دلیپ کمار کی اداکاری خود میں ایک صنف ہے

July 08, 2021

فہد محمود

یوسف خان جس کو دنیا دلیپ کمار کے نام سے جانتی ہے اس کو بیسویں صدی کی سب سے بڑے فنکار ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ بیسویں صدی کے دوران ریڈیو، ٹی وی، فلم کے میڈیم نے بے پناہ ترقی کی منازل طے کیں۔ اس دوران دنیا بھر میں لا تعداد فنکاروں نے اپنے فن اداکاری کے ذریعے ان منٹ نقوش چھوڑے۔ اگر صرف اس خطے کی بات کی جائے جس میں پاکستان اور ہندوستان آباد ہیں اس میں بھی سینکڑوں اداکاروں نے فن اداکاری کی مختلف جہتوں میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا لیکن جو نام ، مقام اور عزت دلیپ کمار کے حصے میں آئی اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔

یوسف خان کی اداکاری میں فن اداکاری کے تمام نقوش درست تناسب سے ملتے ہیں۔دلیپ کمار کی اداکاری خود میں ایک صنف ہے۔ ان کو بنیادی طورپر میتھڈ اداکار کہا جاتا ہے۔ میٹھڈ ایکٹنگ کی بنیاد روسی تھیٹر سے وابستہ فنکار کونسٹینٹن سٹینس لاوسکی نے رکھی۔ اس طریقہ کار میں اداکار کردار کے حوالے سے اپنے ذاتی تجربات کی منازل طے کرتا ہے۔ اس کے بعد اداکار اپنے تجربات کی یاداشت کے ذریعہ سے وہ جذبات اور احساسات پیدا کرتا ہے جو کہ کردار کا تقاضا ہوتے ہیں۔ جذبات کی آمد لا شعور کے ذریعہ سے ہوتی ہے۔

دلیپ کمار کی کردار نگاری کا بغور جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ کردار میںنہیں ڈھلے بلکہ کردار دلیپ کمار کے پیرائے میں اتر چکا ہے۔ اس لیے ان کے کرداروں میں ان کے مکالمے بولنے کا انداز،بدن کا مینرازم،حرکات و سکنات اور چہرے کے ابھرنے والے تاثرات سب کردار کے اپنے جزئیات دکھائی دیتے ہیں۔دلیپ کی اداکاری کا سایہ بولی وڈ اور لولی وڈ کے تمام اداکاروں کے کرداروں پر واضح دکھائی دیتا ہے۔ زیادہ تر اداکار اس حقیقت کا برملا اظہار کر چکے ہیں کہ ان کی اداکاری کی انسپائریشن دلیپ ہیں۔ جن اداکاروں نے اس حقیقت کو تسلیم نہیں کیا تو ان کی سکرین پرفارمنس اس بات کی گواہی بن جاتی ہے وہ دلیپ کوکاپی کر رہے ہیں۔

دلیپ کی اداکاری کا سب سے اہم پہلو کنٹرول ہے۔ وہ کردار کو اپنے قابو میں رکھتے ہیں۔ ان کا پرفارم کر دہ کردار کہانی، منظر، مکالمے اور پرفارمنس سے باہر نکلتا دکھائی نہیں دیتا۔ دلیپ کے کردار مضبوط چٹا ن کی طرح کہانی کے سینے پر جم کر کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔ کہانیاں ان کے کرداروں کی پر فارمنس سے پھلتی پھولتی اور آگے بڑھتی دکھائی دیتی ہیں۔ قابو یا کنٹرول کی خصوصیات ان کی اداکاری کی جان تھی۔ دلیپ نہ ہی پرفارمنس کو کرنے کی جلدی میں ہوتے ہیں اور نہ ہی اس کو دیر سے انجام دیتے ہیں۔اس لیے ان کے پرفارم کردہ کرداروں کے مناظر میں ساتھی فنکار وں کے لیے بھی پرفارمنس کا بھر پور مارجن ملتا ہے۔

دلیپ کی پرفارمنس میں دوسرا اہم پہلو جاذبیت ہے۔وہ اپنی پرفارمنس کے ذریعے شائقین کی توجہ جذب کر لیتے ہیں۔ شائقین ان کی پرفارمنس کے سحر میں کھو جاتے ہیں۔ وہ اپنی پرفارمنس کے ذریعہ ایسا ماحول پیدا کرتے کہ ناظرین کی حس جمالیات تسخیر ہو جاتی۔ دلیپ کی پرفارمنس کا تیسرا پہلو ارتقاء ہے۔ دلیپ کی اداکاری میں کردار جامد دکھائی نہیں دیتا بلکہ وہ کہانی کی بڑھوتی کے ساتھ نشوو نما پاتا نظر آتا ہے۔ اس کا مینرازم اور جذباتی کیفیات مناظر ، حالات اور پھر کرداروں کے ساتھ بدلتی ہیں۔ دلیپ کے کردار اپنی اصلیت کو برقرار رکھتے ہوئے مناظر کے تقاضوں اور ضروریات کے مطابق تشکیل پاتے دکھائی دیتے ہیں۔

دلیپ کی آواز ان کا اثاثہ تھی۔ ان کے بولنے کے انداز اور مکالموں کی ادائیگی میں شناخت سنائی دیتی ہے۔ ان کی آواز کی پچ بھی اونچی تھی لیکن وہ اس کے تاثر کو مناظر اور کرداروں کی مناسبت سے کم یا زیادہ کرتے۔ ان کی آواز نے ان کو کردار نگاری میں ہمیشہ ہی مدد فراہم کی۔ ان کی آواز کی یہ خاصیت تھی کہ وہ سنجیدہ اور مزاحیہ دونوں طرز کی اداکاری کے لیے موزوں رہتی تھی۔

چونکہ دلیپ کے کرداروں کا ایک اہم پہلو جذبات تھے اس لیے وہ اپنی آواز کے خدوخال سے ان جذبات میں احساس کا حقیقی رنگ بھر دیتے تھے۔ دلیپ مکالموں کی ادائیگی کے دوران کبھی بھی کوشش کرتے دکھائی نہیں دیے۔ و ہ بولتے وقت اپنے چہرے اور جسمانی حرکات کو صرف اتنا ہی استعمال کرتے جتنا کردار کی ضرورت ہوتی۔ رومانوی کرداروں کو پرفارم کرتے وقت دلیپ کی آواز کی شوخی اور چنچل پن نمایاں رہتا۔

دلیپ کے چہرے کے نقوش خوبصورت تھے۔ان کی خوبصورتی اور شخصیت کی دل آویزی نے ان کی کامیابی میں اہم کردار ادا کیا۔عام حالات میں دلیپ کے چہرے پر ہمیشہ ایک مسکراہٹ رہتی لیکن پرفارمنس کے دوران وہ اس مسکراہٹ کو صرف ضرورت کے وقت ہی استعمال کرتے۔ دلیپ کا چہرہ قدرے بیضوی تھا۔ ان کی ناک کھڑی اور آنکھیں بڑی تھیں۔ دلیپ کے بال گھنے تھے اور ان کی مردانہ وجاہت میں اضافہ کرتے تھے ۔ان کے چہرے کے خدوخال بر صغیر میں بسنے والے افراد کی ترجمانی کرتے ہیں۔

دلیپ کے چہرے اور ان سے پیدا ہونے والے تاثرات نے ان کے پرفارم کر دہ کرداروں میں وہ تاثر قائم کیا جو کہ انمٹ ہے۔مغل اعظم کا جہانگیر شہزادہ ایک آئیکون بن چکا ہے۔اس طرح گنگا جمنا، شکتی،انداز، دیوداس، نیا دور اور مدھومتی کے کرداروں کو لا زوال بنانے میں دلیپ کی اداکاری میں ان کے چہرے کے خدو خال نمایاں رہے۔ دلیپ نے اپنے فنی کیرئیر میں صرف اکسٹھ فلموں میں کام کیا۔ اگرچہ ان کے پرفارم کردہ سب کردار جاندار اور مدتوں یاد رکھے جائیں گے لیکن کچھ کرداروں کو دلیپ کی اداکاری نے ایکٹنگ کی ٹیکسٹ بک کا درجہ دے دیا ہے۔

1955 میںفلم دیوداس میں دیوداس کا کردار دلیپ نے اس خوبی سے پرفارم کیا کہ شائقین کو اس سے محبت ہوگئی۔ یہ کردار عشق میں ناکامی پر نفسیاتی کشمکش میں مبتلا ایک شرابی انسان کا ہے جو کہ شدید ذہنی تکلیف میں مبتلا ہے۔اس کردار میں مکالموں کی ادائیگی ، دلیپ کے دیکھنے کا انداز اور اس کی حرکات نے اداکاری کی نئی جہتوں کوجنم دیا۔1960 میں بننے والی فلم مغل اعظم ہر حوالے سے شاہکار تھی۔ دلیپ کمار نے شہزادہ سلیم کو حقیقت میں سینما کی سکرین تک پہنچا دیا۔

وہ بیک وقت عاشق، باغی بیٹا، مستقبل کا حکمران اور ایک لا ابالی نوجوان دکھائی دیتا ہے۔فلم میں فلمائے گئے کئی مناظر فلمی تاریخ کے بہترین مناظر میں شمار کیے جاتے ہیں۔ رومانس کے حوالے سے دلیپ اور مدھو بالا کے درمیان وہ منظر جس میں کوئی مکالمہ نہیں ہے بلکہ مور کے پر سے تاثر قائم کیا گیا ہے وہ بہترین رومانوی مناظر میں شمار ہوتا ہے۔ اس طرح بادشاہ کے دربار میں بادشاہ اکبر اور شہزادہ سلیم کے درمیان مکالموں کی ادائیگی میں فن اداکاری سے محبت رکھنے والوں کے لیے بہت کچھ موجود ہے۔

957میں بننے والی فلم نیادور کا موضوع آدمی اور مشین تھا۔اس فلم میں دلیپ نے ایک تانگے والے کا کردار نبھایا۔ فلم میں وجنتی مالا کے ساتھ دلیپ کی شوخ اور چنچل پرفارمنس تو بے مثا ل تھی ہی لیکن اس کے جذباتی اور ڈرامائی مناظر نے دلیپ کی اداکاری کا سکہ بالی وڈ میں رائج کردیا۔ بی آر چوپڑا کی اس فلم کوتامل میں بھی پیش کیا گیا۔فلم گنگا جمنا کو 1961میں ریلیز کیا گیا۔ دلیپ نے اس فلم کو پروڈیوس بھی کیا۔ دلیپ کے پرفارم کردہ گنگا کے کردار کے مختلف رنگ تھے۔گنگا کی پرفارمنس کا سکیل دلیپ نے اس طریقہ سے ترتیب دیا کہ بالی وڈ کی سینما کی تاریخ آج بھی اس کردار سے سیکھ رہی ہے۔

یہ کردار ایک بیٹے سے شروع ہو کر کسان، عاشق، مظلوم، ڈاکو اور ایک بڑا انسان بننے کی آرزو لیے ہوئے ایک انسان تک پہنچتا ہے۔ دلیپ کمار نے اس کردار کی تخلیق کے ذریعے اداکاری کا ایک نیا انداز اور معیار متعارف کرایا جو کہ آج بھی مستند ہے۔ دلیپ نے 1982 میں فلم شکتی میں اپنی اداکاری سے ایک نئی تاریخ رقم کی۔ دلیپ نے اس میں امیتابھ بچن کے باپ کا کردار ادا کیا ہے جو کہ ایک پولیس آفیسر بھی ہے۔ فلم کے کئی مناظرمیں دلیپ کی اداکاری دل گرفتہ ہے۔ فلم کے اختتامی مناظر میں دلیپ کی گود میں امیتابھ کا جان دینے کا منظر بالی وڈ کے ناقابل فراموش مناظر میں شامل ہے۔ دلیپ کے پرفارم کردہ ہر کردار کا تجزیہ فن اداکاری کی نئی جہتیں تخلیق کرتا ہے۔