آزاد کشمیر میں ’گالم گلوچ‘ مہم

July 15, 2021

آزادجموں وکشمیر قانون ساز اسمبلی کی اگلے پانچ سال کے لئے انتخابی مہم ’جگت بازی‘ اور ’گالم گلوچ‘ کے آخری مرحلے میں داخل ہوگئی ہے۔ ایک دور ایسا تھا جب کل جموں وکشمیر مسلم کانفرنس، لبریشن لیگ، آزادمسلم کانفرنس، جموں وکشمیر محاذ رائے شماری وغیرہ جیسی خالص کشمیری تشخص کی حامل سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کے مد مقابل ہوتیں۔ ان کے لیڈر تحریک آزادی کشمیر کے حوالے سے اپنے اپنے سنجیدہ منشور پیش کرتے۔ کوئی جہاد کی بات کرتا، کوئی سیز فائر لائن توڑنے کی تحریک چلاتا، کوئی مقبوضہ کشمیر کے عوام پر ہونے والے مظالم کی تفصیلات بتاتا اور آزاد کشمیریوں کو ان کی مدد کے لئے پکارتا۔ مخالف امیدواروں کی کمزوریوں کا ذکر بھی ہوتا مگر ایک دوسرے پر اس طرح کیچڑ نہ اچھالا جاتا جیسا کہ آج کل کا ’ضابطہ اخلاق‘ ہے۔ بھٹو صاحب نے کشمیر کی آزادی کے لئے ’ہزارسالہ جنگ‘ لڑنے کا اعلان کیا اور اسے عملی جامہ پہنانے کے لئے آزادکشمیر میں پہلی مرتبہ پاکستان کی ایک سیاسی پارٹی کی بنیاد ڈالی۔ سردار عبدالقیوم خان نے تحریک آزادی میں پاکستان کی سیاسی آلائشوں کو داخل کرنے کی ڈٹ کرمخالفت کی اور دولائی جیل کی ہوا کھائی۔ تب سے آزادکشمیر کے انتخابات جیتنے کے لئے ایک فارمولا تشکیل پایا اور فتح بالعموم اس پارٹی کو نصیب ہونے لگی جو پاکستان میں برسراقتدار ہو، اسٹیبلشمنٹ کا دستِ شفقت جس کے سر پر ہو اور امیدوار کی ’ذات برادری‘ زوردار ہو۔ اس فارمولے نے سیاست کا رخ بدلا اور جو بھی پارٹی پاکستان میں برسراقتدار آتی کشمیر فتح کرنے کے لئے آزادکشمیر میں اپنی شاخ قائم کرلیتی۔ چنانچہ پیپلزپارٹی کے بعد مسلم لیگ ن قائم ہوئی۔ یہ دونوں پارٹیاں آج آزادکشمیر کی بڑی پارٹیاں مانی جاتی ہیں۔ تحریک انصاف بھی سابقین کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ’بڑی‘ بننے کی کوشش کررہی ہے۔ کل کی انتخابی مہمات میں جو زیادہ تر صدر کے منصبِ جلیلہ کے لئے ہوتی تھیں ، پارٹیوں کے لیڈر خود بھی مسئلہ کشمیر کے ’عالم‘ ہوتے اور ان کے کشمیری مخاطبین بھی عالم نہیں تو ’طالبان‘ ضرور ہوتے۔ کشمیریوں کو آج بھی اپنی تاریخ اور تحریک کا اچھی طرح علم ہے۔ تاہم آج پاکستان سے ووٹ مانگنے کے لئے آزادکشمیر جانے والے لیڈر کشمیریوں کو مسئلہ کشمیر سمجھانے اور آزادی حاصل کرنے کے گر بتانے سے زیادہ پاکستان میں اپنے مخالفین کو غدار ، ملک دشمن، چور، ڈاکو، کرپٹ وغیرہ ثابت کرنے پر اپنی توانائیاں صرف کرتے ہیں۔ یہ سب ’قابلِ احترام‘ معزز اور اندر کی باتیں جاننے والے لوگ ہیں اس لئے سچ ہی بولتے ہوں گے۔ ان کی’ معرکۃ الآرا‘ تقریروں سے پاکستان اور خود ان حضرات کے بارے میں جو تاثر اُبھرتا ہے وہ کشمیریوں کے لئے جو ایک نظریے کے تحت پاکستان سے اپنا مستقبل وابستہ کئے ہوئے ہیں شرمساری کے سوا کچھ نہیں۔ 25 جولائی کو ہونے والے الیکشن میں کون جیتے گا اور کون ہارے گا؟ اس بارے میں تو یقین سے کوئی کچھ کہنے کی ہمت نہیں رکھتا۔ تاہم تحریک انصاف جس نے پچھلے الیکشن میںصرف دو سیٹیں جیتی تھیں، فارمولے کی رو سے سب سے مقبول پارٹی ہے۔ اس نے عوامی رابطہ مہم پراب تک اتنا زور نہیں لگایا جتنا دوسری پارٹیوں کے ارکان اسمبلی اور الیکٹ ایبلز کو توڑنے میں۔ مسلم لیگ (ن) جو بنیادی طور پر مسلم کانفرنس کی بدلی ہوئی شکل ہے۔ پچھلے 5 سال سے حکومت کررہی ہے اور کارکردگی کی بنیاد پر ووٹ مانگ رہی ہے۔ وزیراعظم راجہ فاروق حیدر نے حقیقتاً آزادکشمیر کو مالی خود مختاری دلانے سمیت کئی اچھے کام کئے ہیں جن کے زور پر وہ پی ٹی آئی کے لئے ’ٹروجن ہارس‘ ثابت ہوسکتی ہے۔ پیپلزپارٹی میں کئی تجربہ کار لوگ موجود ہیں جو اپنی سیٹیں جیت سکتے ہیں مگر پانسہ پلٹنے کے لئے اسے مزید محنت کرنا ہوگی۔ مسلم کانفرنس تحریک آزادی کی بانی جماعت ہے۔ چوہدری غلام عباس، سردار ابراہیم خان، سردار عبدالقیوم خان اور سردار سکندر حیات کی موجودگی میں ناقابل شکست تصور ہوتی تھی۔ کشمیری تشخص کی حامل اس جماعت کے کئی اہم لوگ اقتدار کے لئے دوسری جماعتوں کا رخ کرچکے ہیں۔ مسلم کانفرنس آج حکومت بنانے نہیں ، حکومت کا حصہ بننے کے دعوے کے ساتھ انتخابات لڑرہی ہے اور ہوسکتا ہے وزیراعظم عمران خان کے ’وژن‘ کے مطابق اسے حصہ مل بھی جائے۔ جماعت اسلامی کو بھی حصہ بقدر جثہ مل سکتا ہے آزادکشمیر کے بانی صدر غازی ملت سردار محمد ابراہیم خان کے پوتے اور موجودہ رکن اسمبلی حسن ابراہیم آزادجموں وکشمیر پیپلزپارٹی کے پلیٹ فارم سے امیدوار ہیں، ان کا مقابلہ ’اصلی تے وڈی‘ پیپلزپارٹی کے امیدوار سابق صدر اور سابق وزیراعظم سردار محمد یعقوب خان سے ہے۔ نتیجہ دیکھئے کیا ہو!