نام میں کیا نہیں، سب کچھ رکھا ہے

July 25, 2021

ڈاکٹر محمّد علی افضل، اسلام آباد

’’ماشااللہ ! بڑی پیاری بچّی ہے ، کیا نام رکھا ؟‘‘ ’’مشخافتلہ نارتین‘‘ ’’ہیں، کیا… ؟؟‘‘ ہم شش و پنج میں پڑ گئے کہ اگر نام دُہرائیں ،تو کیا تلفّظ عین اُسی طرح ادا کر بھی پائیں گے یا نہیں اور اگر اس کوشش میں یہ نام غلطی سے کسی لفظِ معترضہ میں تبدیل ہوگیا ،تو …بہر حال،ہمّت باندھ کر پوچھ ہی لیا کہ’’ اس کے معنی کیا ہیں؟‘‘’’جنّت میں زمرّد کے پائیں باغ کے پیچھےکی ایک دیوار ،جو عنبر و مشک کی بنی ہے ، اس میں ایک طاق(شیلف) ہے ، اس میں جو چراغ رکھا ہے، اسے ’’مشخافتلہ‘‘ اور اس چراغ کی دو شاخہ آتشیں لو کو ’’نارتین‘‘ کہتے ہیں۔‘‘

بچّی کی ماں نے انتہائی فخریہ انداز میں بتایا، تو ہم لاجواب سے ہوگئے اور اپنی کم مائیگی و کم علمی پر کفِ افسوس ملنے لگے کہ بچّی کی ماں دوبارہ بولیں’’کیوں ، کیسا منفرد نام ہے ناں؟ آج کل عام سےنام رکھنے کا ٹرینڈ ختم ہوگیا ہے۔ نام تو ’’یونیک‘‘ ہی ہونا چاہیے‘‘حالاں یونیک تو ایک موٹر سائیکل کمپنی کا نام ہے، ہم کہتے کہتے رہ گئے۔

درجِ بالا واقعےسے منسوب سوچ صرف مذکورہ خاتون کی نہیں، آج کل ہر زید، بکر کا قصّہ ہے۔ ہمارے یہاں ’’نیو پیرینٹس‘‘ لایعنی، دقیق اور بےڈھنگے نام رکھنے کے ایسے عجیب خبط میں مبتلا ہوگئے ہیں کہ اللہ کی پناہ۔ اب نئی نسل کے لڑکے، لڑکیوں کے نام کچھ اس طرح کے رکھے جا رہے ہیں کہ پتا ہی نہیں چلتا کہ لڑکے کی بات ہو رہی ہے یا لڑکی کی۔ایک زمانہ تھا، جب بچّے کی ولادت پر بڑے بوڑھےیا والدین اسلامی، با معنی نام رکھتے تھے کہ جس کابچّے کی شخصیت پر مثبت اثرمرتّب ہو، لیکن آج کل تو حال ہی بُرا ہے۔ کوئی اسلامی نام بتادو تو فوراً فتویٰ دے دیا جاتا ہے کہ یہ قدیم نام ہے۔

حالیہ دنوں کی بات ہے کہ ہماری کمپنی میں ایک خوب رُونوجوان انٹرویو دینے آیا، تو ہم نے نام پوچھا’’سیم اخشل عکاش‘‘معنی پوچھنے کی تاب ہم میں نہ تھی ۔ ویسے ایک بات ہے، نقل کرنے میں بندر آج بھی دوسرے نمبر پرہیں کہ ہماری قوم پہلے پڑوسی ممالک کے ڈراموں، ملبوسات، جیولری کی نقل کرتی تھی اور اب یہ معاملہ تُرکی کے ساتھ ہے۔ نہ جانے ہم یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ ہر علاقے کا اپنا رواج ،ثقافت ، اپنی پہچان ہوتی ہے، جو اسےمنفرد و ممتاز بناتی ہے، تو پھر کسی اور کی ثقافت، رہن سہن، بول چال اپنانا بھلا کہاں کی عقل مندی ہے…؟؟

پھر ہمارے یہاں اکثر ایک فقرہ ’’نام میں کیا رکھا ہے؟‘‘ بھی تواتر سے بولا جاتا ہے، حالاںکہ درحقیقت نام ہی تو وہ پہلی چیز ہے ،جس کی وجہ سے اگلے کے ذہن میں کسی شخص یا چیز کا خاکہ سا اُبھرتا ہے، جسے ’’فرسٹ ایمپریشن‘‘ بھی کہا جا سکتا ہےکہ نام سنتے ہی شعور کے پردۂ سیمیں پر ایک مبہم سا یا، قدرے واضح پرسیپشن تخلیق ہوتا ہے۔ اس پوری تمہید کا مقصد صرف یہ واضح کرنا ہے کہ نام جتنا عام فہم ، آسان، پُرکشش، واضح ہوگا ،اتنا ہی اچھا ہے۔

ایک زمانہ تھا کہ نام انتہائی سادہ اور با وقار رکھے جاتے تھے، پر اب تو خیر نیا زمانہ، نئی رِیت ہے۔ نہ جانے کیوں فقیر جب بھی کوئی اوٹ پٹانگ اسمِ گرامی‘‘ سنتا ہے، تو جی چاہتا ہے کہ جھٹ بدل کر’’اللہ دتّا، رحیم بخش یا اگر عورت ہے تو حمیداں ، بشیراں یا رشیدہ کردے۔