مسئلہ کشمیر مزید پیچیدہ؟ مودی باز رہے ورنہ ...

June 12, 2021

’’پھر کچھ بہت خطرناک ہونے والا ہے‘‘۔ تشویش سے بوجھل یہ وہ بیانیہ ہے جو چند روز سے دنیا ہی نہیں بھارتی مین لینڈ سے بھی کاٹے گئے محصور ومقبوضہ کشمیر کے تشویش میں ڈوبے محلوں کے محبوس گھروں میں افواہ کی طرح پھیل رہا ہے۔ وسوسوں اور خدشات میں تبدیل ہو کر اب یہ بھارتی اور انٹرنیشنل میڈیا کی خبر بن گیا ہے۔ایسی خبریں عذاب بن جانے والی داخلی مشکلات میں جکڑے وزیر اعظم مودی کی مقبوضہ کشمیر میں کسی اور مذموم مہم جوئی کے ارادے کو پیشگی بے نقاب کر رہی ہیں۔ مقبوضہ علاقے کے اس پیش منظر کے تناظر میں سوشل میڈیا کا فالواپ ہائی فری کوئنسی پر ہے جو تجزیاتی نوعیت کا اور محصورو مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے بڑا انتباہ معلوم دے رہا ہے۔ اسلام آباد اور نئی دہلی خطے کی موجودہ حساس اور تشویشناک ہوتی صورتحال میں بالکل نئے اور غیر روایتی سفارتی اہداف حاصل کرنے کے لئے سرگرم ہیں۔ اس میں واضح طور پر پاکستان تو بہت کامیاب نظر آ رہا ہے کہ اس کے دو بڑے دوست ممالک کے قومی مفادات کا حصول پاکستان کی اس کامیابی سے جڑ گیا ہے لیکن اسٹرٹیجکل پارٹنر امریکہ سے بھی اس نوعیت کی تائید و معاونت حاصل کرنا اب محال ہے جس کا متلاشی عشروں تک مسئلہ کشمیر کے حوالے سے پاکستان رہا اور کامیاب نہ ہو سکا۔ مودی نے بھارت کا جو حلیہ بگاڑا ہے، اس پر امریکی ڈیموکریٹ انتظامیہ کو واشنگٹن کی (عشروں سے ہی) انڈیا پالیسی کے اس بیانیہ کو کہ ’’بھارت، امریکہ کا فطری حلیف ہے‘‘ کو جاری رکھنا اب کوئی آسان نہ ہو گا۔ اور اگر کسی داخلی دبائو میں آ کر صدر جوبائیڈن نے انڈیا سے تعلقات کے حوالے سے یہی پوزیشن لئے رکھی تو انہیں مسئلہ کشمیر کے حل، خصوصاً مقبوضہ علاقے میں انسانی زندگی کے مطلوب حقوق کی اندوہناک پامالی کے ازالے کے وعدوں، امریکہ کے عالمی امیج اور جمہوری اقدار کے احترام کے حوالے سے اپنے (بائیڈن کے) عوامی یقین کی قربانی دینی ہو گی۔ اگر دے دی تو ان میں اور پیش رو ٹرمپ میں بڑے تضاد کا تاثر کم تر ہو جائے گا جبکہ امریکی ووٹرز خصوصاً مسلم ووٹرز کے اذہان میں اس (تضاد) کا بلند درجہ، صدر بائیڈن کی جیت کا ایک بڑا سبب بنا۔ یوں بھی بمشکل اقتدار چھوڑنے والے ہارے ہوئےسابق صدر ٹرمپ، صدر بائیڈن کے لئے داخلی حوالے سے مسائل کا انبار چھوڑ گئے۔ سو آغاز میں ہی واضح ہوا کہ بائیڈن کا فوکس داخلی مسائل پر زیادہ ہو گا۔

اس پس منظر میں اب انٹرنیشنل اور خود بھارتی میڈیا پر مقبوضہ کشمیر میں مزید بڑی تعداد میں فوج بھیجی جا رہی ہے اور پہلے سے موجود لاکھوں افواج کی نقل و حمل غیر معمولی ہوتی جا رہی ہے۔ خبروں کے مطابق مودی حکومت نے مقبوضہ کشمیر کو 5اگست کے اقدامات، مقبوضہ علاقے کی آئینی حیثیت تبدیل کرنے کے غیر آئینی اقدامات سے آگے اب مسئلہ کشمیر کو مکمل ٹھکانے لگانے، پھر کشمیر کو ہضم کرنے میں ناکامی کے بعد اس کے ڈیمو گرافک فیچر (آبادی کے خدوخال) تبدیل کرنے کی مکمل تیاری کر لی ہے۔ یہ بھی خبریں اور تجزیے ہو رہے ہیں کہ وادی کو غزہ کی طرز پر مستقلاً اس کی لینڈ لاکڈ پوزیشن میں محصور کر کے جموں اور باقی کشمیر کے اضلاع پر مشتمل باقاعدہ صوبہ بنا کر کشمیر کا مسئلہ ہی ختم کر دیا جائے۔ خبروں کے مطابق مقبوضہ کشمیر کو مین لینڈ (بھارت) سے ملانے والے ہائی وے پر گزشتہ چند روز سے مسلسل مسلح بھارتی افواج کے ٹرک اور بسیں مقبوضہ علاقے کا رخ کر رہی ہیں۔ یہ سب کچھ پاکستان کو یہ مکارانہ تاثر دینے کے متوازی ہو رہا ہے کہ مودی حکومت پاکستان سے معمول کے تعلقات کی بحالی کیلئے مذاکرات پر تیار ہے۔ یہ تو درست ہے کہ اس پر وزیراعظم کا دوٹوک موقف ہےکہ 5اگست کے مقبوضہ کشمیر کی آئینی حیثیت کو واپس لئے بغیر کوئی مذاکرات نہیں ہو سکتے لیکن یہ یا وزارت خارجہ کی جانب سے پاکستان کے تاریخی موقف پر قائم رہنے کے فقط اعلان اور عزم کا اظہار قطعی ناکافی ہے۔ جو کچھ غزہ میں ہوا اور اس پر پرواسرائیل امریکی رسپانس آیا، پھر جو کچھ افغانستان میں ہو رہا ہے امریکی فوجوں کے انخلا کے بعد افغانستان کی جو امکانی صورت بنتی نظر آ رہی ہے پھر جس طرح بھارت کا جاری گھمبیر داخلی مسائل میں بھی عالمی فیصلوں، خود اپنے آئین کے خلاف مسئلہ کشمیر کو مزید گھمبیر بنانے کی خبریں اور تجزیے عام ہوتے جا رہے ہیں، اس کا تقاضا ہے کہ پاکستان اب اس سے تنہا ہی نپٹنے کی پوزیشن کو تبدیل کر کے تنازع پر عالمی فیصلوں پر عملدرآمد کرانے اور مقبوضہ کشمیر کے جاری انسانی المیے پر اُن دوست ممالک کو بھی سفارتی اور دفاعی کوششوں میں عملاً شامل کرے، جن کے وسیع تر قومی مفادات پاکستان کی سلامتی اور بھارت کے کشمیر پر 72سالہ قبضے کی صورت میں سلامتی کے مسلسل خطرات سے وابستہ ہو چکے ہیں۔ ہمارے دوستوں کا ہمیں مطلوب تعاون حاصل کرنا (بھارت کو حاصل امریکی پُرخطر مطلوب تعاون کے مقابل) مکمل یا جواز، باہمی مفاد کا حامل اور پاکستان کی بڑھتی عالمی قبولیت اور اہمیت کے سازگار ماحول میں بغیر عملی رکاوٹوں کے آسان ہی نہیں سب کیلئے لازم بھی ہے۔ بھارت عالمی خصوصاً پورے ایشیا کے امن کو خطرے میں ڈال کر اقتصادی طاقتوں کی غیر علانیہ جنگ میں تجارت کا مقابلہ عسکریت سے کرنے والوں کا ایجنٹ بن سکتا ہے تو پاکستان خطے کے شدت سے مطلوب امن و استحکام، Connectivityجیسی ترقی پذیر ممالک کی بڑھتی ضرورت پورا کرنے اور اس کے حوالے سے لینڈ لاکڈ سنٹرل ایشین اسٹیٹس اور جنوبی ایشیائی ممالک کی بھرپور امکانی خوشحالی میں حائل بھارت کو ’’باز رہنے‘‘ کا گھسا پٹا بیانیہ اب مہلک ثابت ہو سکتا ہے۔ مودی جو پھر مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے کرتا نظر آ رہا ہے، اس کا تقاضا ہے کہ باز رہے وگرنہ، امکانی نتائج سے مشترکہ طور پر مودی اور اس کے سرپرست اتحادیوں کو انتباہ کی صورت آگاہ کرنا ہمارا بڑا سفارتی ہدف ہو۔ گویا مسئلہ کشمیر اب فقط کشمیریوں کے حق خود ارادیت اور پاکستان کی سلامتی اور پانیوں کا مسئلہ ہی نہیں یہ سی پیک کے تحفظ، سنٹرل ایشیا کے جمود اور روس کی گرم پانیوں تک پرامن اپروچ، ایشیا کے امن اور جنوبی ایشیا کو اس کے پوٹینشل کے مطابق ترقی و استحکام کے مواقع حاصل کرنے کا بھی سنجیدہ معاملہ ہے تو یہ جنگ جیسی بھی ہو سفارتی، اقتصادی اور مسلط ہی کر دی جائے تو عسکری بھی، تنہا پاکستان ہی کیوں لڑے؟ جملہ اقسام کے فریقین کو سنجیدہ اور دوستانہ اور مخلصانہ انتباہ ہماری بڑی سفارتی ضرورت بن گئی ہے۔