فوجی اسٹیبلشمنٹ، انڈیا اور وزیراعظم نوازشریف

June 28, 2013

برطانیہ کے مختلف شہروں میں دو ہفتے گذارنے کے بعد گذشتہ روز لاہور واپس پہنچا ہوں، پتہ چلا کہ میری عدم موجودگی میں قومی اور بین الاقوامی سطح پر جو بہت بڑے بڑے واقعات رونما ہوئے۔ ان میں صدر آصف علی زرداری اور وزیراعظم نوازشریف کی طر ف سے میرے لئے آموں کی پیٹیاں بھیجنا بھی شامل ہیں۔ وزیراعظم نوازشریف کے بھیجے ہوئے آم کھانے کا موقع تو نہ ملا کہ میری واپسی کا انتظار ہی نہیں کیا گیا تھا چنانچہ مجھے کچھ اندازہ نہیں کہ ”وزیراعظم“ نوازشریف کے آموں میں وہ شیرینی تھی کہ نہیں جن کی لذت میں اس نوازشریف کی شیریں لبی شامل ہوتی تھی جب وہ وزیراعظم نہیں تھے، البتہ جہاں تک صدر آصف علی زرداری کے ارسال کردہ آموں کا تعلق ہے، اس کی ایک دو پیٹیاں میری آمد تک میرے لئے سنبھال کر رکھی گئی تھیں اور میں یہ کالم ان آموں سے کماحقہ مستفید ہونے کے بعد لکھ رہا ہوں، لہذا سبحان اللہ مزا آگیا، میرے خیال میں یہ سندھڑی آم تھے، میں نے اپنے یقین کو ”خیال“ میں اس لئے بدلا ہے کہ صدارتی آموں کا کچھ پتہ نہیں ہوتا، آپ وہ سندھڑی سمجھ کر کھا رہے ہوں، بعد میں پتہ چلے کہ وہ لنگڑے آم کی کوئی قسم تھی، بہرحال آم تو آم ہی ہوتا ہے اور ان کی لذت کا احوال بیان کرنے سے انسان خود کو اقبال اور غالب کا ہم ذوق سمجھنے لگتا ہے! اقبال اور غالب کی آم پسندی کے قصے تو آپ نے سنے ہی ہوں گے۔ یہ ترقی پسندی اور اسلام پسندی وغیرہ کی تحریکیں تو اس آم پسندی کے بعد ہی وجود میں آئی تھیں!
میں نے دو ہفتے برطانیہ کے مختلف شہروں یعنی لندن، برمنگھم، کلاسگو، نیوکاسل اور ونڈریئر (لیک ڈسٹرکٹ) میں گذارے ان شہروں میں احسان شاہد اور سلطان باہو ٹرسٹ نے منصور آفاق کی وساطت سے میری 70 ویں سالگرہ منانے کا اہتمام کیا تھا۔ اس کے علاوہ افتخار قیصر کے جنگ فورم میں شرکت کی دعوت دی تھی۔ پیر نیازالحسن، جناب لخت حسنین اور چودھری عبدالمجید کی ضیافتیں اس کے علاوہ تھیں مگر یہ احوال کسی اور کالم کے لئے چھوڑتا ہوں، فی الحال اپنی اس بے خبری کی بابت آپ کو بتانا ہے جو شدید مصروفیات کے سبب پاکستان کی تازہ ترین صورت حال کے حوالے سے میرے ہمراہ رہی، مجھے اس دوران صرف یہ معلوم ہوا کہ نانگا پربت کی چوٹیاں سر کرنے کے لئے آنے والے کوہ پیماؤں کو دہشت گردوں نے ہلاک کردیا اور ایک خبر یہ ملی کہ نوازشریف کی حکومت نے جنرل پرویز مشرف کے خلاف مقدمہ کی اجازت دے دی ہے اور اس کی تیاری شروع کردی گئی ہے۔ پاکستان میں آنے والے سیاحوں کو ہلاک کرنے کا اسلامی نظام کے قیام سے کیا تعلق ہے جس کا دعوی دہشت گرد تنظیمیں کرتی ہیں؟ یہ لوگ پاکستان اور پاکستانی عوام کے دشمن ہیں اور غیر ملکی ایجنڈے پر عمل کر رہے ہیں ان کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹنے اور ان کا قلع قمع کی ضرورت ہے بالکل ویسے ہی جیسے ہماری پاک فوج نے سوات میں ان کے ساتھ کیا تھا اور یہ دم دبا کر وہاں سے بھاگ نکلے تھے۔
دوسری خبر وہی پرویز مشرف والی تھی جن پر غداری کا مقدمہ چلایا جارہا ہے۔ میں ان دو تین افراد میں سے ایک ہوں جنہوں نے پرویز مشرف کی اس غداری کے خلاف سب سے پہلے اور سب سے بڑھ کر مزاحمت کی تھی جس کا ارتکاب اس نے نوازشریف کی منتخب جمہوری حکومت پر قبضے کی صورت میں کیا تھا، اس کے باوجود میں محسوس کرتا ہوں کہ اس وقت ملک و قوم کو اس سے بڑے مسائل کا سامنا ہے جس کے لئے حکومت کو اپنی تمام تر توانائیاں استعمال کرنا چاہئیں، تاہم اس کا یہ مطلب نہیں کہ پرویز مشرف کو اس کے جرائم کی سزا نہ دی جائے لیکن یہ بھی مناسب نہیں کہ صرف پرویز مشرف کو نشانہ بنایا جائے بلکہ میرے نزدیک قیام پاکستان سے اب تک جن فوجی آمروں یعنی جنرل ایوب خاں، جنرل یحییٰ خان اور جنرل ضیاء الحق جنہوں نے آئین کی دھجیاں بکھیریں اور بندوق کی نوک پر منتخب حکومتوں کے تختے الٹے۔ ان سب کو پرویز مشرف کے ساتھ کھڑا کیا جائے اور انہیں جسمانی سزا کی بجائے روحانی سزائیں سنائی جائیں۔ یہ فیصلہ عدالت عالیہ نے کرنا ہے تاہم میرا مشورہ ہے کہ ان تمام جرنیلوں کو غدار وطن ڈکلیئر کیا جائے تاکہ یہ دنیا کے لئے نشان عبرت بنیں۔ ہماری فوجی اسٹبلشمنٹ کا ایک خاص مائنڈ سیٹ ہے، وہ جنرل کیانی کی کوششوں کے باوجود اس میں سے نہیں نکل سکی، اس مائنٹ سیٹ کے مطابق جرنیل کی حیثیت مائی باپ کی سی ہے، وہ ایک مقدس گائے ہیں لہذا انہیں گرفتارکرنا، جیل میں رکھنا، پھانسی دینا یا اس طرح کی کوئی دوسری حرکت کبھی دل سے قبول نہیں کی جاتی، جرنیلوں کو جنرل جہانگیر کرامت کو ان کے عہدے سے الگ کرنے کا نوازشریف کا اقدام ہضم نہیں ہوا تھا مگر اس کے بعد جرنیلوں نے یہ فیصلہ کرلیا تھا کہ آئندہ اگر کبھی ایسا کرنے کا سوچا بھی گیا تو وہ فوراً حرکت میں آجائیں گے چنانچہ پرویز مشرف کے حوالے سے فوری طور پر چار جرنیلوں کا ٹولہ آگے بڑھا اور وزیراعظم نوازشریف اور ان کی تمام فیملی کو جیلوں اور گھروں میں قید کر کے حکومت پر قبضہ کرلیا گیا، نوازشریف کی گذشتہ دنوں وزارت عظمیٰ کا دورانیہ پورا نہ ہونے کی بالواسطہ یا بلاواسطہ وجہ یہی تھی، اب خدا خدا کر کے میاں صاحب تیسری باربلکہ میری نظروں میں پہلی بار وزیراعظم بنے ہیں اور اس دفعہ صرف اپنوں ہی کو نہیں غیروں کو بھی ان سے بہت امیدیں وابستہ ہیں، ان کی خواہش ہے کہ نوازشریف اپنے پانچ سال پورے کریں اور بغیر کسی مداخلت کے پورے کریں کیونکہ انہیں یقین ہے کہ میاں صاحب پاکستان کو خطے کی ایک بڑی طاقت بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں لہٰذا میری اور ان کے تمام بہی خواہوں کی خواہش ہے کہ وہ پرویز مشرف کے معاملے کو زیادہ الجھنے نہ دیں اور انہیں اور ان کے پیشروؤں کو ہماری عدالتیں کوئی روحانی سزا سنا کر معاملہ ختم کردیں۔ پرویز مشرف کو ملک بدر کردیا جائے اور وہ اپنی بقیہ زندگی اپنی کرتوتوں کی سزا جلا وطنی اور پاکستانی قوم کی نفرت کی صورت میں بھگتیں! میاں نوازشریف صاحب کو ایک بات یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ ان کی مخالف جماعتیں انہیں اس جال میں پھنسانے کے لئے انہیں ہلاشیری دے رہی ہیں، بہتر ہوگا اگر وہ ان کی ”حمایت“ کو حب علی نہیں بلکہ بغض معاویہ کے حوالے سے دیکھیں۔
ہماری فوجی اسٹیبلشمنٹ کا مائنڈ سیٹ انڈیا سے دوستی کو بھی قبول نہیں کرتا جبکہ میں حالات کے جبر کے تحت انڈیا سے دوستی ضروری سمجھتا ہوں، پاکستان اس وقت جن مشکلات سے دوچار ہے ان مشکلات سے نکلے بغیر وہ کوئی نیا ”پنگا“ لینے کی پوزیشن میں نہیں، چنانچہ میرے نزدیک نوازشریف انڈیا سے بہتر تعلقات کے ضمن میں جو کوششیں کررہے ہیں وہ پاکستان کی بقاء اور استحکام کے لئے ضروری ہیں، تاہم ایک دو مرتبہ وہ اس ضمن میں غیر محتاط بھی نظر آئے ہیں۔ انڈیا سے دوستی صرف برابری کی بنیاد پر اور تنازعات کے حل ہونے کی صورت ہی میں پائیدار ہوسکتی ہے۔ میرے نزدیک ملک و قوم کو اس وقت نوازشریف ایسے اعلیٰ مدبر کی ضرورت ہے چنانچہ وہ فوج اور انڈیا کے حوالے سے جو قدم بھی اٹھائیں بہت سوچ سمجھ کر اٹھائیں تاکہ پاکستانی قوم اپنے اس رہبر کی رہنمائی میں آنے والے پانچ برسوں میں ایک مضبوط اور مستحکم پاکستان دیکھ سکے۔ میں اس تھیوری سے متفق نہیں ہوں کہ مضبوط عدلیہ، آزاد میڈیا اور بیدار سول سوسائٹی کی موجودگی میں ہمارا کوئی جرنیل طالع آزمائی نہیں کرسکتا، ان میں تو ایسے لوگ بھی ہیں جنہوں نے انڈیا سے بدترین شکست کھانے اور اس کے سامنے ہتھیار ڈالنے کے کچھ عرصے بعد ہی پاکستانی قوم سے ہتھیار ڈلوائے تھے اور پھر گیارہ سال تک ظلم و ستم کا بازار گرم رکھا تھا۔