اسرائیلی دہشت گردی، کمیونیکیشن وار کی گنجائش

May 18, 2021

محصور مقبوضہ کشمیر میں 20ماہ سے جاری بھارتی ریاستی دہشت گردی پر عالمی بےحسی کے بعد ایک ہفتے سے نہتے فلسطینیوں پر قابض یہودی حکومتی دہشت گردی سے جو کوہ غم ٹوٹ رہا ہے، اُس کا فوری رسپانس تو حماس کے تل ابیب کو بوکھلا دینے اور دنیا کو چونکا دینے والی راکٹوں کی بارش سے آیا، جب مسجد اقصیٰ کو گھیرے مسلح پولیس کی شہ پر یہودی غنڈوں نے افطار کرتے اور نماز پڑھتے فلسطینیوں پر خالی بوتلیں اور کرسیاں برسانا شروع کر دیں۔ نماز جاری رہی اور ختم ہوتے ہی نہتے فلسطینی بھی حملہ آوروں پر ٹوٹ پڑے، جواب میں انہوں نے بھی کرسیاں برسانا شروع کیں تو پولیس نے بقیہ نمازیوں پر ربڑ کی گولیاں برسانا شروع کر دیں تو نمازی زخمی ہو کر گرنے لگے، تصادم بڑھا تو پولیس نے اوپن فائر کئے جس سے دو فلسطینی شہید ہو گئے چونکہ مسجد میں شیخ جراہ سے نکالے گئے فلسطینیوں، جو مسجد میں نماز پڑھ رہے تھے، سے یکجہتی کے لئے ویسٹ بینک کے قابض علاقے سے ہزاروں فلسطینی مسجد میں جمع تھے، یوں بھی رمضان کی شام مقابل مسلح پولیس اور یہودی غنڈے افطار سے پہلے ہی شر انگیزیاں کرتے کرتے بالکل ان کے قریب آ گئے تھے سو تصادم مسجد اقصیٰ کے نواح میں پھیل گیا۔ فلسطینیوں کے خالی خولی خیر خواہ مسلم ممالک اسرائیل کی جاری دہشت گردی کی اس اصل وجہ کو دنیا میں جتنا عام کر دیں اتنا کم ہے، اتنا تو گھر بیٹھے کیا جا سکتا ہے۔۔ افطار و نماز کے دوران مسجد میں داخل ہو کر فائرنگ کرکے دو کی شہادت اور دسیوں کو زخمی کرنا ہی جاری قیامت کی اصل اور فوری وجہ بنا۔ فلسطینیوں کے خیر خواہ، مسلم ممالک کی حکومتیں یا سوشل میڈیا کے ACTIVISTSان کی مناظر سے اپنا موقف اور موثر بیانیہ بنانے میں ناکام ہو گئے تو اسرائیل خود اور اس کا حامی طاقتور مغربی میڈیا حماس کے غیرمتوقع جواب میں عسکری ردعمل کو ہی ’’دہشت گردی‘‘ کے طور پر پوٹریٹ کرکے دنیا کو کنفیوژ اور بےخبروں کو قائل تک کرنے میں کامیاب ہو جائے گا یا کم از کم مظلوم فلسطینیوں کی ہی صف میں اپنی جگہ بھی بنا لے گا۔ سیکورٹی کونسل کے اجلاس میں فقط نائیجر کے وزیر خارجہ ابراہیم یعقوبہ نے اسرائیل اور مسلم دنیا کے درمیان اب شروع ہوئی ابلاغی جنگ کی اس بڑی ابلاغی ضرورت کو پورا کرتے ہوئے دنیا پر واضح کیا ہے کہ جس طرح ریاستی تیاری اور ارادے کے ساتھ رمضان کے مقدس مہینے میں مسجد اقصیٰ میں اسرائیلی پولیس نے شر پسندوں کے ساتھ دوران افطار و نماز داخل ہو کر روزہ کھولتے اور نماز ادا کرتے فلسطینی مسلمانوں کو شہید اور بڑی تعداد میں زخمی کیا، اس کے بعد جو حماس نے ’’ردِعمل کیا اس کے علاوہ اور کیا توقع کی جا سکتی تھی‘‘ جبکہ کونسل کے اجلاس میں میکسیکو کے نمائندے نے مسجد میں اسرائیلیوں کے داخلے کے پس منظر کو بھی خوب واضح کیا کہ مشرقی یروشلم کی ناجائز آبادیوں میں گھیرے شیخ جراہ گائوں کے جن فلسطینیوں کو بےدخل کیا اور مسجد میں آئے، ان کا رہائشی علاقہ اقوامِ متحدہ کے زون میں آتا ہے۔ گویا مسجد سے پہلے اسرائیلی وہاں بھی عالمی قوانین کو روندتے ہوئے داخل ہوئے۔ انہوں نے اپنی شدید مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا مقبوضہ علاقے خالی کرا کر فلسطینی ریاست بنانا ہی مسئلے کا حل ہے، جو عالمی فیصلہ ہے لیکن اقوامِ متحدہ تو اپنے ہی فیصلوں پر عملدرآمد نہیں کرا سکتی اور تو اس نے کیا کرنا ہے۔ امریکی انتظامیہ کا رویہ سب کچھ سامنے آنے، اسرائیل کی بربریت لمحہ لمحہ بےنقاب ہونے پر بھی سیکورٹی کونسل کے اجلاس کو ٹالنے اور چین، ناروے اور تیونس کے دبائو پر ہونے کے فیصلے پر بھی اسے آگے سے آگے لے جانے کا رہا جس سے بائیڈن انتظامیہ کی ہیومن رائٹس کے تحفظ کی انتخابی کمپین کا پول بھی کھل گیا۔

بلاشبہ فلسطینیوں کی جاری بےمثال جدوجہد اور ان پر بےتحاشا ظلم و جبر پھر حماس کے غیرمتوقع ردعمل اور اچانک ظاہر ہونے والی سکت نے مسئلہ فلسطین کے حوالے سے دنیا پر ایک بارپھر مکمل زوروشور سے واضح کر دیا ہے کہ یہ تنازعہ حل کئے بغیر مشرقی وسطیٰ میں امن اور اس کے ذریعے اپنے ’’قومی مفادات‘‘ کے حصول کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہ ہوگا۔ امر واقع تو یہ ہے کہ دنیا کی نئی تقسیم جتنی واضح ہو گئی اتنی ہی یہ تشویشناک ہے۔ نئی صف بندی کی مزید پختگی کے بعد نئے پلیئر کتنے پانی میں ہیں اور دنیا کے امن کو کیسے مینج کرتے ہیں؟ لگتا ہے کہ اس سوال کا جواب ملنے میں زیادہ دیر نہیں لگے گی۔

متذکرہ ہر دو اجلاسوں میں وزراء خارجہ اور مندوبین کی تقریروں کا جائزہ لیا جائے تو اس میں اسرائیل کو بےنقاب کرنے، اسے دنیا میں نسل پرست جنوبی افریقہ کے برابر لانے کا کچھ سامان بھی موجود ہے لیکن اس کے لئے وہ مسلم دنیا کو عالمی سطح پر ایک بڑی ابلاغی جنگ اسرائیل اور اس کے سرپرستوں سے کرنا پڑے گی۔ ہوش اور وژن ہو تو صورتحال بہت سازگار ہے، یہ وہ بڑی گنجائش ہے جو توجہ دیں، سنجیدگی کا مظاہرہ کریں تو اس جنگ کی نتیجہ خیز تیاری ہو سکتی ہے، جس میں وزارت ہائے خارجہ نے اہم کردار ادا کرنا ہے۔ اس کے لئے پاکستان، ترکی، سعودی عرب، ایران اور ملائیشیا کو پہلے اپنی اور مسلم دنیا کی کیپسٹی بلڈنگ کرنا ہوگی۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ سیکورٹی کونسل اور او آئی سی کے اجلاس میں ممالک کا انفرادی موقف کا عکس دونوں اجلاسوں کے حتمی مایوس کن نتائج میں بالکل نہیں آیا اور یہ فقط اتمام حجت ہی رہا۔ تاہم اگر پیدا ہونے والی ابلاغی جنگ کی گنجائش کو پُر کیا جائے تو فلسطینیوں اور کشمیریوں کو بڑا ریلیف ملنے کا ساماں علیحدہ علیحدہ تقاریر کے مخصوص مندرجات میں موجود ہے جس سے عالمی میڈیا کے تجزیوں خصوصاً سوشل میڈیا کا بڑا موثر مواد نکالا جا سکتا ہے، سب سے بڑھ کر یہ کہ اسرائیل کے غزہ میں انٹرنیشنل آئوٹ لیٹس کی بلڈنگ کو علانیہ منہدم کرنے سے اسرائیل کو کمیونیکیشن ویپن سے نیلسن منڈیلا کی اسیری کا جنوبی افریقہ بنانے کی بنیاد اس نے خود ڈال دی ہے، بشرطیکہ اس کی سرکوبی کے لئے کوشاں ممالک ابلاغی ہتھیار استعمال کریں۔

ایم طفیل کی رخصتی

روزنامہ جنگ لاہور کے ادارتی صفحے کے عشروں تک کے انچارج ایڈیٹر ایم طفیل عیدالفطر سے تین روز قبل اللہ کو پیارے ہو گئے۔ وہ اپنے صحافتی سوشل سرکل میں بڑے احترام کے ساتھ پا طفیل پکارے جاتے۔ حقیقتاً وہ کتنے ہی ہم عصر صحافی ساتھیوں کے لئے اپنی محبت و شفقت سے بڑے بھائی کا درجہ رکھتے تھے۔ ایم طفیل، صحافتی اخلاقیات اور پیشہ ورانہ معیار و روایات کے فقط زبانی کلامی قائل ہی نہیں تھے، انہوں نے صحافت کی اپنی طویل مسافت میں ہمیشہ ان اقدار کا مکمل پاس کیا۔ اسی حوالے سے ان کی صحافتی خدمات گراں قدر ہیں، جنہیں انہوں نے کبھی اپنی شہرت کا ذریعہ بنایا نہ ذاتی فائدے کا، وہ اپنی خدمات بہت خاموشی اور انہماک سے انجام دیتے۔ بطور صحافی ان کی سوچ بہت مثبت اور متوازن تھی اور اپنی ادارتی ذمے داریوں میں انہوں نے پیشہ ورانہ ذمے داری کا دامن کبھی نہ چھوڑا۔ ان کی سادگی، انکساری اور درویشانہ طبیعت ان کے سب ہی ساتھیوں کو یکساں متاثر کرتی۔ دعا ہے کہ اللہ سبحان تعالیٰ انہیں اپنے جوار رحمت میں بلند درجہ دے اور لواحقین کو صبر جمیل سے نوازے۔ آمین