’’مختاریا ہن تے گل ودھ گئی اے‘‘

May 09, 2021

رات کا پچھلا پہر تھا ۔میں کالم لکھنے میں مصروف تھا کہ ٹیلی فون کی گھنٹی نے میرے خیالات کا تسلسل توڑکر رکھ دیا۔ دوسری طرف میرا دوست تھا جس کے اس جملے نے بڑی شہرت پائی تھی ’’مختاریا ہن تے گل ودھ گئی اے۔‘‘ پیپلز پارٹی اس کی سیاسی جنم بھومی تھی لیکن اس کا انتم سنسکار پی ٹی آئی کے پلیٹ فارم پر ہوا ۔’’سیاسی آدمی ‘ سیاسی خود کشی‘‘ پر میرے سمیت کئی دوستوں نے اس کی خودکشی کا رونا رویا لیکن اس کے پاس اس کا کوئی جواز اور دلیل نہیں تھی۔ بس ایک ہی جواب تھا ‘غلطی ہو گئی لیکن ایک روز وہ استعفیٰ دے کر گھر چلا آیا ۔ سیاسی محفل آرائی اس کا پرانا شوق ہے بڑوں کی محفل میں اٹھنا بیٹھنا اس کا روزمرہ کا معمول ہے اس لئے میں اسے ایک باخبر سیاست دان سمجھتا ہوں ۔ سرگودھا کے دور دراز گائوں سے اس نے مجھے فون کیا اور’’ شہر اقتدار‘‘ کا حال احوال دریافت کیا تو میں نے کہا کہ’’ جس حال پر چھوڑ گئے اسی بے ڈھنگی چال پر چل رہا ہے ۔‘‘ کووڈ۔19نے دیگر لوگوں کی طرح اسے بھی اپنے گائوں میں مقید ہونے پر مجبور کر دیا تھا۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ جب وہ حکومتی ترجمانوں کی فوج ظفر موج کا حصہ تھا توبلا معاوضہ ۔ بہت کم بولتا تھا اور انتہائی سلجھے انداز میں عمرانی حکومت کا دفاع کرتاتھا لیکن’’ کپتان ‘‘ کو اس کا یہ انداز گفتگو پسند نہ تھا اکثر و بیشتر دھیمے پن پر اس کی جواب طلبی ہوتی رہتی تھی جس روز ’’کپتان ‘‘ نے ترجمانوں کے اجلاس میں کسی کا نام لئے بغیر کہا کہ جو شخص حکومت کا دفاع جارحانہ انداز میں نہیں کر سکتا بے شک وہ جا سکتا ہے تو اسی روز اس نے اپنا استعفاوزیر اعظم کو بھجوا دیا ۔ پیپلز پارٹی کے دو رہنمائوں قمر زمان کائرہ اور ندیم افضل چن سے میرا یارانہ ہے۔ جب سیاسی حلقوں میں ان کی پی ٹی آئی میں شمولیت کی افواہ گردش کر رہی تھی تو جسٹس شوکت صدیقی کے صاحبزادے کے ولیمہ میں میرا قمر زماں کائرہ سے آمنا سامنا ہوگیا ‘ میںنے ان سے اشارتاً کہا کہ ’’ یا رشرمندہ نہ کرنا ‘‘ انہوں نے سینے پر ہاتھ رکھ کر کہا کہ ’’کائرہ اپنا مول نہیں لگوائے گا ‘‘لیکن جب ندیم افضل چن نے پی ٹی آئی کا جھنڈا اپنے گلے میں ڈال لیا تو میں نے ان کو مبارک باد دینے کی بجائے اسی طرح تعزیت کی جس طرح پیدائشی مسلم لیگی حامد ناصر چٹھہ نے اپنے بیٹے کو ٹکٹ دلوانے کے لئے ’’چٹھہ ہائوس ‘‘ پر پی ٹی آئی کا جھنڈا لہرا دیا تو میری’’تعزیت ‘‘پر ان کا جواب آیا کہ ’’میں بذاتِ خود مسلم لیگی ہوں اور تاحیات مسلم لیگی رہوں گا‘‘۔ بات ہو رہی تھی سرگودھاکے دور دراز گائوں سے میرے دوست کی ٹیلی فون کال کی جس نے مجھے بتا یا ’’ اب بات لانگ مارچ ،استعفوں اور عدم اعتماد سے آگے چلی گئی ہے ۔قومی حکومت کے قیام کے لئے بات چل رہی ہے ‘‘ میں نے ان کی بات کی تصدیق کی اور کہا کہ کچھ کچھ تو مجھے بھی علم ہے لیکن ہنڈیا میں جو کچھ پک رہا ہے وہ ابھی میز پر سجا نہیں ۔ میں نے انہیں بتایا کہ پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے بھی ایک سوال کے جواب میں قومی حکومت کے قیام پر معنی خیز انداز میں گفتگو کی ہے لیکن انہوں نے اس بارے میں کوئی بات کھل کر نہیں بتائی پبلک اکائونٹس کمیٹی کے چیئرمین رانا تنویر حسین بھی میری بات کی تصدیق کر چکے تھے لیکن ان کے سامنے قومی حکومت کا نقشہ واضح نہیں تھا ۔ شہر اقتدار میں حکومت کی معاشی ناکامیوں اور پی ٹی آئی میں ارکان کی باغیانہ روش کی وجہ سے قومی حکومت کی تجویز گردش کر رہی ہے لیکن سوال یہ ہے کیا ’’کپتان ‘‘ اس تجویز کو قبول کرلے گا ؟ یہ تو اسی وقت ممکن ہے جب عمران خان سیاسی مخالفین سے شکست تسلیم کرنے پر مجبورکر دیا جائے۔ میں عمران خان کو ربع صدی سے جانتا ہوں وہ سب کچھ کر لیں گے لیکن اپنے سیاسی مخالفین کے سامنے سرنڈر نہیں کریں گے‘ وفاقی وزیراسد عمر نے بلاوجہ دھمکی نہیں دی کہ’’اگر عمران خان کو کام نہ کرنے دیا گیا تو وہ قومی اسمبلی کو توڑ بھی سکتے ہیں ‘‘ در اصل انہوں نے یہ پیغام ان قوتوں کو دیا ہے جو ملک کو بند گلی سے نکالنے کے لئے قومی حکومت کے قیام کی خواہشمند ہیں ۔ اس وقت وزیر اعظم عمران خان اپوزیشن کو اپنے لئے کوئی خطرہ نہیں سمجھتے بلکہ ان کو اصل خطرہ اپنی پارٹی کے ان باغیوں سے ہے جنہیں حکومت سازی کے وقت جہانگیر ترین نے بڑی تیزی سے پی ٹی آئی کی’’چھتری‘‘ تلے اکٹھا کیا تھا آج وہ اسی رفتار سے واپس ان کے کیمپ کی رونق بن رہے ہیں۔ سیاسی شعور رکھنے والا ہر شخص یہ جانتا ہے کہ عمران خان کی حکومت جس شاخِ نازک پر قائم ہے اس پر سے 7،8پرندے اڑ کر چلے جانے کے بعد آشیانہ سلامت رہنا ممکن نہ ہو گا ۔ شہباز شریف ضمانت پر رہا ہو کر باہر آگئے ہیں اسلام آباد میں برطانیہ اور چین کے سفیروں سے ملاقاتیں کرچکے ہیں ممکن ہے وہ ایک دوروز میں سعودی عرب کے سفیر سے بھی ملاقات کریںلیکن ان کے بارے میں یہ خبر آئی ہے کہ وہ علاج کے لئے برطانیہ جا رہے ہیں قومی حکومت کا تاج کس کے سر سجتا ہے فی الحال کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔ جہاں تک مجھے علم ہے نواز شریف کسی ایسی قومی حکومت کا حصہ نہیں بنیں گے جس سے ان کی وطن واپسی ممکن نہ ہو’’ مائنس ون ‘‘فارمولہ پہلے بھی نواز شریف نے قبول نہیں کیا جس کے نتیجے میں ان کی جلاوطنی کی نوبت آگئی البتہ اگر مریم نواز کے وزارت عظمیٰ کے منصب تک پہنچنے کی راہ میں حائل رکاوٹیں دور کر دی گئیں تو اس بات کا قوی امکان ہے کہ نواز شریف مقتدرہ سے صلح کر لیں گے ۔ اس سیاسی کھیل کے اہم کھلاڑی چوہدری نثار علی خان نے پر اسرار خاموشی اختیار کر رکھی ہے وہ اندھیرے میں کوئی کھیل نہیں کھیلنا چاہتے وہ دن کے اجالے میں اپنے لئے کسی رول کے منتظر ہیں یہی وجہ ہے انہوں نے تاحال پنجاب اسمبلی کی رکنیت کا حلف نہیں اٹھایا اگرچہ پچھلے دو اڑھائی سال کے دوران ان کے لئے وزارت اعلیٰ پنجاب کا تخت سجا کر رکھا گیا لیکن انہوں نے کوئی پر کشش پیشکش قبول نہ کر کے اپنے اجلے سیاسی دامن کو داغدار ہونے سے بچائے رکھا ۔ قومی حکومت کے منصوبہ سازوں کے پاس بھی اس سوال کا جواب نہیں کہ پاکستان کو بند گلی سے کس طرح نکا لاجائے۔ بند گلی میں حکومت بھی کھڑی ہے، اپوزیشن اور اسٹیبلشمنٹ بھی۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)