کراچی میں ایک ماہ کے اندر امن قائم نہ ہوا تو

June 23, 2013

وفاقی حکومت کی طرف سے سندھ حکومت کو کراچی میں ٹارگٹ کلنگ ختم کرنے کے لئے ایک ماہ کی مہلت دی گئی ہے۔ وفاقی وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان نے اگلے روز اسلام آباد میں سیکورٹی پالیسی تشکیل دینے سے متعلق ایک اعلیٰ سطح کے اجلاس کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے سندھ حکومت کو وارننگ دی اور یہ بھی کہا کہ اگر سندھ حکومت ناکام ہوئی تو وفاق کارروائی کرے گا۔ چوہدری نثار علی خان کے اس بیان سے ایک طرف سندھ کے لوگوں کو اس امر پر اطمینان ہوا ہے کہ کم از کم نئی منتخب وفاقی حکومت نے کراچی کی بدامنی کا اس قدر سنجیدگی سے نوٹس لیا ہے اور یہاں کے حالات ٹھیک کرنے کے عزم کا اظہار کیا ہے لیکن دوسری طرف اس بیان سے یہ تشویش بھی پیدا ہوئی ہے کہ وفاقی حکومت کہیں صوبے میں مداخلت اور گورنر راج کے نفاذ کا آئینی جواز تو تلاش نہیں کر رہی ہے ۔ وفاقی وزیر داخلہ کو اپنے اس بیان کی مزید وضاحت کرنی چاہئے۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ حکومت کی اولین ترجیح کراچی میں قیام امن ہونی چاہئے کیونکہ گزشتہ پچیس، تیس سال سے کراچی میں ہونے والی خونریزی نے نہ صرف یہاں کے باسیوں کی زندگی اجیرن کردی ہے بلکہ اس شہر میں جو لوگ ابھی تک قاتلوں اور دہشت گردوں سے بچے ہوئے ہیں، وہ بھی زندہ لاشوں کے سوا کچھ نہیں ہیں۔ کراچی کے باشندے زندگی کا ذائقہ بھی بھول گئے ہیں۔ جب وہ اس شہر سے باہر جاتے ہیں تو انہیں احساس ہوتا ہے کہ لوگ کس طرح جی رہے ہیں۔ کراچی میں لوگ جیتے نہیں ہیں بلکہ ان کی زندگی گزر رہی ہے۔ خوف انسان کو انسانیت کی سطح سے نیچے گرادیتا ہے اور کراچی کے لوگوں میں خوف کے سوا کوئی احساس نہیں ہے۔ اگرچہ ایک مہینے کی مہلت بہت زیادہ ہے کیونکہ کراچی میں تو ہر لمحہ لاشیں گر رہی ہیں اور ایک مہینے کا مطلب یہ کہ مزید 500 بے گناہ لوگوں کا خون ناحق ہوسکتا ہے لیکن ایک مہینے کے بعد بھی اگر دہشت گردوں کے خلاف کارروائی شروع ہوجائے تو بھی بہتر اقدام ہوگا۔ کراچی کے لوگ تو یہ سمجھ رہے تھے کہ یہاں دہشت گردوں کے خلاف کبھی کارروائی نہیں ہوگی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ گزشتہ پچیس، تیس سال سے کراچی میں خونریزی روکنے کے بڑے بڑے دعوے کئے گئے اور بڑے بڑے آپریشن بھی کئے گئے مگر کراچی میں امن قائم نہ ہوسکا۔
وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کراچی میں بدامنی کے انتہائی پیچیدہ مسئلے سے یقیناًاچھی طرح آگاہ ہوں گے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی پہلے بھی دو دفعہ مرکز میں حکومت رہ چکی ہے اور دونوں مرتبہ سندھ میں بھی اس کی حکومت تھی۔ مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے کراچی میں امن قائم کرنے کے لئے کئی کوششیں بھی کیں۔ 1992ء کے فوجی آپریشن کی باتیں اب بھی ہوتی ہیں۔ چوہدری نثار علی خان کو یہ بھی یاد ہوگا کہ دونوں مرتبہ مسلم لیگ (ن) کی حکومتوں کا تختہ الٹنے میں بڑا سبب کراچی کی بدامنی ہی تھا۔ وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں یہ تسلیم کیا ہے کہ کراچی کے حالات خراب ہونے کی وجہ سے انہوں نے اپنی ہی سندھ حکومت کو برطرف کیا اور یہاں گورنر راج نافذ کیا۔ وزیراعظم صاحب نے اپنے انٹرویو میں یہ بات بھی کہی ہے کہ کراچی میں قیام امن کے لئے ہم اپنی صوبائی حکومت ختم کرسکتے ہیں تو پھر ہم کچھ بھی کرسکتے ہیں۔ میاں نواز شریف صاحب کے اس انٹرویو سے بھی اس عزم کا اظہار ہوتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی قیادت کراچی میں امن قائم کرنے کے مسئلے پر سنجیدگی سے غور کررہی ہے مگر اسے یہ بھی نہیں بھولنا چاہئے کہ مرکز اور سندھ میں حکومتوں کے باوجود مسلم لیگ (ن) کی قیادت کراچی میں امن قائم نہیں کرسکی ہے۔
سندھ حکومت کو الٹی میٹم یا وارننگ دینے سے پہلے وفاقی وزیرداخلہ کوکراچی میں آکر وزیر اعلیٰ سندھ اور سندھ حکومت کے دیگر حکام کے ساتھ اجلاس منعقد کرنا چاہئیں تھے اور قیام امن کے لئے وفاقی اور صوبائی حکومت کی ایک مشترکہ حکمت عملی تشکیل دینی چاہئے تھی۔ کراچی کا مسئلہ بہت پیچیدہ ہے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کو شاید کراچی میں امن قائم کرنے کی کوششوں کی شاید اتنی قیمت نہ چکانی پڑی ہو، جتنی پیپلزپارٹی نے چکائی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ پیپلزپارٹی نے کراچی میں امن قائم کرنے کی کوشش ہی نہیں کی۔ اس نے اگر زیادہ نہیں تو مسلم لیگ (ن) سے کم کوششیں بھی نہیں کی ہوں گی۔ پیپلز پارٹی والے تو اس بات کا رونا روتے ہیں کہ ان قوتوں کی طرف سے پیپلزپارٹی کو کراچی میں امن قائم کرنے کی کوششوں پر زیادہ عتاب کا نشانہ بنایا گیا، جن قوتوں کو کراچی میں امن قائم کرنے کے لئے براہ راست کردار ادا کرنا چاہئے تھا۔ مسلم لیگ (ن) کی قیادت اب اگر نئے جذبے کے ساتھ آگے بڑھنا چاہتی ہے اور کراچی میں امن قائم کرنے کے لئے گہرے پانیوں میں اترنا چاہتی ہے تو اس کا سب سے زیادہ خیر مقدم سندھ خصوصاً کراچی کے لوگ کریں گے تاہم اس کے ساتھ ساتھ مسلم لیگ (ن) کی مرکزی حکومت کو چاہئے کہ وہ سندھ میں پیپلزپارٹی کی حکومت کو ساتھ لے کر چلے۔ پیپلزپارٹی کے رہنما خصوصاً وزیر اطلاعات سندھ شرجیل انعام میمن اس خدشے کا اظہار کرچکے ہیں کہ سندھ میں گورنر راج لگانے کی سازشیں ہورہی ہیں۔ فرض کریں سندھ حکومت ایک مہینے کے اندر کراچی میں امن قائم نہیں کرسکتی ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وفاقی حکومت کیا کارروائی کرے گی۔ امن وامان کا قیام صوبائی حکومت کی ذمہ داری ہے اور یہ ذمہ داری وفاقی حکومت اگر خود سنبھال لے گی تو لازمی طور پر صوبائی حکومت کا جواز بھی نہیں رہے گا اور ازخود اسے گورنر راج کے نفاذ کا راستہ بن جائے گا۔ کوشش کی جائے کہ ایسی صورتحال پیدا نہ ہو۔ اگر گورنر راج کے نفاذ کے بعد بھی امن قائم نہ ہوا تو پھر کیا ہوگا۔
وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان ایک سینئر اور تجربہ کار سیاستدان ہیں۔ ان کے خاندان کے لوگ پاک فوج کے اہم عہدوں پر بھی فائز رہے ہیں۔ پاکستان کے سیاسی حالات پر ان کی بہت گہری نظر ہے۔ انہیں اس بات کا گہرا ادراک ہوگا کہ کراچی میں گزشتہ پچیس، تیس سال سے امن کیوں قائم نہیں اور تمام ریاستی ادارے یہاں کیوں بے بس دکھائی دیئے ہیں۔ انہیں اس بات کا بھی اچھی طرح احساس ہوگا کہ کراچی میں امن قائم کرنے کے لئے جتنے بھی آپریشنز ہوئے، وہ کیوں ناکام ہوئے۔ چوہدری نثار علی خان سے زیادہ اور کوئی اس بات سے آگاہ نہیں ہوگا کہ کراچی کی بدامنی سے کن ملکی اور بیرونی قوتوں کے مخصوص مفادات وابستہ ہیں اور ان قوتوں سے ٹکرانا کس قدر مشکل ہے۔ کیا چوہدری نثار علی خان یہ محسوس کرتے ہیں کہ اب ان قوتوں سے ٹکرانے کا وقت آگیا ہے اور سیاسی حکومتیں کراچی میں امن قائم کرسکتی ہیں۔ ان کے سامنے ایک حالیہ تجربہ بھی ہے۔ وہ یہ ہے کہ کراچی بدامنی کیس میں سپریم کورٹ کے احکامات کا بھی کوئی نتیجہ نہیں نکل سکا ہے اور اس کیس کے بعد بدامنی مزید بڑھ گئی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ کراچی میں اگر امن قائم ہوجاتا ہے تو اندر اور باہر پاکستان دشمن قوتوں کی یہ بہت بڑی شکست ہوگی اور پاکستان کا سیاسی اور اقتصادی نقشہ بھی بدل جائے گا۔ چوہدری نثار علی خان کو چاہئے کہ وہ کراچی آکر حکومت سندھ کے ذمہ داروں سے مشاورت کریں اور مشترکہ حکمت عملی تشکیل دیں۔ اسی قسم کی مہم جوئی نہ صرف پاکستان کے داخلی اور سیاسی استحکام کے لئے خطرناک ہو گی بلکہ اس سے کراچی کے حالات بھی مزید خراب ہوں گے۔ اگر خدانخواستہ کراچی کی بدامنی کو جواز بناکر سندھ میں گورنر راج نافذ کرنے کی کوئی کوشش کی گئی تو یہی سمجھا جائے گا کہ مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے بھی کراچی کی بدامنی کو ایک سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا ہے۔