پاکستان میں ای پروکیورمنٹ پر عمل نہ ہونے سے سالانہ 300 ارب کا نقصان

June 24, 2021

اسلام آباد (مہتاب حیدر) پاکستان میں ای۔پروکیورمنٹ پر عمل درآمد نا ہونے سے سالانہ 200 سے 300 ارب کا نقصان ہورہا ہے۔ پی پی آر اے حکام کا کہنا ہے کہ جنوری، 2022 کو پائلٹ منصوبہ شروع ہوگا، مارچ 2022 تک تمام وزارتوں میں ای۔پروکیورمنٹ شروع ہوگی۔ تفصیلات کے مطابق، پاکستان میں سرکاری شعبے کی سالانہ پروکیورمنٹ 60 سے 70 ارب ڈالرز ہے اور یہ ای۔پروکیورمنٹ پر عمل درآمد کے بغیر جاری ہے۔ جس کے نتیجے میں مسابقتی ماحوال رک گیا ہے اور صرف چند شرکا ہی بولیوں میں حصہ لے رہے ہیں۔ بولیوں کے موجودہ عمل میں بڑی حد تک جعل سازی ہوتی ہے، جس کے ذریعے چند منظور نظر افراد ہی بھاری منافع اور کمیشن حاصل کرتے ہیں، جس کے نتیجے میں حکومت کو سالانہ 200 سے 300 ارب کا نقصان ہوتا ہے۔ بیرون ملک مقیم ایک پاکستانی شہری مبشر جس نے ایک کنسٹرکشن کمپنی میں سرمایہ کاری کی تھی، اس نے پرائم منسٹر پورٹل پر لکھا ہے کہ وزیراعظم کو 12 دسمبر، 2019 کو سیکرٹری وزارت ہائوسنگ اینڈ ورکس نے غلط بریف کیا تھا کہ پاکستان پبلک ورکس ڈپارٹمنٹ، اسلام آباد (پی ڈبلیو ڈی) میں ای۔پروکیورمنٹ کا نفاذ ہوگیا ہے۔ حالاں کہ آج کے حقائق یہ ہیں کہ پی ڈبلیو ڈی میں کوئی ای۔پروکیورمنٹ شروع نہیں ہوئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ زیادہ تر وفاقی محکمے پی ٹی آئی کے منشور اور وزیراعظم عمران خان کو نظرانداز کررہے ہیں اور ای۔پروکیورمنٹ پر عمل درآمد نہیں کررہے۔ انہوں نے یاددہانی کروائی کہ 2018 کے عام انتخابات سے قبل پی ٹی آئی نے اپنے منشور میں حکومتی پروکیورمنٹ میں اصلاحات لانے کا کہا تھا تاکہ کرپشن کا خاتمہ کیا جاسکے۔ تاہم، اب تک وہی پرانا نظام جاری ہے اور اس ضمن میں کوئی اصلاحات نہیں ہوئی۔ تقریباً 3 برس ہوگئے ہیں مگر ای۔پروکیورمنٹ اب تک سرکاری کمپنیوں میں شروع نہیں ہوئی ہے۔ انہوں نے موجودہ طریقہ کار کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ زیادہ تر ٹینڈر دستاویزات ٹینڈر کھلنے سے ایک یا دو روز قبل جاری کیے جاتے ہیں اور اس مدت کو جان بوجھ کر مختصر رکھا جاتا ہے تاکہ کانٹریکٹرز بےزار ہوجائیں۔ ٹینڈر دستاویزات چند منظور نظر یا بااثر افراد کو دیئے جاتے ہیں، یہاں عہدیداروں اور کانٹریکٹرز میں منظم طریقہ کار موجود ہے۔ مختلف اعتراضات لگا کر ٹینڈر دستاویزات مسترد کیے جاتے ہیں تاکہ شرکا زیادہ نا ہوں۔ ان کا کہنا تھا کہ محکموں کی ترجیح ہوتی ہے کہ مسابقتی عمل سے بچا جائے۔ کانٹریکٹرز کو یہ فیصلہ کرنے کی اجازت دی جاتی ہے کہ کونسا کانٹریکٹر یہ کانٹریکٹ لے گا۔ بعض اوقات ٹینڈر کی شرائط تبدیل کی جاتی ہیں، جب کہ بینک ضمانت کے بغیر ایڈوانس متحرک رقوم جاری کی جاتی ہیں اور بعض اوقات ٹینڈر بولیوں پر بھی نظرثانی کی جاتی ہے، انہیں تبدیل یا تکنیکی طور پر تبدیل کیا جاتا ہے۔ انہوں نے اسی طرح کے ایک کیس کی شکایت نیب میں بھی کی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ کوئی ادارہ جاتی احتساب نہیں ہے، پرکیورمنٹ قوانین کی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں، جب کہ رشوت کی شرح ٹینڈر کے اخراجات کا 20 فیصد تک اور بعض اوقات 50 فیصد تک رکھا جاتا ہے۔ مبشر کا کہنا تھا کہ غالباً این ایچ اے واحد ادارہ ہے جہاں مراد سعید نے انفرادی حیثیت میں ای۔پروکیورمنٹ سوفٹ ویئر نظام کا انتظار نہیں کیا اور تمام بولیوں کے دستاویزات اس کی ویب سائٹ پر رکھ دیئے، اس طرح مسابقتی فضا قائم ہوئی اور عمل میں شفافیت لائی گئی۔ مبشر نے پی پی آر اے کو بھی ہدف تنقید بنایا اور کہا کہ یہ ایک اور سفید ہاتھی ہے، جس نے ای۔پروکیورمنٹ میں کوئی پیش رفت نہیں کی ہے، جس کے نتیجے میں یہ بالواسطہ سرکاری خزانے کو ضائع کروارہا ہے اور اس نے اپنے ریگولیٹری افعال روکے ہوئے ہیں۔ اس نمائندے نے پی پی آر اے کے اعلیٰ حکام سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ جنوری، 2022 سے تعلیم اور صحت کی وزارتوں میں ای۔پروکیورمنٹ کا پائلٹ منصوبہ شروع ہوجائے گا ، جس کے بعد یہ سوفٹ ویئر مارچ، 2022 تک تمام وزارتوں میں یہ سوفٹ ویئر لگادیا جائے گا۔