تہذیبی یک رنگی

July 03, 2021

دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں میں میسو پوٹیمیا، بابل یا چین سے آگے بڑھیں تو ہمیں یونانی، ہندی، اور مصری تہذیبوں کا مطالعہ کرنا پڑتا ہے۔ یہ اپنے اپنے خطوں سے جڑی ہوئی تہذیبیں ہیں جس طرح عرب تہذیب مصری تہذیب کے بغیر ادھوری ہے یا مغربی تہذیب قدیم یونانی تہذیب کی ترقی یافتہ شکل ہے، اسی طرح ہم لاکھ انکار کریں، پاکستانی تہذیب اپنی اصل میں الگ سے کوئی چیز نہیں، اس کی جڑیں ہندی تہذیبی اقدار میں پیوست ہیں۔ ہم پاکستانیوں کو یہ حقیقت کبھی نہیں بھولنی چاہئے کہ ہمارا ملک کسی عرب یاترک خطے میں قائم نہیں ہوا ، یہ سرزمین ِہند ہی ہے جس میں اس ملک پاکستان کی جڑیں پیوست ہیں۔ اس خطے میں مذہبی ، نسلی، لسانی یا فکری رنگا رنگی جس قدر بھی رہی ہولیکن سچ تو یہ ہے کہ جس طرح ہندی و سندھی تہذیب اصل میں ایک ہیں اسی طرح پاکستانی تہذیب ہندی تہذیب سے الگ کوئی چیز نہیں۔

مذہب کے نام پرتقسیم اگر پاکستانیت ہے تو پھر ہم سےبھی زیادہ مسلمان ہندوستان میں کیا کر رہے ہیں؟ وہ خود کو ہندی یا انڈین کیوں کہتے ہیں،جبکہ کمیونل مسئلہ ہی ان کا تھا؟ جو خطے پاکستان میں شامل ہوئے یہاں تو اس نوع کا مینارٹی مسئلہ ہی نہیں تھا یہاںتو پہلے سے مسلمان طاقتور میجارٹی میں تھے جبکہ پاکستان موومنٹ تو چلی ہی مسلم مینارٹی کو تحفظ دینے کے نام پر تھی، وہ جو اصل مینارٹی تھے وہ تو آج بھی ہندو میجارٹی کے رحم و کرم پر ہیں تو پھر درویش کا عاجزانہ سوال ہے کہ اہل نظر غور فرمائیں کہ ہم نے کیا کھویا کیا پایا؟ ہم یکجہتی کی مشترکہ بنیادیں تلاش کرنے کےلئے اب بھی سرگرداں ہیں مگربلوچ، پٹھان، سندھی اورپنجابی کی گہری کھائیاں عبور ہونے کا نام نہیں لے رہی ہیں۔ پون صدی اس جدوجہد میں ضائع ہوگئی مگر یہ تضادات نسلی سے مذہبی اور مذہبی سے لسانی صورتوں میں آج بھی قائم و دائم ہیں۔

آج ہمیں فخر ہے کہ ہم نے اردو زبان کو پاکستان کی قومی زبان کی حیثیت سے منوا لیا ہے لیکن کیا کبھی ہم نے غور کیا کہ اردو کی جنم بھومی ان چاروں خطوں یا صوبوں میں کہیں ایک جگہ بھی نہیں ہے بلکہ اس کی جڑیں انڈین دارالحکومت دہلی یا پھر انڈین ریاست اترپردیش میں ہیں۔ اس پس منظر میں یہ ہمارے ان چاروں خطوں کے لئے ایک غیر ملکی زبان ہے ،جسے کسی طرح بھی ان چاروںصوبوں کی مادری زبان قرار نہیں دیا جاسکتا بلکہ اس حوالے سے بھی ہم انڈین سولائزیشن کے مرہونِ منت ہیں جس نےہماری یکجہتی یا رابطے کی قومی زبان کو جنم دیا۔آج حقائق سے بے خبر کچھ لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ ہمیں پاکستانیت کو فروغ دینے کے لئے غیرملکی زبان اورلباس سے جان چھڑا لینی چاہئے۔کیا ان سے یہ پوچھا جاسکتا ہے کہ اگر ان کو غیر ملکی زبان یا لباس سے اتنی نفرت ہے اور وہ ترک یا عرب تہذیب یا رہن سہن کو ہی اپنی تہذیب اور رہن سہن خیال کرتے ہیں تو پھر سکھائیں اپنی نئی نسلوں کو عربی یا ترکی زبانیں اور پہنائیں ان کو عرب یا ترک ملبوسات۔ ویسے ترکوں نے تو خود مغربی لباس اور رہن سہن کو بالعفل اپنا رکھا ہے ان کے عوام مغربی تہذیب سے اس قدر جڑے ہوئے ہیں جس قدر ہمارے عوام ہندوستانی رہن سہن، رسم و رواج اور تہذیب اقدار کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ یہ شلوار قمیض عربوں یا ترکوں کا پہناوا نہ کبھی تھا اور نہ آج ہے یہ تو خالص اس ہندوستانی سرزمین اور رہن سہن کا حصہ ہے۔شلوار، دھوتی، پاجاما یا کرتہ توبلالحاظ عقیدہ مسلمان بھی زیبِ تن کرتا تھا اور ہندوں کا بھی لباس یہی تھا۔ شاہ فیصل یا اتاترک کا تو یہ لباس نہیں تھا تو پھر آپ کس برتے پر کہہ رہے ہیں کہ ہمیں دوسروں کی نقالی نہیں کرنی چاہئے۔

آپ کس طرح یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہماری فلم انڈسٹری کی بربادی انڈین فلموں کی نقالی کےباعث ہے، آپ نے کس طرح کی اسلامی فلمیں بنوائی ہیں یا بنوانا چاہتےہیں؟ پچھلی طویل دہائیوں سے جس طرح انڈین فلم انڈسٹری پوری دنیا میں چھائی ہوئی ہے کیا آپ اس سے بے خبر ہیں بشمول عرب ورلڈ پوری دنیا میں انڈین فلموں کی جو مانگ، مقبولیت یا اثر آفرینی ہے آپ خوابوں کی دنیا میں ہی شاید اس کا مقابلہ کر سکتے ہیں حقائق کی دنیا میں تو ہماری اپنی پاکستانی، کیا پرانی کیا نئی نسلیں انہی کی زلفوں کی اسیر ہیں۔ ہمارے لوگوں کو جس قدر انڈین آرٹسٹوں کے نام ازبر ہیں اس قدر عرب یا ترک کیا خود اپنےلوگوں کے نام بھی معلوم نہیں ہیں۔