیا تھا کہ وزیراعظم عمران خان کے وعدے کے مطابق جنوبی پنجاب کو علیحدہ سیکریٹریٹ دیا جارہا ہے جو درحقیقت علیحدہ صوبہ کی خشت اول ہے،اگر چہ چھ ماہ گزرنے کے باوجود جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کے حوالے سے کوئی خاص پیشرفت نہیں ہو ئی تھی، بلکہ الٹا یہاں تعینات ہونے والے ایڈیشنل چیف سیکرٹری خاموشی سے تبادلہ کراکر رخصت ہو گئے تھے اور پیچھے ایسے سیکرٹری صاحبان رہ گئے تھے ،جو اپنے اختیارات کے لئے ہمیشہ لاہور کی طرف دیکھتے تھے۔

تاہم اس کے باوجود یہ تاثر موجود تھا کہ جنوبی پنجاب میں علیحدہ سیکرٹریٹ قائم ہوچکا ہے اور اس کو فعال کرنے کے لئے ہوم ورک جاری ہے ،پی ٹی آئی کے مقامی اراکین اسمبلی لوگوں کو یہی دلاسہ دیتے رہے کہ سیکریٹریٹ بہت جلد فعال ہو جائے گا اور تمام تر اختیارات لاہور سے جنوبی پنجاب منتقل ہو جائیں گے، خود وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی بھی بڑے یقین کے ساتھ یہ کہتے تھے کہ علیحدہ سیکریٹریٹ قائم ہوچکا ہے اور بہت جلد فعال ہو کر عوام کے لیے خدمات سرانجام دے گا ،اس فضا میں جب 29 مارچ کا نوٹیفکیشن سامنے آیا ،تو نہ صرف جنوبی پنجاب کے اہل سیاست و فکر و نظر بلکہ خود تحریک انصاف کے اراکین اسمبلی اور عہدے دار بھی انگشت بدنداں رہ گئے ،ان کے پاس اس بات کا کوئی جواب نہیں تھا کہ آخر گیارہ ستمبر2020ء کا نوٹیفیکیشن کیوں واپس لیا گیا ہے کیونکہ اسے واپس لینے کا واضح مطلب یہ تھا کہ جنوبی پنجاب کا علیحدہ سیکریٹریٹ ختم کردیا گیا ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ تحریک انصاف کے ارکان اسمبلی نے اس دوران زبان سے ایک لفظ نہیں نکالا اور چپ سادھے بیٹھے رہے ، جبکہ دیگر سیاسی جماعتوں ،سرائیکی تنظیموں اور سماجی حلقوں نے اس بات پر شدید تنقید کا اظہار کیا ،جب یہ صورتحال پیدا ہوئی تو تحریک انصاف کے مقامی عہدیداروں کو بھی گویا جوش آگیا اور انہوں نے بھی اس فیصلہ کی مذمت کرنا شروع کر دی ،بات ملتان تک محدود نہ رہی، بلکہ اس کی گونج قومی سطح کی سیاست پر پہنچ گئی اور مریم نواز نے باقاعدہ اس پر تنقید شروع کردی اور اسے عمران حکومت کا ایک اور یوٹرن قرار دیا ، لگتا ہے کہ اس بڑھتی ہوئی تنقید کو دیکھ کر وہ قوتیں جنہوںنے علیحدہ سیکریٹریٹ کو ختم کرانے کا نوٹیفیکیشن جاری کرایا تھا ،دفاعی پوزیشن پر آگئیںاور انہوں نے خاموشی سےیکم اپریل کو ایک اور نوٹیفیکیشن جاری کرایا۔

جس میں گیارہ ستمبر کے نوٹیفیکیشن کی بحالی اور 29مارچ کے نوٹیفکیشن کی منسوخی کی نوید سنائی گئی ،اس معاملہ کا ابہام یہی تک محدود نہیں رہا بلکہ عوام کو اس وقت بےحد حیرانی ہوئی، جب وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار نے پریس کانفرنس کر کے 29 مارچ کے اس نوٹیفکیشن سے لاعلمی کا اظہار کیا، جو علیحدہ سیکرٹریٹ کے اختیارات ختم کرنے کے حوالے سے جاری کیا گیا تھا ،ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس سیکرٹری کو کو جس نے یہ نوٹیفیکیشن جاری کیا تھا ، او ایس ڈی بنا دیا گیا ہے، مگر ابہام یہاں بھی ختم نہیں ہوتا ،سوال یہ ہے کہ ایک سیکرٹری کو ایسا بڑا نوٹیفیکیشن جا ری کر نے کی جرات کیسے ہوئی ؟کیاکوئی اپنے طور پر پر ایسا قدم اٹھا سکتا ہے ؟

یہ بات بھی بھی قابل غور ہے کہ نوٹیفیکیشن میں گورنر پنجاب کی منظوری کا حوالہ موجود ہے ، تو کیا یہ بات بھی غلط ہے کہ گورنر پنجاب سے منظوری نہیں لی گئی ؟ جبکہ ابھی تک گورنرپنجاب کے ذرائع نے ایسی کوئی تردید نہیں کی، اس سے یہ تاثر ابھرتا ہے کہ پنجاب حکومت کے اندر کچھ ایسے افراد موجود ہیں جو جنوبی پنجاب کے علیحدہ سیکریٹریٹ کو کو پنپتانہیں دیکھ نا چاہتے ،آج وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی باربار اپنی پریس کانفرنسوں اور بیانات میں یہ بات دہرا رہے ہیں کہ جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کے خلاف سازش ہوئی ہے ، یہی نہیں، بلکہ وہ ملتان میں یہ تک بھی کہہ گئے کہ پنجاب حکومت کے خلاف سازش ہوئی ہے، یہ اتنا بڑا الزام ہے کہ جس کی انکوائری ہونی چاہئے اور حقائق سامنے لانے چاہئیں، کیونکہ یہ تو سیدھا سادہ حکومت کے اندر حکومت چلائے جانے کا کھلا اظہار ہے ،کیا اس طرح حکومت چل سکتی ہے کہ اس کو لاعلم رکھ کر اتنا بڑا نوٹیفکیشن جاری کر دیا جائے، جو جنوبی پنجاب کے کروڑوں لوگوں کو نشتر بن کرلگے۔

اس سارے عمل کے بعد ایک بار پھر جنوبی پنجاب کے عوام کو یہ یقین دلایا جا رہا ہے کہ انہیں بااختیار سیکرٹریٹ ملے گا اور بجٹ کا 33فی صد حصہ دیا جائے گا اور سب سے بڑی بات یہ کہ جنوبی پنجاب کے فیصلے جنوبی پنجاب میں ہی ہوں گے ،مگر اس سارے کام کے لیے ایک بار پھر چھ ماہ کی تاریخ دے دی گئی ہے، اس چھ ماہ میں کیا ہوتا ہے اس کا فیصلہ تو آنے والا وقت ہی کرے گا، لیکن جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کے حوالے سے پنجاب حکومت کی اس بے عملی نے عوام کو مایوس کیا ہے اوروہ یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ شاید انہیں جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کے نام پر سبزباغ دکھائے جارہے ہیں اور جو کام حکومت نے پہلے سو دنوں میں کرنا تھا، اب تین سال گزرنے کے باوجود بھی اس کی کوئی عملی شکل سامنے نہیں آ رہی اور دور دور تک ابہام ہے، دھندلاہٹ ہے اور بے یقینی ہے۔