انٹرنیشنل آڈیٹر کی اوورسیز پاکستانیز کیلئے ووٹنگ سسٹم میں خطرات کی نشاندہی

June 17, 2021

اسلام آباد (انصار عباسی) ایک بین الاقوامی آڈٹ کمپنی نے بتایا ہے کہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کیلئے بنایا گیا موجودہ iVoting (آئی ووٹنگ) نظام ووٹ کی رازداری کے متعلق آئینی ضروریات کو پورا کرتا ہے اور نہ ہی الیکشن کمیشن اس بات کی ضمانت دے پائے گا کہ اس نظام کے ذریعے حاصل ہونے والے نتائج وہ پسند ظاہر کر پائے گا جس کا ووٹر نے انتخاب کیا ہے۔

تجزیے، ڈیزائن اور اوور سیز پاکستانیز کیلئے انٹرنیٹ ووٹنگ کی سہولت پر عملدرآمد کیلئے ہسپانوی کمپنی Minsait کی جانب سے حکومت کیلئے کیے گئے تھرڈ پارٹی آڈٹ سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ نادرا کے زیر استعمال ٹیکنالوجیز پرانی اور زد پذیر ہیں۔

انٹرنیٹ ہیکرز ان کا غلط استعمال کر سکتے ہیں۔ موجودہ نظام بہتر بنانے کے باوجود بھی آئی ووٹنگ ایک پرخطر معاملہ ہے کیونکہ رپورٹ میں لکھا ہے کہ نتیجے میں بننے والا نظام موجودہ نظام کے مقابلے میں زیادہ بہتر ہو سکتا ہے لیکن یہ ووٹروں اور امیدواروں کو اس بات کی ضمانت نہیں دے سکتا جس کے وہ مستحق ہیں۔

رپورٹ کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ آئی ووٹنگ کو کس طرح بیرونی اور اندرونی حملوں (مثلاً ہیکرز اور سسٹم ایڈمنسٹریٹرز) سے محفوظ رکھا جا سکے۔ اس نظام کیلئے ضروری ہے کہ اس بات کو یقینی بنائے کہ ووٹ رازداری سے کاسٹ کیا گیا ہے اور اس میں کوئی تھرڈ پارٹی کا تعلق نہیں، بشمول سسٹم ایڈمنسٹریٹر یا ممکنہ ہیکرز؛ کیونکہ یہ لوگ ایسے روایتی سیکورٹی انتظامات کو توڑ دیتے ہیں جو ووٹنگ سسٹم کو محفوظ رکھنے کیلئے ہوتے ہیں۔

رپورٹ میں نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ مفصل جائزہ لینے کے بعد آڈٹ ٹیم اس بات سے اتفاق کرتی ہے کہ یہ نظام اپنی موجودہ حالت، جس میں یہ Minsait کو فراہم کیا گیا ہے، میں ووٹ کی رازداری کی آئینی شرط کو پورا نہیں کرتا، ووٹروں کی رازداری بھی نہیں رہے گی، اور الیکشن کمیشن بھی اس بات کی ضمانت نہیں دے پائے گا کہ اس نظام کے ذریعے حاصل ہونے والے نتائج ووٹر کی پسند کا اظہار کرتے ہیں یا نہیں۔

231؍ صفحات پر مشتمل رپورٹ، جو حال ہی میں حکومت کو جمع کرائی گئی ہے، میں ہسپانوی کمپنی نے سختی کے ساتھ تجویز دی ہے کہ موجودہ نظام کو کسی بھی الیکشن میں استعمال کرنے سے قبل اسے اپ گریڈ کیا جائے۔

بہتری پر عملدرآمد کے وقت کا انحصار اس بات پر ہوگا کہ کیا حکمت عملی اختیار کی جاتی ہے لیکن نئے سرے سے نیا سسٹم بنانے میں ڈیڑھ سے تین سال لگ سکتے ہیں جس میں 15؍ سے 30 انجینئرز ہوں اور اس معاملے میں ان کی اہلیت، ہنر، ٹیم کا حجم اور سابقہ تجربہ بھی اہمیت کا حامل ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ نتائج اخذ کرنے میں 6 ہفتوں کا وقت لگا ہے جس میں دستاویزات کا مطالعہ، اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ ملاقاتیں اور ان سے سوالات، سورس کوڈ کا جائزہ لینا اور نادرا کی جانب سے فراہم کردہ نظام پر تجربات کیے گئے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگرچہ نادرا اور الیکشن کمیشن نے مطلوبہ معلومات فراہم کیں لیکن مزید مفصل دستاویزات ہوتیں تو اس نظام کو سمجھنے میں بہتر مدد ملتی۔

رپورٹ می بتایا گیا ہے کہ موجودہ نظام سے یہ معلوم نہیں ہو پائے گا کہ اوور سیز پاکستانیز نے جو ووٹ کاسٹ کیا وہ واقعی ان کی پسند کے امیدوار کا تھا، یا پھر اس کی گنتی ویسے ہی ہوئی جیسے یہ کاسٹ کیا گیا۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ نظام میں ووٹر کی رازداری کو مختلف مقامات پر ختم کیا جا سکتا ہے۔

یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اس نظام میں سرور ٹیکنالوجی اور دیگر عناصر پرانے ہیں، کئی خرابیاں ہیں، ووٹنگ کیلئے کی مینجمنٹ غیر مناسب ہے، انکرپشن کا عمل غیر موثر ہے، ہومو مارفک انکرپشن استعمال نہیں کی گئی، ڈیجیٹلی کسی بھی طرح کی معلومات کے نشانات نہیں، اور اس نظام کا آڈٹ بھی یقینی نہیں بنایا جا سکتا۔

آئینی ضروریات کے مطابق اور ووٹر کی رازداری کو برقرار رکھنے کیلئے بنایا جانے والا سسٹم تیار کرنے کیلئے ہسپانوی کمپنی نے تجویز دی ہے کہ رپورٹ میں دیے گئے روڈ میپ کے مطابق نظام کو بہتر بنایا جائے، فہرست میں دیے گئے تمام پہلوئوں پر عمل کیا جائے، کسی بھی ایک یا زیادہ آئٹمز پر عمل نہ کیا گیا تو سامنے آنے والا نظام موجودہ نظام کے مقابلے میں زیادہ لچکدار ثابت ہوگا لیکن اس کے باوجود یہ نظام ووٹروں اور امیدواروں کو وہ فراہم نہیں کر پائے گا جس کے وہ مستحق ہیں۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ووٹر رجسٹریشن کے نظام کو اپ گریڈ کیا جائے، ویب لوجک سرور، آپریٹنگ سسٹم، ڈیٹابیس وغیرہ کو بہتر بنایا جائے، اگرچہ ووٹر کی رجسٹریشن کا معاملہ ووٹر کی رازداری سے زیادہ اہم نہیں ہے لیکن یہاں بھی جعلسازی کا خطرہ موجود ہے، لہٰذا معلومات کی ساکھ اور خدمات کی فراہمی میں لچک انتہائی اہمیت کی حامل باتیں ہیں۔

یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ رازداری کیلئے بنائے گئے بلاک چین اور ووٹ سگنیچرز کتنے محفوظ ہیں، اس کیلئے ایک ٹیسٹ کیا جائے کہ ووٹر کی رازداری سامنے لائے بغیر دیکھا جائے کہ ووٹ بیلٹ باکس تک پہنچا یا نہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ الیکشن کے پورے نظام کی ملکیت الیکشن کمیشن کے پاس ہے، جبکہ نادرا اور دیگر ادارے خدمات فراہم کرنے والے (سروس پرووائیڈرز) ہیں۔

اس سوچ کے ساتھ، تجویز ہے کہ الیکشن کمیشن ایسے وسائل تیار کرے جو آئی ووٹنگ کے عمل میں اہم سمجھے جاتے ہیں۔ قانون سازی میں بھی تبدیلی کی تجویز دی گئی ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ الیکشن ایکٹ میں بتایا گیا ہے کہ کسی بھی ووٹر کے حقوق ضبط نہیں کیے جائیں گے۔ آڈٹ ٹیم سمجھتی ہے کہ بیرون ممالک میں مقیم ووٹروں کیلئے ایک ہی دن اور ایک ہی وقت پر ووٹنگ کا انعقاد کرانے سے ایسے ووٹروں کا حق مارا جائے گا جو آسٹریلیا یا امریکا جیسے ممالک میں مختلف ٹائم زون میں رہتے ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کئی ایسے ممالک ہیں جو بیرون ممالک میں مقیم اپنے شہریوں کو 5؍ سے 14؍ دن کا وقت دیتے ہیں اور وہ مختلف مقامات سے ووٹ کاسٹ کر سکتے ہیں۔ تجویز دی گئی ہے کہ موجودہ قانون سازی پر نظر ثانی کی جائے تاکہ بیرون ممالک میں مقیم افراد کیلئے ووٹنگ کا دورانیہ بڑھایا جائے۔