پُرسے کے لیے جائیں ،کھانے کے لیے نہیں

June 30, 2021

ہم کب تک اس جہالت میں زندہ رہیں گے

میت کاندھوں پہ بعد میں اٹھتی ہے۔ دیگ میں چمچے پہلے کھڑک جاتے ہیں۔

لواحقین کی دھاڑیں کم نہیں ہوتیں کہ "مسالہ پھڑا اوئے" کی صدائیں پہلے بلند ہو جاتی ہیں۔

قبر پر پھول سجتے نہیں کہ کھانے کے برتن پہلے سج جاتے ہیں

آنکھوں میں آنسو خشک نہیں ہو پاتے کہ عزیز و اقارب کے لہجے پہلے ہی خشک ہو جاتے ہیں۔ مرنے والا تو چلا جاتا ہے۔ لیکن یہ کیسا رواج ہے کہ جنازہ پڑھنے کے لیے آنے والے اس کی یاد میں بوٹیوں کو چَک مارتے دیگی کھانے کی لذت کے منتظر ہوتے ہیں؟

فرسودہ روایات ختم کریں۔ یہ کیا طریقہ ہے کہ جنازے پر بھی جاؤ تو ’’روٹی کھا کے آنا؟‘‘ قرب و جوار کی تو بات ہی نہ کریں۔ دوردراز سے آئے ہوؤں کو بھی چاہیے کہ زیادہ بھوک لگی ہے تو کسی ہوٹل سے کھا لیا کریں۔ تہیہ کر لیں کہ آئندہ اگر کبھی کسی جنازے میں شرکت کرنا پڑی تو خواہ ہزار کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے کیوں نہ جائیں۔ عزیز و اقارب ہی کیوں نہ کھانا لائیں، میت والے گھر سے کھانا نہیں کھانا۔

خوشی، غمی ہر انسان کے ساتھ ہے۔ لیکن روایات کو بدلیں۔ اس سے پہلے کہ معاشرتی نظام ہی لپیٹ میں آ جائے۔