لاہور سے اسلام آباد تک

June 04, 2021

لاہور سے اسلام آباد کے لئے روانہ ہوئے تو روایت کے مطابق کسی کو اپنا رہنما بنانا تھا۔ ہم نے سندس فاؤنڈیشن کے سربراہ یٰسین خان کو اپنا لیڈر منتخب کر لیا۔ قافلے میں آصف عفان کے علاوہ دو شخص تھے۔ مگر ان کا نام فسادِ عامہ کے خوف سے درج نہیں کر رہاکہ کچھ لوگوں کے ناراض ہونے کا خدشہ ہے۔ کئی لوگ ہوتے ہیں جو کئی لوگوں کو برداشت نہیں کر سکتے۔ مثال کے طور پر کسی کی تصویر محترمہ فردوس عاشق اعوان کے ساتھ نون لیگ کی لیڈرشپ کو دکھائی تو غصے میں لیڈر نے سیالکوٹ کے کچھ عرصہ بعد ہونے والے ضمنی انتخابات میں اپنا ایم پی اے کا امیدوار ہی بدل دیا۔زندگی عجیب و غریب چیز ہے۔

ہمارے اس سفر کے کئی مقاصد تھے۔ کچھ معاملات فواد چوہدری کے ساتھ تھے، کچھ باتیں قاسم خان سوری سے کرنا تھیں، مظہربرلاس کے ساتھ کچھ وقت گزارنا تھا۔ اکادمی ادبیات کے چیئرمین یوسف خشک کے ساتھ ایک میٹنگ تھی۔ نورالحق قادری سے ملنا تھا۔ یونیسف میں عطاالمصطفیٰ سے بچوں کے حقوق پر ایک میٹنگ تھی۔ پانی کے مسئلہ پر کچھ لوگوں سے ڈسکشن تھی۔ منگلا ڈیم اور تربیلا ڈیم کو چیک کرنا تھا، دیکھنا تھا کہ صوبہ سندھ درست کہہ رہا ہے یا بزدار حکومت سچی ہے۔ اتفاق سے سیالکوٹ چیمبرآف کامرس کے چیئرمین قیصربیدار سے ملاقات ہوئی جو بڑی مفید ثابت ہوئی۔بےشک صوبہ پنجاب آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا صوبہ ہے۔ زرعی پیداوار کے ساتھ ساتھ انڈسٹریل گروتھ بھی پنجاب میں تیز تر ہے۔ یہاں پر مینوفیکچر کئے جانے والے سرجری کے آلات پوری دنیا میں ایکسپورٹ کیے جاتے ہیں بلکہ سیالکوٹ میں بننے والے فٹ بال سے انٹرنیشنل میچز اور ورلڈ کپ کھیلے جاتے ہیں۔ معاشی لحاظ سے پنجاب میں اور بھی بہت کچھ ہے۔ چونکہ بڑا صوبہ ہے اس لئے اس پر ذمہ داری بھی بڑی عائد ہوتی ہے۔

پانی کی تقسیم کے معاملے میں پنجاب نے ہمیشہ بڑ ابھائی ہونے کا ثبوت دیا ہے۔ پانی پر حالیہ بحث سے لگتا ہے کہ حکومتیں سیاسی بیان بازی پر اُتر آئیں۔ یہ کوئی درست حکمت عملی نہیں تھیکہ سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے ذریعے حکومتیں لوگوں کی توجہ اپنی کارکردگی سے ہٹا کر ایسی بحث میں لگا دیں جس سے نفرتیں جنم لیں ۔ بہرحال سندھ کی سیاسی جماعت کی طرف سے یہ پروپیگنڈا افسوس ناک ہے۔ کارکردگی بہتر کرنے کی بجائے صوبےکی عوام کو ایک اور جھوٹ سنا دینا بہت تکلیف دہ بات ہے۔ پنجاب حکومت نے مگراس سلسلے میں بہت مثبت حکمت عملی سے کام لیا۔ بزدار صاحب کا ایک پالیسی بیان سامنے آیا۔ انہوں نے بیراجوں پر غیر جانبدار مبصرین بٹھانے کی سفارش کی تاکہ پانی کے اخراج کی نگرانی کی جاسکے اور آفیشل ڈیٹا کی تصدیق بھی کی جا سکے۔ انہوں نے تو سندھ کے پارلیمنٹرینز کو بھی دعوت دی کہ وہ پنجاب آئیں اور بیراجوں کا خود دورہ کرکے تسلی کر لیں۔ اب اس سے زیادہ شفاف اور مناسب پیشکش کیا ہو سکتی ہے؟

اس سلسلے میں سندھ کے محکمہ ایری گیشن اور ارسا کے اعلیٰ افسران نے پنجاب کا اچانک دورہ بھی کیا۔ محکمہ ایر ی گیشن سندھ کی ٹیم نے نذیر احمد ، ایکس سی این ڈیزائن گڈو بیراج کی سربراہی میں پنجند بیراج کا دورہ کیا اور پنجاب کی جانب سے ڈسچارج ڈیٹا کی رپورٹ کی تصدیق کی۔ ان کی دستخط شدہ دستاویزات آفیشلی آن لائن میسر ہیں جبکہ ارسا ممبر کے پی ، ممبر بلوچستان اور ڈائریکٹر آپریشنز ارسا پر مشتمل ٹیم نے چشمہ جہلم لنک کینال ، جناح بیراج اور تھل کینال کا دورہ کیا اور پنجاب کی تمام ڈیٹا رپورٹس کی تصدیق کی۔اس سے کم از کم یہ تو ثابت ہوتا ہے کہ بزدار صاحب کی جانب سے سندھ کو دعوت دینا کہ وہ اپنے پارلیمنٹرینز بھیجے ، ایک کھلا چیلنج تھا۔ کیا سندھ حکومت بھی یہ کروا پائے گی؟ سندھ حکومت میں موجود وڈیرے تو خود پانی چوری اور ایسے دیگر گھناؤنے کاموں میں ملوث ہیں۔

اس مسئلے کو مزید سمجھنے کےلئے اگر آپ اپنی یادداشت پر تھوڑا زور ڈالیں تو آپ کو یہ بات سمجھ آ جائے گی کہ سندھ طاس معاہدے کے بعد کیسے پاکستان راوی، بیاس اور ستلج کے پانی سے محروم ہوا اور مشرقی دریاؤں کی کمی پوری کرنے کےلئے کیسے دریائے سندھ اور جہلم سے پانی لا کر ان کا متبادل پیدا کرنا مقصود تھا۔ اس سلسلے میں دو ڈیم اور 400میل طویل 7لنک نہریں بنانا مطلوب تھا۔تونسہ پنجند لنک کینال تونسہ بیراج سے پانی لے کر پنجند بیراج کو دیتی ہے جس سے پھر عباسیہ لنک اور پنجند لنک نہریں نکلتی ہیں جو دریائے ستلج کی کمی کو پورا کرتی ہیں۔ اسی طرح چشمہ جہلم لنک کینال چشمہ کے مقا م پر دریائے سندھ سے پانی لے کر تریموں بیراج سے پہلے دریائے جہلم میں ڈالتی ہے جو تریموں سےنکلنے والی تریموں سدھنائی لنک کینال کو پانی فراہم کرتی ہے اور اس سے جو مشرقی اضلاع راوی کے پانی سے محروم تھے ان کو پانی فراہم کیا جاتا ہے۔ اسی طرح رسول قادر آباد لنک کینال جہلم سے چناب میں پانی ڈالتی ہے۔ اسی طرح دیگر تعمیر شدہ لنک کینالز نظام آبپاشی چلا رہی ہیں۔ اب ارسا کو سیزنل ایلوکیشن پر توجہ دینی چاہیے۔ کچھ عرصہ تک دریاؤں میں پانی کا بہاؤ تیز رہنے کی امید ہے۔ اس سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے تمام صوبوں کو10یومیہ پلان کے تحت اضافی پانی کی فراہمی یقینی بنانی چاہیے اور خدانخواستہ پانی کی کمی پیش آئے تو اس کو بھی شفاف طریقے سے تمام صوبوں میں تقسیم کرنا چاہیے۔ منصفانہ تقسیم کے ذریعے اس مسئلے پر قابو پایا جا سکتا ہے۔

ارسا کی رپورٹ کے مطابق اپریل اور مئی کے واٹر اکاؤنٹ کے مطابق سندھ اور پنجاب کے صوبوں میں پانی کی کمی20فیصد رہی اور گزشتہ ہفتے دریاؤں میں پانی کی آمد بڑھنے کے بعد سندھ کےلئے 35ہزار کیوسک اور پنجاب کےلئے 18ہزار کیوسک پانی کا اضافہ بھی کیا گیا ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)