سرکاری اسکول ٹیچر کا بیٹا، ڈی آئی جی کیسے بنا !!

May 23, 2021

انٹرویو: اختر علی اختر

ایک کم عمر بچہ جو اندرون سندھ کے ایک پیلے سرکاری اسکول میں پڑھتا تھا،لیکن اس کی آنکھوں میں ان گنت سپنے اور خواب سجے ہوئے تھے۔ وقت کا پہیہ تیز رفتاری سے چلتا رہا،اس ذہین اور تخلیقی صلاحیتیں رکھنے والے بچے نے اپنے سپنوں اور خوابوں کی ایک تصویر بنائی، اس میں اپنے ہاتھوں سے حقیقت کے رنگ بھرے، تو ہر طرف اس کے آئیڈیاز اور تخلیقی ذہن کے چرچے ہونے لگے۔ اس نے ابتدائی تعلیمی مراحل مکمل کرکے پاک فوج میں خدمات انجام دیں، دس برس کے بعد محکمہ پولیس جوائن کیا اور پھر سندھ پولیس میں انقلاب برپا کردیا۔

پولیس کے محکمے کو خلوص دل اور سچائی سے یکسر بدل کر رکھ دیا۔ ایسا ادارہ قائم کیا کہ اسے صرف گیارہ برسوں میں ایک مثالی یونٹ بنادیا۔ وہ سچا، کھرا، تخلیقی ذہن رکھنے والا بچہ پیلے سرکاری اسکول سے ڈی آئی جی پولیس کے عہدے تک پہنچا۔ آج دُنیا اسے مقصود احمد میمن کے نام سے جانتی اور پہچانتی ہے۔ ارادے سچے ہوں، تو منزل مل ہی جاتی ہے۔

ڈی آئی جی مقصود احمد میمن نے حکومتِ سندھ کی سرپرستی میں 2010 میں پولیس میں ایک جدید دُنیا متعارف کروائی، جسے SSU کا نام دیا گیا۔ یعنی ’’اسپیشل سیکیورٹی یونٹ‘‘، جہاں پولیس کانسٹیبل سے اعلیٰ افسران تک سب ایک جیسا کھانا کھاتے ہیں،یہاں رشوت کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔

ایکسپو سینٹر اور نیشنل اسٹیڈیم کے درمیان قائم SSU کی کارکردگی اپنی مثال آپ ہے۔ SSU کے ہزاروں کمانڈوز جن میں خواتین بھی شامل ہیں، ہمہ وقت ظلم اور کرائم کے خلاف جنگ لڑنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ مقصود احمد میمن نے پولیس کے محکمے میں اے ایس پی سے ڈی آئی جی تک کا سفر برق رفتاری سے طے کیا۔ ان کی صلاحیتوں کا اعتراف حکومت پاکستان نے بھی کیا۔انہیں 2012 میں صدارتی تمغۂ امتیاز سے نوازا گیا۔

یہ ہی نہیں وہ بین الاقوامی تنظیم، انٹرنیشنل پولیس ایسوسی ایشن کے وائس چیئرمین بھی ہیں۔ انہوں نے اپنی غیر معمولی کارکردگی سے SSU کو بین الاقوامی طرز کا ادارہ بنادیا۔ نہ صرف پولیس کی وردی تبدیل کی، بلکہ موبائل، موٹر سائیکل، اسلحہ سب کچھ بدل دیا۔

آج SSU پولیس کا سب سے اسمارٹ ادارہ ہے۔ 15 پر کال کرنے پر صرف پانچ منٹ میں پولیس کے کمانڈوز آپ کی مدد کے لیے پہنچ جاتے ہیں۔ گزشتہ دنوں ہم نے سچے، کھرے اور بہادر پولیس افسر سے انٹرویو کے لیے وقت لیا اور ان سے ملاقات کی،ایس ایس یو کا سارا نظام دیکھ کرہم خوش گوار حیرت میں مبتلا ہوگئے۔ڈی ائی جی مقصود احمدمیمن نے ہمارے سوالات کے جوابات خوش اسلوبی سے دیے۔

س: SSU کا آئیڈیا کیسے ذہن میں آیا؟

ج: یہ اُس وقت کی بات ہے، جب میں لندن گیا، تو وہاں دیکھا کہ پولیس کی بہت عزت ہے۔ پولیس کا نظام بھی کافی بہتر ہے ، پولیس کی پبلک اور ڈیپارٹمنٹ میں بھی اس کی عزت ہے۔ میں سوچتا تھا کہ ہمارے میں ایسی کیا برائی ہے کہ ہم ویسے نہیں بن سکتے، جب واپس آیا تو مجھے موقع ملا کہ پولیس کے محکمے کو بہتر کرسکوں،تو میری سوچ تھی،مگر وسائل اتنے نہیں تھے کہ ہم اپنے حالات بہتر کرسکیں، اس سلسلے میں ایک کوشش کی اور پولیس کے محکمے کو جسے لوگ کہتے ہیں کہ Respect نہیں ہوتی اور ڈیپارٹمنٹ میں پریشانی ہوتی ہے، تو میں نے انہیں ٹھیک کیا، اس کانظام دُرست کیا۔

میں سوچتا تھا کہ یہ لوگ اسی قوم کے بچے ہیں۔ اسی دھرتی کے بچے ہیں اور جو بیٹیاں ہیں، گائوں سے نکل کر یہاں آکر ڈیوٹی کررہی ہیں۔ انہیں ہم نے اچھا ماحول دیا کہ وہ اپنا Discipline بہتر کرے۔ ان کی ٹریننگ ہم نے بہتر انداز میں کی۔ ان کا خیال رکھا تو اس کے نتائج آپ کے سامنے ہیں اور ان سب چیزوں میں سب سے بڑا ہاتھ سابق صدر آصف زرداری کا ہے۔ یہ ان دنوں کی بات ہے، جب ہم ان کی سیکیورٹی کے لیے کام کرتے تھے، تو ہم نے انہیں آئیڈیا دیا، تو انہوں نے ہمیں بھر پور سپورٹ کیا، ان کی سپورٹ کی وجہ سے ساری چیزیں ممکن ہوسکیں۔

س: 2010 میں کیا کیا چیلنج تھے؟

ج: اس وقت ہم سیکیورٹی کی بات کرے تو سیکیورٹی بہترین تھی، میں اس وقت بھی ،جب سول گورنمنٹ آئی تو اس وقت ہم اتنے ٹرینڈ نہیں تھے۔ ہم نے پولیس میں کمانڈوز کو بھرتی کیے۔ ان کی ٹریننگ درست طریقے سے کی، ان کو یہاں تک لے آئے کہ اب ہم کسی بھی قسم کے چیلنج کو قبول کرسکتے ہیں۔ پاکستان سپر لیگ کے میچوں کے دوران ہم نے سارا نظام کمانڈ کیا۔

س:۔ ہم نے سُنا ہے کہ اب15 میں خواتین پولیس کمانڈوز بھی شامل ہوگئی ہیں؟

ج:اگر ہم آبادی کے حساب سے دیکھیں تو %50 سے بھی زیادہ فی میل کی آبادی ہے۔ مگر ان پر توجہ نہیں دی جاتی۔ پولیس ڈیپارٹمنٹ میں فیمیل پولیس کا زیادہ رجحان نہیں ہوتا تھا، مگر یہاں پر جب ہم نے اسامیاں انائوس کی، تو اس میں یہاں کا ماحول دیکھتے ہوئے،میرٹ دیکھتے ہوئے لڑکیوں کا رجحان بڑھنے لگا اور انہوں نے اپنی قابلیت سے ٹریننگ میں دل چسپی لی اور پھر وہ لڑکیاں اب لیڈی کمانڈوز کے طور پر یہاں ڈیوٹیز انجام دے رہی ہیں، ابھی ان کی تعداد ایک سو کے قریب ہے، جو تھوڑے عرصے بعد ڈبل ہوجائے گی، کچھ لڑکیاں ابھی ٹریننگ کے مرحلے میں ہیں۔

س: کیا سندھ کے چھوٹے چھوٹے شہروں کو یہ سہولت میسر ہوگی؟

ج: جو پہلا فیز ہے، اس میں ہم نے کراچی کو بنیاد بنایا ہے۔2000 میل اور 100 فی میل کمانڈوز جب یہ ٹرینڈ ہوکر آئیں گے، تو ہمارا یہ پلان ہے کہ ہم ہر ڈویژن ہیڈکوارٹر میں SSU کا یونٹ رکھیں۔ اسے15 کے ساتھ منسلک کریں گے۔ پہلے ہم نے کراچی کا 15 ٹھیک کیا، اب ہم اسے لِنک کریں گے سندھ کے تمام ڈسٹرکٹ کے ساتھ۔ اور وہاں جو ہماری برانچ ہوگی، اس کے ساتھ مل کر لوگوں کے مسائل حل کریں گے۔

س: اگر کوئی خاتون پریشانی میں ہے، اگر وہ 15 پر کال کرے تو کیا فی میل پولیس ہی اس کی مدد کو جائے گی؟

ج: ابھی ہم نے یہ کیا ہے کہ وویمن اور اس سے جُڑے جتنے بھی ایشوز ہیں، اس کے لیے ہمیں کہیں فیمیل کمانڈوز کی ضرورت پڑتی ہے، تو انہیں آپریشن کے لیے بھیجتے ہیں۔

س: SSU کی نفری کتنی ہے، آپ لوگوں کو ڈیوٹی کہاں کہاں کرنی پڑتی ہے؟

ج: SSU میں ابھی تقریباً 3ہزار نوجوان ہیں جو کہ تمام جگہوں پر جاتے ہیں۔ SSU کے کمانڈوز24 گھنٹے ظلم اور ملزمان کے خلاف جنگ کے لیے تیار رہتے ہیں، اگر کراچی میں کہیں بھی کوئی بڑا واقعہ ہوجاتا ہے، تو ہم ہر طریقے کے خطرے سے لڑنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔

س: آپ کو اُمید ہے کہ آپ کے بعد بھی یہ ادارہ اسی طرح چلتا رہے گا؟

ج: ابھی ہم سندھ کی سطح پر اس ادارے کو لے کر جارہے ہیں۔ اگر کوئی اچھا افسر ہے تو اس کے نیچے جو ٹیم ہوتی ہے، وہ بھی اچھا کام کرتی ہے،کوئی دوسرا آئے گا، اس مشن کو سمجھے اور اسے آگے لے کر چلے ،مگر سرکاری ادارہ ہے، اس کا اچھا نظام بن گیا ہے، ہر بندے کو اپنی ڈیوٹی کا پتا ہے ، میں یہاں رہوں یا نہ رہوں، یہ لوگ دوسروں کی مدد کرتے رہیں گے، آگے بھی اسی طرح کام چلتا رہے گا، ہوسکتا ہے تھوڑا بہتر ہو یا انیس بیس ہوگا۔

گورنمنٹ بھی آگے اسی طرح سپورٹ کرتی رہی، تو انشااللہ ہمیشہ ایسے ہی کام چلتا رہے گا۔ہمارا بجٹ بہت زیادہ نہیں ہے، جو سندھ پولیس کو بجٹ ملتا ہے، وہی بجٹ ہمیں دیا جاتا ہے، کوئی زیادہ بجٹ نہیں ہے،ہمیں کوئی غیر معمولی فنڈنگ نہیں ہوتی ہے۔

س: اب تک ایس ایس یو کی نمایاں کارکردگی کیا ہے؟

ج: دیکھیں پاکستان میں پہلا ڈیپارٹمنٹ پولیس کا یونٹ ہے، جو ISO Certified ہے۔ ہم عام طور پر کہتے ہیں کہ لڑکیوں کو برابر رکھنا چاہیے، لڑکیوں نے وہی ٹریننگ حاصل کرکے ثابت کردیا کہ لڑکیاں بھی لڑکوں کے برابر ہوسکتی ہیں اور اس کے علاوہ بھرتی سوفی صد میرٹ پر ہوتی ہے اور اس میں کسی کی کوئی سفارشی کلچرل نہیں ہے ، کوئی سیاسی مداخلت نہیں ہوتی۔ بہ حیثیت مسلمان ہم کہتے ہیں کہ عورت اور مرد، ہم سب برابر ہیں اور کسی میں کوئی فرق نہیں ہے، مگر ہم ایسا کرتے نہیں ہیں۔

ہم نےالگ الگ معیار رکھا ہوا ہے۔ عام طور پر دیکھا گیا ہے،ایس ایچ او، پولیس کانسٹیبل کے ساتھ کھانا نہیں کھاتا۔ SHO جو ہے SSP کے ساتھ کھانا نہیں کھاتا۔ پولیس ڈیپارٹمنٹ میں ہی نہیں، بلکہ ہر ڈیپارٹمنٹ میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ ہم نے اپنے ’’ایس ایس یو‘‘ میں یہ چیز نہیں رکھی، جو چیز مجھے پسند ہے وہ اپنےافسر کے لیے بھی رکھی ہے،جو چیز مجھے میری ذات کے لیے پسند ہوتی ہے، میں کوشش کرتا ہوں کہ اپنے افسر کو بھی وہی چیزیں میسر کرسکوں۔

س: آپ کا تعلق کہاں سے ہے؟

ج: میں بہت سادہ آدمی ہوں۔ میں نے پیلے سرکاری اسکول سے اپنی تعلیم حاصل کی ۔ میرے گائوں کا نام کنڈیارو ہے، وہی سے میں نے میٹرک کیا، پھر نیوی جوائن کی۔ پھر میں نے پولیس جوائن کی، قسمت اچھی تھی، ڈی آئی جی کے عہدے تک پہنچا۔ مجھے کچھ بننے کا شوق تھا، کچھ کرکے دیکھانے کا شوق تھا۔

میری فیملی میں میرے علاوہ کوئی پولیس میں نہیں ہے۔ میں پہلے آرمی فورس میں تھا، پھر میں نے چھوڑ دیا، لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ آپ نے آرمی فورس کیوں چھوڑ دی تو میں کہتا ہوں کہ جب سے میں نے پولیس جوائن کی ہے، ہم روزانہ معاشرے کی برائیوں سے جنگ لڑ رہے ہوتے ہیں۔ لوگوں کی جان و مال کی حفاظت کرتے ہیں۔ ان چیزوں سے مجھے احساس ہوتا ہے کہ میں کچھ اچھا کررہا ہوں۔

س: کبھی آپ کو مایوسی ہوئی؟

ج: نہیں مجھے کبھی مایوسی نہیں ہوئی ، ہاں اگر آپ کوئی کام کرنا چارہے ہیں اور آپ کو سپورٹ نہ ملے، کوئی بہتری کرنا چاہتے ہوں، اس میں ٹائم لگتا ہے، مگر وہ کام ہوجاتا ہے، آپ کی نیت اچھی ہونی چاہیے، یہ میرا ذاتی تجربہ ہے۔ کوئی کام آسان نہیں ہوتا، کام کو آسان بنانا پڑتا ہے، محنت کرنی پڑتی ہے۔ آپ کا مشن اور ویژن اچھا ہو تو اللہ تعالیٰ آپ کی مدد ضرور فرماتا ہے۔

س: آپ کے 24 گھنٹے کس طرح گزرتے ہیں، آپ اپنی مصروفیات کے بارے میں کچھ بتائیں؟

ج: پولیس کے علاوہ میں اپنی فیملی کو ٹائم دیتا ہوں۔ میرے تین بچے ہیں۔ تمام اسکول کالج کے طالب علم ہیں، جب کبھی ٹائم ملتا ہے تو تھوڑا ٹائم جِم کرتا ہوں اور اس کے علاوہ زیادہ ٹائم بچتا نہیں ہے، نہ صرف پولیس ڈیپارٹمنٹ، بلکہ دوسرے لوگوں کو فائدہ دینے کی کوشش کرتا ہوں۔

س: آپ کے کردار میں آپ کے رویے میں اتنی خُوب صورتی کہاں سے آئی، والد صاحب کیا کرتے تھے؟

ج: میرے والد صاحب سرکاری اسکول ٹیچر تھے، میں بھی اسی اسکول میں پڑھتا تھا، والد صاحب پڑھے لکھے تھے۔ اس زمانے میں گائوں میں پڑھائی کا اتنا رجحان نہیں تھا ، لیکن ہماری فیملی پڑھی لکھی تھی۔ میری تربیت اچھی ہوئی، اسی لیے میں نے کبھی کسی کا حق نہیں مارا، کسی کے ساتھ کوئی زیادتی نہیں کی اور لوگوں کی طرف سےجو زیادتیاں ہوتی ہیں، میں انہیں سچے دل سے معاف کرتا ہوں اور اس سےمجھے ذہنی سکون ملتا ہے، سارے لوگ آپ کے خیرخواہ نہیں ہوتے، معاف کرنے کی عادت میرے رب کی عطا ہے۔

س: آپ کو فنون سے لگائو ہے؟

ج: فنون سے تھوڑا بہت لگائو ہے اور ادب و شعر و شاعری کا شوق بھی ہے۔ اپنے دفتر میں روزانہ ایک منتخب شعر لکھ کر لگاتا ہوں۔

س: تھانے کا جو کلچرل ہے، یہ کیسے ٹھیک ہوگا؟

ج: ہم ایک چیز کو خراب کہہ کرباقی چیزوں پر پردہ ڈال دیتے ہیں، جب کوئی ڈکیتی کرتا ہے، پکڑا جاتا ہے، تھوڑے دن بعد وہ باہر نِکل جاتا ہے، پھر دوبارہ ڈکیتی شروع کرتا ہے ۔ صرف تھانہ کلچرل ہی نہیں ،تقریباً پورے ملک کا نظام ہی خراب ہے۔ سب سے پہلے ہمیں اپنے سپاہی کا خیال رکھنا چاہیے۔ اس کے بچوں کی تعلیم کے اخراجات، میڈیکل کی سہولت ہمیں فراہم کرنی چاہیے، پھر ہمیں توقع رکھنی چاہیے کہ ہم تھانے جائے تو سپاہی ہم سے تمیز سے بات کرے گا۔

ہماری بات کو پوری طرح سُنے گا۔ اگر ہم سپاہی کی ہر ضرورت کو اچھی طرح پُوری کریں گے، تو وہ چوری نہیں کرے گا، وہ غلط کام نہیں کرے گا۔ پبلک شکایت کرتی ہے کہ تھانے میں ہماری سنی نہیں جاتی، اگر ہم سپاہی کا خیال رکھیں گے، تو وہ پبلک کا بھی خیال رکھے گا۔

س: کورونا وائرس کی روک تھام میں پولیس کا کردار کیسا رہا؟

ج: کورونا وائرس کو ایک عالمی وبا ہے،پُوری دُنیا اس سے پریشان ہے،لاک ڈاؤن کے دوران جب دکانیں اور مارکٹیں بند تھیں، تو ہم نے لوگوں کو گھروں تک دوائیاں پہنچائیں۔ کورونا کے دوران ڈیوٹی کرتے ہوئے ہمارے کئی پولیس اہل کار جان سے گئے۔

س: بہ طور پولیس افسر آپ ہماری نئی نسل کے لیے کیا پیغام دیں گے؟

ج: نئی نسل اور میں اپنے بچوں کو بھی پیغام دیتا ہوں کہ محنت کریں ،آج کی نسل کو لگتا ہےکہ ایم بی اے کرلیں گے تو یہ ہوجائے گا ،وہ ہوجائے گا۔ آپ محنت کریں اور اگر ایک بار محنت کے ٹریک پر چل پڑو تو آپ کو تھوڑی مشکل تو ہوگی، لیکن ایک دن آپ اپنی منزل ضرور حاصل کرلیں گے۔

اگر آپ شارٹ کٹ پر جائو گے، ہوسکتا ہے آپ کو اپنی منزل مل جائے، لیکن سکون نہیں ملے گا۔ اللہ تعالیٰ نے ہمارے ملک کو بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے۔ پاکستان ایک آزاد ملک ہے، میں بہت ملکوں کے سفر پر گیا ہوں، جو آزادی پاکستان میں ہے، اتنی آزادی میں نے کسی اورملک میں نہیں دیکھی۔ آپ یہ نہ سوچیں کہ ملک آپ کو کیا دے رہا ہے، بلکہ آپ یہ سوچیں کہ آپ ملک کو کیا دے رہے ہو۔