وفاق سندھ محاذ آرائی

June 15, 2021

اختلاف جمہوریت کا حسن ضرور ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس میں حکومت اور اپوزیشن، مرکز اور صوبوں کے درمیان دھواں دھار مخالفانہ بیان بازیوں، الزام و دشنام اور محاذ آرائی کے سوا کچھ رہنے ہی نہ دیا جائے۔ تاہم بدقسمتی سے وفاق اور سندھ کی حکومتوں کے درمیان تین سال کی مدت میں چند روز بھی ایسے نہیں گزرے جنہیں باہمی روابط کے اعتبار سے خوشگوار کہا جا سکے جبکہ آج کل تووفاق اور سندھ کی معرکہ آرائی ساری حدیں پھلانگتی دکھائی دے رہی ہے۔ اتوار کو اس صورت حال کا بدترین مظاہرہ ہوا۔ وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے کراچی میں پریس کانفرنس سے خطاب میں وزیراعلیٰ سندھ سید مرادعلی شاہ کو کٹھ پتلی قرار دیتے ہوئے کہاکہ ہر پانچ سال کے بعد ایک شخص کو ربڑ اسٹمپ کے طور پر سندھ کے وزیراعلیٰ ہائوس میں بٹھا دیا جاتا ہے جس کی تاریں زرداری خاندان کے پاس ہوتی ہیں اور وہ اسے کٹھ پتلی کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ گورنر راج کی آئین میں گنجائش نہیں لہٰذا صوبے میں آئین کی دفعہ 140اے نافذ ہونی چاہئے جس کی ذمہ داری سپریم کورٹ کی ہے۔ انہوں نے صوبائی حکومت پر ترقیاتی فنڈز میں خورد برد کے الزامات بھی لگائے۔ جواباً سندھ کے وزراء نے انہیں آڑے ہاتھوں لیا۔ مرکز کو سندھ حکومت کے خلاف سازش کا مرتکب قرار دیا گیا۔ وزیراعلیٰ سندھ کے خلاف وفاق کی مہم جوئی کا سبب ان کی جانب سے آئین اور قانون کی پابندی کے مطالبے کو بتایا گیا اور سپریم کورٹ سے حکومت سندھ کے خلاف کارروائی کی فرمائش کی مذمت کی گئی۔ وفاق اور سندھ کے اختلافات کا اس حد کو پہنچ جانا کسی بھی صورت قوم اور ملک کے مفاد میں نہیں لہٰذا دونوں جانب سے ہوشمندی کا ثبوت دیتے ہوئے باہمی رابطوں کو اس کم سے کم سطح تک لازماً قائم رکھا جانا چاہئے جو کاروبار مملکت چلانے کے لئے ضروری ہے جبکہ تعلقات کو بہتر بنانے کی تمام ممکنہ تدابیر بھی اختیار کی جانی چاہئیں۔