مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس

April 09, 2021

بدھ کے روز اسلام آباد میں وزیر اعظم عمران خان کی زیر صدارت مشترکہ مفادات کونسل (سی سی آئی) کے اجلاس میں اگرچہ کئی امور پر تبادلہ خیال کیا گیا اور فیصلے بھی ہوئے تاہم چار گھنٹے طویل اجلاس میں قومی مردم شماری 2017ء کے نتائج پر فیصلہ سامنے نہ آسکا۔ ان نتائج کی منظوری پچھلے تین برسوں سے سی سی آئی کے ایجنڈے پر موجود ہے مگر صوبہ سندھ کی حکومت کے شدید تحفظات کے باعث کونسل ان نتائج پر اتفاق رائے حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہوسکی۔ وزیر اعظم آفس سے جاری سرکاری پریس ریلیز سےظاہر ہوتا ہے کہ اس ایشو پر حتمی فیصلے کے لئے اب پیر کے روز ورچول اجلاس ہوگا۔ مشترکہ مفادات کونسل کے 44؍ویں اجلاس میں چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کے علاوہ وفاقی وزرا اور اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔ وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی کی میڈیا بریفنگ کے بموجب پنجاب اور خیبر پختونخوا نے مردم شماری نتائج جاری کرنے کی حمایت کی جبکہ سندھ کی تجویز تھی کہ نتائج کے نوٹیفیکیشن کو نئی مردم شماری سے منسلک کیا جائے۔ وزیر اعلیٰ بلوچستان کی جانب سے مشاورت کے لئے وقت مانگے جانے پر کونسل کا اجلاس پیر کو دوبارہ طلب کیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ سال 2017ء کی مردم شماری کے نتائج کو حکومت سندھ اور متحدہ قومی موومنٹ نے مسترد کرتے ہوئے شکایت کی تھی کہ مردم شماری نتائج میں سندھ اور کراچی کی آبادی حقیقی آبادی سے کم ظاہر کی گئی ہے۔ کسی قوم، ملک، صوبے، شہر، بستی یا آبادی کے کسی حصے کا درست شمار اس کی ضروریات کی تکمیل اور وسائل کی فراہمی و تقسیم کی بنیادی ضرورت ہے۔ حقیقی اعداد و شمار رہائشی، طبی، تعلیمی اور روزگار سمیت مختلف ضروریات کا درست تخمینہ لگانے اور منصوبہ بندی کرنے میں مدد دیتے ہیں۔ قومی زندگی کے مختلف شعبوں مثلاً آبرسانی کے انتظامات، زرعی پیداوار، صنعتوں کے قیام، درآمد و برآمد، وسائل و مسائل کا حقیقی خاکہ سامنے ہوتو اچھی منصوبہ بندی کرنے اور بہتر سہولتوں کی فراہمی کے لئے طے شدہ انداز میں آگے بڑھنا ممکن ہوتا ہے۔ وطن عزیز کو اعداد و شمار کی صحت کے حوالے سے بعض اداروں میں جس خفت کا سامنا کرنا پڑا ہے اس سے بچنے کے لئے بھی اعداد و شمار کی درستی پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اب تو ٹیکنالوجی بھی اس مقام پر نظر آتی ہے کہ مردم شماری ہی نہیں متعدد امور میں درست اہداف متعین کرکے آگے بڑھنے میں اس سے مدد لی جاسکتی ہے۔ اس باب میں یہ امر قابل ذکر ہے کہ وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال نے بدھ کے اجلاس میں جب اپنے صوبے میں بجلی کی ایک اور تقسیم کار کمپنی قائم کرنے کی ضرورت اجاگر کی تو ان کے ذہن میں آبادی کی بڑھتی ہوئی صورت حال کا واضح اندازہ موجود تھا۔ تخمینے اور خاکے دوسرے متعدد امور میں بھی درکار ہوتے ہیں جن کا درست تعین اعداد و شمار سے ہوتا ہے۔ مشترکہ مفادات کونسل کی حیثیت سینیٹ کی طرح وفاقی نظام کے ایسے ادارے کی ہے جو تمام وفاقی وحدتوں کے مفادات کا تحفظ کرتا اور ان میں ہم آہنگی قائم رکھتا ہے۔ اس اعتبار سے وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کی یہ تجویز سنجیدہ توجہ کی متقاضی ہے کہ ہر نوے دن کے بعد مشترکہ مفادات کونسل کا ایک اجلاس بلایا جانا چاہئے۔ بدھ کے اجلاس کے کئی فیصلے خاص اہمیت کے حامل ہیں جن میں سی سی آئی کے مستقل سیکرٹریٹ کا قیام، سندھ کے لئے اضافی بجلی کی منظوری، ہائر ایجوکیشن کمیشن کو ملک میں اعلیٰ تعلیم کے معیار کے تعین کا قومی ادارہ قرار دینے کا فیصلہ بھی شامل ہے۔ توقع کی جانی چاہئے کہ مرکز اور صوبوں کی مشاورت و ہم آہنگی سے قومی مفاد میں فیصلوں کے اس اہم ادارے کو مزید موثر و فعال بنایا جائے گا۔