ڈاکٹر تحسین فراقی کی سبکدوشی:چند معروضات

May 19, 2021

صاحبو! سوشل میڈیا اور دوسرے ذرائع ابلاغ پر ڈاکٹر تحسین فراقی کے مجلس ترقی ادب لاہور کے ناظم کی حیثیت سے سبکدوشی پر نوحہ گری و مرثیہ خوانی ایک منظم مہم کی صورت میں جاری ہے۔ تکرار کے ساتھ یہ باور کرانے کی سعی کی جا رہی ہے کہ آں جناب علامتہ الدہر اور عالمِ بےمثل ہیں، انہیں اس عہدے سے ہٹانا علم و ادب کے ساتھ ظلمِ عظیم ہے۔ احباب کی عقیدت مندی اپنی جگہ لیکن ناظمِ مجلس کی حیثیت سے اگر موصوف کی کارکردگی پر ایک نظر ڈال لی جائے تو شاید حقیقت سامنے آ سکے۔

مجلس ترقی ادب لاہور کے اغراض و مقاصد میں اُردو کے کلاسیکی ادب، علمی و ادبی کتابوںکے تراجم وغیرہ کی اشاعت اور ایوارڈز کی تقسیم شامل ہے۔ ہمارے سامنے اس وقت یکم جولائی2016سے 23فروری2021یعنی تقریباً ساڑھے چار سال کی کارکردگی موجود ہے۔ اس دورانیے میںمجلس نے کُل 88کتب شائع کیں، جن میںسے 63کتابوںکے دوسرے یا تیسرے ایڈیشن شائع کیے گئے۔ یعنی ان کتب کو محضReprintکیا گیا۔ پہلے سے شائع شدہ کتابوں کی اشاعتِ نو کے لئے کسی بقراطی کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اسٹاک کلرک کسی بھی کتاب کے ختم ہونے کے بعد اس کی طلب کے بارے میں معلومات فراہم کرتے رہتے ہیں جن کی روشنی میںکتابوں کی خرید و فروخت کی معمولی سوجھ بوجھ رکھنے والا ایک عام دُکاندار بھی بڑی آسانی سے یہ فیصلہ کر سکتا ہے کہ اس کتاب کو دوبارہ شائع کرا دینا چاہیے۔ اس دورانیے میں مجلس نے 4ایسی کتابیںبھی شائع کیں جو اس سے قبل مختلف دوسرے اداروں سے چھپ چکی تھیں جن کے عنوان یہ ہیں:سوانح سرسیّد ایک بازدید، اُردو املا، سلاطینِ دہلی کے مذہبی رجحانات، مرقعِ دہلی۔متذکرہ بالا تعدادِ کتب میںسہ ماہی ’’صحیفہ‘‘ کے چار شمارے بھی شامل ہیں۔ وہ علمی و ادبی مجلہ جسے ہر تین مہینے بعد شائع ہونا چاہئے تھا، اتنے بڑے عالم و شاعر اور مرجع الخلائق جن کے روابط ان گنت ملکی و غیر ملکی تخلیق کاروں سے تھے، ایک سہ ماہی ادبی پرچے میںتسلسل و باقاعدگی نہ لا سکے۔ 17کتب ایسی ہیںجو ساڑھے چار برسوں میںمجلس ترقی ادب نے پہلی بار شائع کیں۔ بدقسمتی سے اُن میں سے ایک کتاب تو محترم تحسین فراقی کی ’’نکات‘‘ ہے۔ پانچ کتابیںمختلف درجوںکی تعلیمی اسناد کے حصول کے لئے لکھے گئے مقالات ہیں:پنجاب میں فارسی ادب، اُردو ناول میں مابعدالطبیعیاتی عناصر، کلامِغالب کا لسانی و اسلوبیاتی مطالعہ، جدید اُردو نظم میںہیئت کے تجربے وغیرہ۔ باقی ماندہ 11کتب میںسے محض4کتابیںایسی ہیں جو ادارے کے اغراض و مقاصد کو پورا کرتی نظر آتی ہیں، جن کے نام ہیں:مشتری مجمع اللسان، دردِ جاںستاں، مثنوی حجابِ زناں اور فسانۂدل فریب۔ کسی بھی ادارے کا سربراہ اس ادارے کی املاک کا بھی محافظ ہوا کرتا ہے۔ علامہ موصوف کے زمانے میں ادارے کی عمارت بھوت بنگلہ بنی ہوئی تھی۔ کتب خانے کی یہ حالت تھی کہ ہر تیسری الماری میںشیشے ٹوٹے ہوئے ہونے کی وجہ سے بھڑوں کے چھتے بنے ہوئے تھے۔ مسودات اور کتابوں پر کبوتروں کی سیروںبیٹ پڑی ہوئی تھی۔ بہت سی فائلیں، مسودے اور کتابیں چوہے کتر چکے تھے۔ یعنی موصوف انتظامی صلاحیتوں سے بے بہرہ تھے یا پھر ان امور کی طرف توجہ دینا کسرِشان سمجھتے تھے۔پروفیسر احمد عقیل روبی گورنمنٹ ایف سی کالج میں ایم۔اے اُردو کے طلباء کو عبدالماجد دریا بادی پڑھاتے ہوئے جعفر بلوچ مرحوم کا ایک الہامی شعر اکثر سنایا کرتے تھے:

جب سے اے تحسین فراقی!تیرے سپرد ہوا

عبدالماجد دریا بادی دریا برد ہوا

جیسے جیسے وقت گزرتا گیا۔ اس شعر کے الہامی ہونے پر ہمارا ایمان پختہ تر ہوتا چلا گیا کہ صرف عبدالماجد دریابادی ہی نہیں،موصوف کے سپرد جو کچھ بھی ہوا، وہ غتربود ہی ہوا۔ ہمارے یہاں عام طور پر معاملات کو اپنے صحیح سیاق و سباق میںرکھ کر دیکھنے کا رواج نہیں۔ علاؤالدین خلجی اور جلال الدین محمد اکبر کسی جامعہ سے سند یافتہ نہیں تھے لیکن بہترین منتظم تھے۔ بہادر شاہ ظفر باکمال شاعر، حلیم الطبع اور عبادت گزار تھے لیکن انتظامی صلاحیتوں سے عاری تھے۔ محترم تحسین فراقی عمدہ اُردو بولتے ہیں، پڑھتے لکھتے بھی ہیں، لیکن مجلس ترقی ادب کے ناظم کی حیثیت سے ان کی کارکردگی صفر رہی ہے۔ ان کے ہونے سے ادارہ اپنے قیام کے اغراضو مقاصد سے دُور دُور رہا ہے۔ اس لئے ان کی سبکدوشی پر جذباتیت کا مظاہرہ کرنے کے بجائے کلمۂشکر ادا کرنا چاہئے۔

اس معاملہ میں کچھ باتیں قانونی بھی ہیں کہ پانچ سال سے احمد رضانامی تقریباًساٹھ ہزار روپے ماہانہ دفتر سے لے رہا تھامگروہ کبھیدفترنہیں آیا تھا۔ دفتر والوں کے بقولاسے تنخواہ کا چیک گھر جا کر دیتے تھے۔

2۔ لاکھوں روپےکی خریداریٹینڈرز کے بغیر کیگئی، جو قانوناً جرمہے۔

3۔ ایکسو سال پرانے تین درختکٹوا دیے۔

4۔بیسلاکھروپے کی فنڈنگ جو لائبریری فاونڈیشن کی طرف سے آئی تھی کتابیںخریدنےکیلئے، وہ 34لاکھبنا کر لائبریری فائونڈیشن کو واپس کی گئی۔

یہ رقم کتابیں خریدنےکیبجائےبنک فکس کرا دی گئی تھی۔

5۔ دو ملازم ایک ہی دن بھرتی کئے۔ ان کی تنخواہ ساڑھے سترہ ہزار مقرر کی۔ ان میں سے ایک کو گھر میں کام کرنے پر مقرر کیا اور اس کیتنخواہ پچیس ہزار کر دی۔ کئی سال سے وہ ملازم دفتر میں نہیں ڈائریکٹر کے گھر میں کام کرتا تھا۔

میری اطلاع کے مطابق ان پانچوں کیسوں پر قانونی کارروائی جاری ہے۔