انخلا میں سست روی کا امریکی عندیہ!

June 24, 2021

افغانستان سے غیرملکی افواج کے مکمل انخلا کی آخری تاریخ اگرچہ تاحال گیارہ ستمبر ہی بتائی جا رہی ہے مگر طالبان کی بڑھتی ہوئی عسکری کارروائیوں اور 50اضلاع پر کنٹرول حاصل کرنے کے دعووں کے تناظر میں صورت حال گمبھیر محسوس ہورہی ہے۔ امریکی محکمہ دفاع نے عندیہ دیا ہے کہ افغانستان سے جاری غیرملکی افواج کے انخلا کی رفتار کم کی جا سکتی ہے۔ امریکی حکام کے گزشتہ ہفتے کے بیان کے مطابق اگرچہ نصف انخلا مکمل ہو چکا ہے تاہم منگل کے روز وزارتِ دفاع کے ترجمان نے جو بیان دیا، اس سے واضح ہے کہ طالبان ضلعی مراکز پرحملے کر رہے ہیں اور تشدد، جو پہلے ہی بہت زیادہ ہے اس میں اضافہ ہورہا ہے۔ بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ درپیش صورتحال کے باعث انخلا کی رفتار تبدیل کرنے یا کسی ہفتے یا دن انخلا روکنے کی ممکنہ ضرورت مدِنظر رکھتے ہوئے پروگرام میں لچک رکھتے ہوئے مستقل یا روزانہ کی بنیاد پر زمینی صورت حال کا جائزہ لیا جارہا ہے۔ افغانستان میں اقوامِ متحدہ کے امن مشن کے سربراہ کی جانب سے بھی امریکہ اور اتحادی افواج کے انخلا کے دوران طالبان کی جنگجو کارروائیوں اور ان کے نتائج پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔ دوسری جانب ترجمان طالبان کے دعوے کے بموجب طالبان نے افغانستان اور تاجکستان کی مرکزی سرحدی راہداری پر قبضہ کر لیا ہے۔ مئی میں امریکی افواج کے حتمی انخلا کے آغاز کے بعد شیر خان پورٹ کے علاقے اور تاجکستان سے ملحقہ تمام چیک پوسٹوں پر قبضے کو طالبان کی سب سے بڑی کامیابی کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔ جبکہ کابل حکومت اور طالبان کے درمیان امن مذاکرات تعطل کے شکار ہیں۔ مقامی ذرائع ابلاغ اگرچہ ملک بھر کے درجنوں اضلاع پر قبضے کی کشمکش میں سرکاری فوجوں سے اسلحہ اور گولہ بارود چھینے جانے اور بڑی تعداد میں سرکاری فوجیوں کے ہلاک و زخمی ہونے کی اطلاعات دے رہے ہیں مگر کابل حکومت کے ترجمان کا دعویٰ ہےکہ مذکورہ اضلاع کو جنگی حکمتِ عملی کے تحت خالی کیا گیا ہے۔ یہ ایسی کیفیت ہے جس پر کانگریس سمیت اہم امریکی حلقوں میں اظہار تشویش کے ساتھ کہا جارہا ہے کہ افغانستان سے انخلا کے ضمن میں صدر جوبائیڈن نے وزیراعظم پاکستان سے رابطہ نہیں کیا۔ ری پبلکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے سینیٹر لنزے گراہم کا تو یہاں تک کہنا ہے کہ پاکستان سے رابطہ نہ کرنے کا جوبائیڈن کا فیصلہ عراق میں کی گئی غلطی سے بھی بڑی غلطی ہوگی۔ دوسری جانب وزیراعظم پاکستان عمران خان نے امریکی جریدے واشنگٹن پوسٹ میں شائع اپنے مضمون کے ذریعے عالمی برادری کو افغان امن عمل کے حوالے سے اسلام آباد کے خدشات و ترجیحات سے آگاہ کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان امریکہ کے ساتھ امن عمل کیلئے شراکت دار بننے کو تیار ہے لیکن اپنی سرزمین پر امریکی فوجی اڈوں کی اجازت دینے کا متحمل نہیں ہو سکتا کیونکہ اس عمل سے پاکستان دوبارہ دہشت گردوں کا ہدف بن سکتا ہے۔ یہی بات وہ دو دن قبل ایک انٹرویو میں قطعیت سے کہہ چکے ہیں۔ تحریر کے مطابق اسلام آباد کسی بھی ایسی حکومت کیساتھ کام کرنے کیلئے تیار ہے جسے افغان عوام کا اعتماد حاصل ہو۔ عمران خان کے مضمون میں خطے میں امن و ترقی کے لئے ایک نئے علاقائی میثاق کی ضرورت اجاگر کی گئی ہے جو بطور خاص خطے کے ملکوں اور عالمی برادری کی توجہ کی متقاضی ہے۔ یہ ضرورت اقوام متحدہ کے اس انتباہ سے مزید ابھر کر سامنے آتی ہے کہ افغانستان میں لڑائی بڑھنے سے دور و نزدیک کے بہت سے ملکوں پر اثر پڑے گا۔ ماضی میں افغانستان سمیت کئی ملکوں میں بڑی طاقتوں کی مہم جوئیوں کا سبق بھی یہ ہے کہ پاکستان کسی جال میں نہ آئے، تمام امکانات کے لئے تیار رہے اور تمام شراکت داروں پر واضح کردے کہ امریکہ کی واپسی کے بعد قیامِ امن کی ذمہ داری سب کو مل کر نبھانی ہوگی۔