میاں نواز شریف صاحب ! ٹریک نہ بدلیں

July 01, 2013

مسلم لیگ کی حکومت آنے کے بعد عوام کی اکثریت کو امید سے زیادہ یقین تھا کہ ان کے روزمرہ کے معاشی مسائل اور سماجی حالات میں بتدریج کچھ کمی آنا شروع ہو جائے گی۔ ان مسائل میں مہنگائی، لوڈشیڈنگ اور مجموعی طور پر توانائی کے بحران میں کمی اور امن و امان کی صورتحال میں بہتری قابل ذکر ہے۔ ان مسائل کے حوالے سے ایک طرف امید اور دوسری طرف وعدے پورے کرنے کی یقین دہانی تھی۔ اس پس منظر میں وزیر اعظم میاں نواز شریف اور ان کی ٹیم نے اقتصادی حالات کی بہتری کے لئے کافی کچھ کرنے کے لئے منصوبہ بندی بھی کی۔ لیکن اچانک آئین کے آرٹیکل چھ کا ذکر شروع ہوا اور معاملہ سابق صدر پرویز مشرف تک جا پہنچا جس سے ملکی داخلی سیاسی حالات کا نقشہ ہی بدل گیا۔ اقتصادی ایشوز کی بجائے آئینی اور عدالتی ایشوز ہر جگہ زیر بحث آنے لگے۔ اتفاق سے اس دوران امریکی سیکرٹری خارجہ جان کیری کا دورہ پاکستان ملتوی ہو گیا جس کے بارے میں کسی نے بھی سنجیدگی سے نوٹس نہ لیا کہ ایسا کیوں ہوا۔ بہرحال اب وہ ماہ رمضان سے قبل خصوصی دورے پر پاکستان آنے والے ہیں۔ اس بار پانچ سال کے بعد پہلی بار پنجاب حکومت کے یو ایس ایڈ کے ساتھ تعلقات اور معاملات بہتر ہو جائیں گے جبکہ اس سے پہلے پانچ سالوں میں یو ایس ایڈ کے حکام کو پنجاب کی معاشی ترقی میں کوئی کردار نہ ملنے پر گہری تشویش ہوئی تھی لیکن میاں شہباز شریف نے ایک موقف اختیار کیا اور اس پر ڈٹے رہے مگر اب حالات بدل گئے ہیں۔ اب کی بار جان کیری اسلام آباد کے ساتھ ساتھ پنجاب حکومت کے خصوصی مہمان ہوں گے جس کے بعد پنجاب کی معاشی ترقی کی حکمت عملی میں براہ راست امریکی سپورٹ کے دروازے کھل جائیں گے۔ ایسے لگتا ہے کہ امریکہ کو اب میاں شہباز شریف کی گورننس کے نظام پر یقین ہو گیا ہے کہ وہ کچھ نہ کچھ کرنا چاہتے ہیں۔ بہرحال سابق صدر مشرف کا معاملہ اٹھتے ہی ملکی و غیر ملکی سرمایہ کار اور عام حلقوں میں فکر مندی بڑھ گئی کہ کہیں میاں نواز شریف حکومت کی قومی اداروں سے دوبارہ محاذ آرائی نہ شروع ہو جائے جس سے حکومت کا فوکس اقتصادی ایشوز سے ہٹ جائے۔ ان خدشات کا اثر سٹاک مارکیٹ اور کئی غیرملکی سودوں پر بھی پڑا۔ اب وزیر اعظم چین اور لندن وغیرہ کے دورے پر جا رہے ہیں، انہیں چاہئے کہ جلد سے جلد قوم کو ٹی وی اور ریڈیو پر آ کر اعتماد میں لیں۔ انہیں یقین دلائیں کہ حکومت اکنامک گروتھ کے لئے اپنے شریک کار نہیں بدلے گی۔ اس کے ساتھ ساتھ وفاقی وزیر خزانہ محمد اسحاق ڈار، وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال اور وزیر پانی و بجلی خواجہ آصف کراچی سے لے کر لاہور ، پشاور اور کوئٹہ جا کر صنعت و تجارت اور زراعت کے ایوانوں اور نمائندوں سے ملاقاتیں کریں، ان کے خدشات دور کریں، انہیں بتائیں کہ حکومت عید سے قبل ان کے کافی سارے مسائل حل کرنے کی پوزیشن میں آ جائے گی لیکن اگر توجہ دوسرے ایشوز پر زیادہ رہی تو اس کا فائدہ کم اور نقصان زیادہ مسلم لیگ کی حکومت کو ہو سکتا ہے جبکہ پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے آئی ایم ایف کے حکام بھی اپنا موڈ بدل سکتے ہیں۔ اگر کسی بھی وجہ سے آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات طے نہ ہوئے یا انہوں نے مزید چند ماہ نیا قرضہ دینے میں تاخیر کر دی (یا معذرت کر دی) تو اس سے فنی نقطہ نظر سے ڈیفالٹ کی صورتحال پیدا ہو سکتی ہے جس کے اثرات ہمارے لئے پریشان کن ہو سکتے ہیں۔ اس وقت تو حقیقی حالات یہ ہیں کہ پاکستان کو اگلے ڈیڑھ دو ماہ میں 4 سے 5ارب ڈالر کا قرضہ چاہئے اگر یہ معاملہ لٹک گیا تو پھر ہمارے پاس زرمبادلہ کے ذخائر چار سے چھ ہفتوں کے لئے رہ جائیں گے۔ ایسے خدشات کا اظہار اب اسلام آباد میں کئی جگہ کیا جا رہا ہے جبکہ دوسری طرف کراچی کے حالات بہتر بنانے کے لئے وفاقی اور صوبائی حکومت کو مل کر کام کرنا ہو گا۔ کراچی عملاً پاکستان کی معیشت کی شہ رگ ہے اس کا گلا وقتاً فوقتاً ملک دشمن عناصر کی طرف سے دبایا جاتا ہے تاکہ پاکستان میں ملکی و غیر ملکی سرمایہ کار یہاں اپنے کاروبار کو توسیع نہ دے سکیں لیکن اس کے باوجود حیران کن بات یہ ہے کہ پچھلے چند سالوں میں پاکستان میں نجی شعبہ میں امریکی سرمایہ کاری بڑھی ہے اور اب اگر ہم نے سیکرٹری خارجہ جان کیری کی افغانستان اور بھارت کے حوالے سے کافی ساری توقعات پوری کر دیں تو پھر یہ سرمایہ کاری مزید بھی بڑھ سکتی ہے۔ دوسری طرف آئی ایم ایف کے حکام چاہتے ہیں کہ پاکستان میں ریٹیل جنرل سیلز ٹیکس (آر جی ایس ٹی) کا نفاذ مزید تاخیر کے بغیر ہر سطح پر کر دیا جائے۔ اس ٹیکس کے لئے سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر محبوب الحق نے 1980ء کی دہائی میں بڑی کوشش کی تھی۔ اس وقت وزیر اعلیٰ پنجاب میاں نواز شریف کی صوبائی حکومت نے اس کی شدید مخالفت کی تھی۔ اس کے بعد سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں دوبارہ اس ٹیکس کے مکمل نفاذ کی کوشش کی گئی لیکن وزیر اعظم شوکت عزیز نے ایم کیو ایم اور مسلم لیگ (ن) کی مخالفت اور سیاسی جماعتوں کے بھرپور دباؤ کے بعد یہ فیصلہ واپس لے لیا۔ اس وقت پیپلز پارٹی نے بھی بزنس مینوں کی سپورٹ کی تھی۔ اب حالات وہ نہیں رہے اب تو حکومت کے اندر اور باہر تمام سیاسی جماعتوں کو ٹیکسوں کی بنیادوسیع کرنے کے لئے مثبت ردعمل کا اظہار کرنا ہو گا ورنہ معاشی حالات میں بہتری کم بلکہ مشکلات میں اضافہ ہو سکتا ہے۔