پاک سعودی تعلقات میں نیا موڑ؟

May 13, 2021

پاکستان کی خارجہ پالیسی میں سعودی عرب کی اہمیت روزِ اول سے بےمثال رہی ہے۔ سمندر سے گہری ہمالیہ سے اونچی اور شہد سے میٹھی دوستی کی مثال شاید سعودی عرب کے حوالے سے زیادہ موذوں تھی، بلاشبہ اِس کی اولین وجہ حرمین شریفین سے پاکستانی عوام کی والہانہ محبت و عقیدت ہے جن کی کسٹوڈین سعودی حکومت ہے اور پھر او آئی سی کی قیادت بھی شروع دن سے سعودی عرب کے پاس ہے۔ یوں تمام عرب اور مسلم ممالک سعودی عرب کو احترام کی نظروں سے دیکھتے ہیں۔ اس کے ساتھ یہ امر بھی پیش نظر رہنا چاہئے کہ سرد جنگ کے دور سے پاکستان امریکی کیمپ کا اہم حصہ بن کر جو کردار ادا کرتا چلا آ رہا ہے اس میں سعودی عرب کی معاونت لمحہ بہ لمحہ اسے حاصل رہی ہے۔ سعودی عرب کے قیام سے اس کی قیادت کے امریکہ سے جو قریبی مراسم رہے ہیں، پاکستان ان سے ہمیشہ مستفید ہوا ہے، اگر کبھی امریکہ سعودی تعلقات میں اتار چڑھائو آیا ہے تو اس کے اثرات بھی ہم تک ضرور پہنچے ہیں۔ سعودی عرب کو اپنی جنوبی سرحد پر یمن کے حوثی باغیوں کی صورت، جو ایشو یا چیلنج درپیش ہے، پاکستان اس مسئلے یا جنگ کا حصہ بنے بغیر حرمین شریفین کے دفاع کے لئے ہمہ وقت حاضر و دستیاب رہا ہے۔ اسی تناظر میں سعودی عرب اور ایران کے تعلقات میں جب تنائو یا بگاڑ کی صورتحال پیدا ہوئی اور نواز شریف دور میں ہماری پارلیمنٹ نے اس نوع کی قرار داد منظور کی کہ پاکستان کسی بھی ایسے تنازع میں غیرجانبدار رہے گا، اس سے وقتی طور پر ہمارے تعلقات میں سرد مہری آئی مگر اس بدگمانی پر جلد قابو پا لیا گیا۔حکومت کے دور میں بھی کچھ اس نوع کی رنجشیں سامنے آئیں جن کا پس منظر جاننے کے لئے ہمیں سعودی عرب کی خارجہ پالیسی میں میانہ روی و اعتدال پسندی جیسی بنیادی اقدار کو سمجھنا ہوگا۔

سعودی عرب اس وقت عالمی سطح پر مسلم ورلڈ کو لیڈ کر رہا ہے لیکن اس کی اپروچ کسی بھی حوالے سے متشدد یا شدت پسندی پر مبنی نہیں ہے، سعودی عرب اس وقت بھی معتدل پالیسی کا حامل ہوا کرتا تھا جب ایران میں نئے جوش و خروش کے ساتھ خمینی کا انقلاب برپا ہوا تھا اور عالمِ عرب میں قذافی کے ساتھ یاسر عرفات کی آواز بھی شدت پسندی کے ساتھ شامل تھی۔ سعودی عرب اگرچہ ہمیشہ فلسطینی کاز یا حقوق کا سب سے بڑا سہارا رہا ہے لیکن اس کی سوچ کبھی بھی شدت پسندوں کی ہمنوانہیں رہی۔ کچھ اس سے ملتی جلتی سعودی اپروچ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے بھی ہے۔ سعودیوں نے کشمیری عوام کے دکھوں میں ہمیشہ ان سے اظہار ہمدردی و یکجہتی ضرور کیا لیکن اس خطے میں شدت پسندی اور دہشت گردی کے نعروں سے ہمیشہ لاتعلقی ظاہر کی ۔ معاشی لحاظ سے بلاشبہ انڈیا بڑی عالمی مارکیٹ ہے جسے ترقی کی طرف گامزن کوئی بھی قوم نظر انداز نہیں کر سکتی اور وہاں مسلم آبادی بھی کم نہیں۔ یہ امر بھی پیش نظر رہے کہ سعودی عرب اور خلیجی ممالک میں جس قدر پاکستانی موجود ہیں ان سے زیادہ انڈین بھی خدمات سرانجام دے رہے ہیں لہٰذا ہمیں سعودی اپروچ اور پالیسیوں کا جائزہ لیتے ہوئے ان حوالوں کو نظر انداز نہیں کرنا چاہئے۔ کچھ عرصہ قبل ہمارے وزیر خارجہ نے او آئی سی میں مسئلہ کشمیر اٹھانے کے حوالے سے سعودی عرب پر کھلے بندوں جو تنقید کی، ظاہر ہے اس سے ہمارے دو طرفہ تعلقات پر منفی اثرات ہی پڑنے تھے سو پڑے۔ علاوہ ازیں ترکی اور سعودی عرب کے تعلقات کی بھی ایک طویل تاریخ ہے۔ عثمانی خلافت کے خلاف جدوجہد کرتے ہوئے ہی موجودہ عرب ممالک نے آزادیاں حاصل کی تھیں۔

موجودہ ترک قیادت خود کو سلطنت عثمانیہ کے وارث کی حیثیت سے پیش کرتی ہے۔ سعودی اگر اس صورت حال کو شک بھری نظروں سے دیکھتے ہیں یا او آئی سی کے لئے اسے خطرناک خیال کرتے ہیں تو یہ سب حقائق ہمارے لئے قابلِ فہم ہونے چاہئیں، جن دنوں ملائیشیا میں مہاتیر محمد ترکی اور ایران کی معاونت سے امہ کی درد مندی میں اجلاس بلا رہے تھے، اس میں سعودی عرب کو قطعی اعتماد میں نہیں لیا گیا تھا۔ سعودی دوستی اور گہرے تعلقات کا تقاضا تھا کہ ہم بھی سعودیہ کو اعتماد میں لئے بغیر اس میں شرکت کے وعدے نہ کرتے۔ ان دنوں ہم نے جس نوع کے پینترے بدلے ان کی تفصیلات میں جائیں تو یہ کسی طرح بھی سفارتی پختگی اور ذمہ دارانہ خارجہ پالیسی کی غمازی نہیں کرتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ سعودی عرب سے ہمارے تعلقات میں سرد مہری سے بھی بڑھ کر ایک نوع کا تنائو آ گیا۔ سعودی عرب نے ہماری معاشی معاونت کے لئے جو رقم دے رکھی تھی اس میں سے ایک ارب ڈالر واپس مانگ لئے۔ مقامِ حیرت ہے کہ اس صورتحال کو سنبھالا دینے کے لئے جو رول سیاسی قیادت کا بنتا تھا آج وہ کوئی اور سرانجام دے رہا ہے۔ اس سیاسی نااہلی کے بالمقابلِ یہاں ان کی ستائش بہرحال بنتی ہے جنہوں نے سعودی قیادت سے نہ صرف تمام بگڑے ہوئے معاملات درست کئے بلکہ سیاسی قیادت کا حالیہ دورہ کامیاب بنوایا۔ انہوں نے سعودی کراؤن پرنس کو یقین دہانی کروائی کہ کسی بھی صورت میں ہم حرمین شریفین کا دفاع یقینی بنائیں گے اور آپ کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔ اس کے ساتھ یہ امر بھی پیش نظر رہے کہ سابق امریکی صدر ٹرمپ مڈل ایسٹ سے متعلق جو پالیسیاں لے کر چل رہے تھے موجودہ صدر بائیڈن نے ان میں کچھ تبدیلیاں کی ہیں جن کی زد سعودی عرب پر بھی پڑی ہے۔یوں سعودی عرب نے بدلے ہوئے حالات میں جہاں عراق کی معاونت سے ایران کے ساتھ مذاکرات کا ڈول ڈالا ہے وہیں پاکستان کے ساتھ اپنے معاملات میں زیادہ نرمی کا مظاہرہ کیا ہے جس سے امید کی جا سکتی ہے کہ سعودی عرب سے ہمارے دیرینہ تعلقات کی نہ صرف تجدید ہو گی بلکہ پاک ،ہند تعلقات میں بہتری لانے کے لئے متحدہ عرب امارات کے ساتھ مل کر سعودی عرب مثبت رول ادا کرے گا۔ ہمارے سوشل میڈیا میں زکوٰۃ و فطرانہ کے چاولوں کی وصولی پر جو بھاری تنقید ہو رہی ہے اس کے وزن کو بھی محسوس کیا جانا چاہئے۔ نئے علوم وفنون اور سائنسی ترقی کی راہوں کو چھوڑ کر انڈسٹریلائزیشن کرنے کی بجائے لنگر خانے کھولنے کی پالیسی کا شاید یہی نتیجہ نکلنا تھا۔ ہماری قیادت کو اس پر ضرور غور کرنا چاہئے۔