روزے کی قضافی الفور واجب نہیں

April 23, 2021

تفہیم المسائل

سوال:کسی شخص کے رمضان کے روزے قضا ہوگئے ہوں تو ان کی قضا کب تک رکھ سکتا ہے ؟

جواب: ترجمہ:’’سوجو شخص تم میں سے بیمار ہو یا مسافر ہو (اور وہ روزے نہ رکھ سکے )تو دوسرے دنوں میں عدد (پوراکرنالازم ہے)،(سورۃالبقرہ)‘‘۔صحیح بخاری میں امام بخاری نے ایک باب باندھا:رمضان کے روزوں کی قضا کب کی جائے ؟اس باب کے تحت انہوں نے حضرت عبداللہ بن عباس ؓاور حضرت عائشہ صدیقہؓ کے حوالے سے درج ذیل روایات بیان فرمائی ہیں : ’’ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا: اگریہ روزے مُتفرق رکھے جائیں توکوئی حرج نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: تو دوسرے دنوں میں عدد (پوراکرنالازم ہے)قضا روزے رکھنے سے مراد یہ ہے کہ بلاناغہ تسلسل کے ساتھ رکھنا ضروری نہیں ہے،بلکہ اپنی سہولت کے مطابق بیچ میں وقفہ بھی کرسکتے ہیں۔نیز قضائے رمضان کا روزہ غیر رمضان میں اگر رکھنے کے بعدکسی وجہ سے ٹوٹ جائے یاتوڑ دیاجائے تو اس کا کفارہ نہیں ہے ،صرف قضا ہے ۔’’ ابوسلمہ بیان کرتے ہیں : میں نے حضرت عائشہؓ کو فرماتے سنا: میرے ذمے ماہِ رمضان کے روزوں کی قضا ہوتی تھی اور میں انہیں صرف شعبان کے مہینے میں قضا کرسکتی تھی ۔یحییٰ نے کہا: نبی اکرم ﷺ کی مشغولیت کی وجہ سے یا آپ کے سبب سے مشغولیت کی وجہ سے ،(صحیح بخاری :1950)‘‘۔

حضرت عائشہؓ کاتاخیر سے قضا کرنا ایک عذرپر مبنی تھا اوروہ یہ کہ کسی بھی وقت انہیں رسول اللہ ﷺ کی خدمت کا شرف حاصل ہوسکتاتھا ،شعبان میں چونکہ آپ بکثرت روزے رکھتے تھے ، اس لیے حضرت عائشہؓ بھی شعبان میں روزے قضا کرتی تھیں ۔اس حدیث سے معلوم ہواکہ رمضان کے روزوں کی قضا علیٰ الفور واجب نہیں ہوتی،چنانچہ حضرت عائشہ ؓاپنے ذمے عائد ماہِ رمضان کے روزوں کی قضا اگلے رمضان کے آغاز سے قبل ماہِ شعبان میں کرتی تھیں ۔تمام فقہائے کرام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ماہِ رمضان کے روزوں کی قضا علیٰ الفور واجب نہیں ہے ،لیکن بلا عذر اتنی تاخیر کرنا گناہ ہے کہ اگلا ماہِ رمضان شروع ہوجائے ۔’’ حضرت ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس نے رمضان کا مہینہ پایا اور اس پر گزشتہ رمضان کے روزوں کی قضا باقی ہے ،اس کے اس رمضان کے روزے قبول نہیں ہوں گے اورجس نے نفلی روزے رکھے ،جبکہ اس پر رمضان کے روزوں کی قضاباقی تھی ،اس کے نفلی روزے قبول نہیں ہوں گے، حتیٰ کہ وہ قضا روزے رکھ لے ،(مسند امام احمدبن حنبل)‘‘۔

تنویر الابصار مع الدرالمختار میں ہے : ’’جن ایام میں وہ (روزہ رکھنے پر) قادر ہو،وہ فدیہ کے بغیر ان کی قضا رکھے اوران کو پے درپے رکھنا بھی لازم نہیں ہے ،کیونکہ روزے کی قضا کاحکم (فوری نہیں بلکہ)تراخی پر مبنی ہے ،اسی وجہ سے قضا سے پہلے نفلی روزہ رکھنا جائز ہے ،نماز کی قضا کا معاملہ مختلف ہے اور اگر دوسرا رمضان آجائے تو ادا کو قضا پر مقدم کرے گا اور اس پر کوئی فدیہ نہیں ہوگا ‘‘۔

خلاصۂ کلام یہ ہے کہ رمضان کے روزوں کی قضا وہ جس وقت چاہے رکھ سکتاہے ،البتہ کوشش کرے کہ اگلا رمضان آنے سے پہلے قضا روزے رکھ لے، لیکن اگر نہ رکھ سکا اور دوسرا رمضان آگیا تو پہلے وہ اُس دوسرے رمضان کے ادا روزے رکھے ،اس کے بعد گزشتہ رمضان کی قضا کرے اور اس پر فدیہ دینا لازم نہیں ہے ،تاہم اتنی تاخیر ناپسندیدہ ہے،اسے چاہیے کہ وہ اپنی اس کوتاہی پر اللہ سے مغفرت طلب کرے اورروزے رکھے۔