صنعت کاروں اور تاجروں کو نئے بجٹ سے بہت سی توقعات وابستہ ہیں

May 25, 2021

ملک میں اس وقت بجٹ کی آمد آمد ہے اور وفاقی حکومت نے اعلان کیا ہے کہ بجٹ میں تمام سیکٹرز کی تجاویز سے نیا بجٹ تیار کیا جارہا ہے ایک طرف وفاقی وزیر شوکت ترین نے تسلی دیدی ہے کہ ٹیرف میں اضافہ نہیں ہو گا اور نہ ہی دی گئی مراعات واپس لی جائیں گی بلکہ انھوں نے تو کئی قدم آگے جاتے ہوئے آئی ایم ایف کی شرائط اور پابندیوں کو بھی درست قرار نہیں دیا اس کا مطلب ہے کہ انھیں بخوبی اندازہ ہے کہ لوگ کتنے تنگ ہیں۔

پنجاب ہو یا کے پی کے بلوچستان ہو یا سندھ تمام صوبوں میں ہر چیز کی قیمتیں کئی گنا بڑھی ہو ئی ہیں کسی صوبے میں اشیاٗ کو کنٹرول کرنے کے لئے کوئی میکنزم موجود نہیں ہے ۔ دکان دار ہوں یاآڑھتی سب اپنی مرضی سے قیمتوں کی چیزیں بڑھا چڑھا کر فروخت کر رہے ہیں ایک طرف حکومت سرکاری قیمتوں کا اعلان تو کرتی ہے لیکن اس قیمت پر عوام کو ملنا ناممکن ہو گیا ہے۔

چینی آج کل 80 کی بجائے 110 روپے کلو، مرغی جو کبھی تین سو روپے کلو سے اوپر نہیں بکی آج کل 450 روپے میں عوام کی چیخیں نکلو ارہی ہے کوئی پوچھنے والا نہیں یہی حال گوشت، دالوں ،پھلوں ،سبزیوں ، گھی اور دودھ کا ہے ،لوگ بازار جاتے ہیں تو روزانہ نیا بڑھا ہو اقیمتوں کا طوفان ان کا منہ چڑھا رہا ہوتا ہے اب بجٹ آنے کو ہے لیکن ہم نے جس سے بھی رائے جانی وہ یہی کہتے دکھائی دیا کہ بجٹ سے کچھ فرق نہیں پڑنا بجٹ آئے گا ،بجٹ میں سب اچھا کی رپورٹ پیش کی جائے اعداد و شمار بڑھا چڑھا کر پیش کئے جائیں گے لیکن بجٹ کے بعد منی بجٹ میں اور روزانہ کی بنیاد پر اشیا کی قیمتیں بڑھا دی جائیںگی جو یقیناً المیہ ہے ۔

وزیر اعظم عمران خان جو ماضی کی حکومتوں کو مہنگائی پر آڑے ہاتھوں لیتے تھے اب عوام سے دور ہو چکے ہیں جب وہ رمضان بازار میں دورہ کرنے جاتے ہیں تو وہاں نہ بندہ نہ بندے کی ذات کہاں گئے وہ دعوے کہ عوام میں گھل مل جائیں گے نواز شریف زرداری کو طعنے دئیے جاتے تھے کہ وہ عوام تو کیا اپنے ایم این ایز سے نہیں ملتے یہی شکوہ پی ٹی آئی کے ایم این ایز کو ہے کہ عمران خان سے ملنا ممکن نہیں رہا ان کے شکوے اب عوام کے سامنے آچکے ہیں ان حالات میں عوام کی بات کون سنے گا ہم امید کر رہے ہیں کہ اب دو سال باقی ہیں حکومت ووٹ لینے کے لئے مہنگائی کم کرے گی ٹیکس کم کرے گی اور عوام کو ریلیف دلائے گی ہم نے لاہور کی تاجر برادری سے بات کی اور کوشش کی کہ ایسی تجاویز سامنے لائی جائیں جس سے عوام صنعت کار او رتاجر کا فائدہ ہوکاروبار چلے اور سستی اشیا مہیا ہو سکیں ،

تاجر برادری کا کہنا ہے کہ معیشت کے اہم برآمدی شعبوں مثلا ًانجینئرنگ، چاول اور حلال گوشت و دیگر کو بھی پانچ زیرو ریٹڈ سیکٹرز کے برابر ٹیکس مراعات دی جائیں تاکہ ملک میں صنعتکاری کے عمل کو فروغ ملے۔ ہمارے ہاں انجینئرنگ کے شعبے کو کوئی مراعات نہیں دی جاتیں جبکہ اس شعبہ کی عالمی تجارت52فیصد کے قریب ہے۔ ساتھ ہی زیادہ تر مراعات ٹیکسٹائل کے شعبے کو دی جاتی ہیں،جس کا عالمی تجارت میں صرف 4فیصد حصہ ہے۔

لاہور چیمبر نے ٹیرف ریشنلائزیشن کے حوالے سے جامع تجاویز پیش کی ہیں۔ جو بھی خام مال ملک میں مینوفیکچر نہیں ہوتا ان کی درآمد پر سے کسٹم ڈیوٹی، ایڈیشنل کسٹم ٖڈیوٹی اور ریگولیٹری ڈیوٹیز ختم کر کے انہیں زیرو ریٹڈ قرار دیا جائے۔

ان کا کہنا ہے کہ ہم امید کرتے ہیں کہ سیلز ٹیکس ریفنڈ سسٹم(فاسٹر پلس) کی تکنیکی خرابیاں دور کر کے اس سسٹم کو مزید بہتر بنایا جائے گا۔ساتھ ہی ہماری تجویز ہے کہ اسی سسٹم کے ذریعے انکم ٹیکس ریفنڈز کی بھی فوری ادا ئیگی یقینی بنائی جائے۔

مختلف برآمدی صنعتوں کے ان پُٹ پر سیلز ٹیکس کی شرح 17فیصد ہے جو کہ بہت زیادہ ہے،اس میں کمی کی ضرورت ہے۔

کمرشل امپورٹرز کی سہولت کے لئے اور اس بات کو یقینی بناتے ہوئے کہ اہم خام مال کی درآمد متاثر نہ ہو،درآمد کی سطح پر ایڈوانس Incomeٹیکس کو ختم کر کےFinal Tax Regimeنافذ کی جائے اس مشکل معاشی دور میںچھوٹے کاروبار سے منسلک افراد کے مفاد اور سہولت کے لیے غیر رجسٹرڈ افراد کو اشیاء کی فروخت کے لئے قومی شناختی کارڈ ظاہر کرنے کی شرط کو ختم کر دیا جانا چاہیے۔

مزیدیہ کہ نان فائلر/غیر رجسٹرڈ افراد کوSupplies پر 3فیصدFurther Taxبھی فی الفور ختم کیا جانا چاہیے۔

ٹرن اوور ٹیکس کو موجودہ 1.5فیصد شرح سے کم کیا جانا چاہیے۔اس کے علاوہ، سٹیل اور پٹرولیم جیسے منافع کے کم مارجن والے شعبوں کے لئے یہ شرح بالترتیب 0.75اور0.25فیصد ہونی چاہیے ملک میں کاروباری ماحول بہتر بنانے اورکاروباری شعبے کو کورونا کے منفی اثرات سے بحالی کے لئے اگلے 2سال کے لئے کسی بھی قسم کا آڈٹ نہیں کیا جانا چاہیے۔ٹیکسیشن کے نظام میں آسانیاں پیدا کی جائیں ،ٹیکس ریٹرن فارم ایک صفحہ پر مشتمل ہونا چاہیے۔سیلز ٹیکس، انکم ٹیکس اور ود ہولڈنگ ٹیکس کے لئے ایک ہی آڈٹ ہونا چاہیے اور وہ بھی 3سال میں ایک بار کیا جانا چاہیے۔ کمرشل امپورٹرز کے لئے ایڈوانس پیمنٹ کی ادائیگی پر پابندی سے ان کیلئے خام مال اور دیگر ضروری اشیاء کی درآمد مشکل ہو گئی ہے۔

ہماری تجویز ہے کہ کمرشل امپورٹرز کو 20ہزار ڈالر تک کی ایڈوانس پیمنٹ کے بدلے درآمد کی اجازت دی جانی چاہیے،کراچی کی طرح لاہور میں بھی ڈائریکٹوریٹ آف ویلوایشن قائم کیا جانا چاہیے،تاکہ ویلوایشن کمیٹیوں کے اجلاس لاہور میں ہی منعقد ہو سکیں کیونکہ امپورٹرز کی بڑی تعداد لاہور اور گرد و نواح سے تعلق رکھتی ہے۔ FATAاور PATAکی صنعتوں کو خام مال پر دیئے گئے ٹیکس مستثنیٰ کے غلط استعمال کے مسئلے کو بھی فوری حل کیا جائے۔ مقامی ایل پی جی پیداوار ملک میں ایل پی جی کی کلُ60سے 70فیصد ضرورت پوری کرتی ہے،جس پر 17فیصد سیلز ٹیکس اور 4669روپے فی میٹرک ٹن پٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی عائد ہے جبکہ ایل پی جی کی درآمد پر صرف 10فیصد سیلز ٹیکس اور کوئی ریگولیٹری ڈیوٹی نہیں۔ ان بے ضابطگیوں کو دورکرنے کی ضرورت ہے۔

آئی ٹی کے شعبہ سے منسلک مقامی اور برآمدی سطح پر کام کرنے والی کاروباری کمپنیوں کو د ئیے گئے ٹیکس استثنیٰ میں اگلے پانچ سال کی توسیع کی جانی چاہیے۔ انفراسٹرکچر، انسٹالیشن،سپورٹ و دیگر آئی ٹی سروسز پر سیلز ٹیکس میں 50فیصد کمی کی جانی چاہیے۔ استعمال شدہ کمپیوٹر سسٹمز اور لیپ ٹاپس پر ٹیکسز اور ڈیوٹیز کو ختم کیا جانا چاہیے۔کمپیوٹر ہارڈ ویئر کے اجزاء، پرنٹرز اور نیٹ ورکنگ کے آلات وغیرہ پر ڈیوٹی کم کی جانی چاہیے۔

صنعت کاروں کو سوئی گیس کمپنی کے نئے ایم ڈی سے شکایات سامنے آئی ہیں جو انھوں نے وزیر خزانہ اور وزیر پٹرولیم کو بجٹ تجاویز کے طور پر بھجوائی ہیں اس میں نشاندہی کی گئی ہے کہ سوئی گیس ایم ڈی باہر سے آئے ہیں نہ کسی صنعت کار سے ملتے ہیں نہ معاملات کو درست چلا رہے ہیں صنعت کاروں نے نئے کنکشن کے لئے کروڑوں روپے جمع کروا رکھے ہیں لیکن سوئی گیس کمپنی کے افسران کی طرف سے کوئی توجہ نہیں ہے میٹریل خریدا گیانا ہی پالیسی کو بہتر بنایا گیا اور یہی وجہ ہے کہ نئے کنکشن کے حصول کے لئے صنعت کار اربوں روپے کی سرمایہ کاری کے بعد رل رہے ہیں ۔

صنعت کاروں کا کہنا ہے کہ وزیر پٹرولیم اسکی انکوائری کرائیں لاکھوں روپے ماہانہ تنخواہ و مراعات لینے والے ایم ڈی کو کوئی سروکار نہیں کہ صنعت اور عوام کوکیسے ریلیف دیا جا سکتا ہے وہ عوام سے دور اے سی ہیڈ آفس میں بیٹھے ہیں نہ کبھی تاجروں سے ملے نہ میڈیا سے اس سے بہتر تھا کمپنی کے اندر سے انجنیئر لگایا جاتا جو زمینی حقائق کو سمجھتا ہو اور عوامی مسائل حل کرنے کا ادراک رکھتا ہو عوامی کچہریوں کا سلسلہ جو رشید لون کے دور میں ہوتا تھا وہ اس دور میں ختم کر دیا گیا ہے لاہور ریجن ہو یا کوئی اور کبھی کوئی کھلی کچہری ہوئی نا ہی عوام سے میل جول رکھا گیا ہے یہ صورتحال سوئی گیس کمپنی کے لئے تباہی کا باعث ہے۔