ڈاکٹر عبد الرزاق اسکندر: ہزارہا طلبہ کے روحانی باپ

July 25, 2021

عارف الحق عارف ،روز ویل کیلی فورنیا، امریکا

جامعتہ العلوم الاسلامیہ ،بنوری ٹاؤن کے مہتمم ، شیخ الحدیث، ڈاکٹر عبد الرّزاق اسکندر کے انتقال کی خبر سے ہر دل اُداس ، ہر آنکھ اشک بار ہےکہ ایک عالِم کی موت،گویا کُل عالم کی موت ہے۔ بلاشبہ یہ ایک ایسا نقصان ہے، جس کی تلافی ممکن نہیں۔ڈاکٹر عبد الرّزاق اسکندرمولانا سلیم اللہ کے انتقال کے بعد سےوفاق المدارس العربیہ کے صدر بھی تھے۔ ان کے انتقال کی اطلاع ملی، تو ان سے ایک طویل عرصے تک قائم رہنے والے دیرینہ تعلق کی یادیں کچھ اس طرح تازہ ہوگئیں،جیسے ابھی کل ہی بات ہو۔

ڈاکٹر صاحب سے ہماری پہلی ملاقات 1978ء میں اُس وقت ہوئی ، جب ہم نے دو مصری اساتذہ سے عربی سیکھنے کی غرض سےجامعۂ بنوری ٹاؤن میں ایک کلاس میں داخلے کا ارادہ کیا تھا۔ جامعہ کےدفتر پہنچتے ہی سب سے پہلے جس شخصیت سے ملاقات ہوئی اور جن سے عربی کی کلاس میں شرکت کے ارادے کا اظہار کیا ،وہ مولانا عبدالرّزاق اسکندر ہی تھے۔ انہوں نے ہماری حوصلہ افزائی کرتے ہوئےرہنمائی کی کہ ’’آپ کو مہتممِ جامعہ سے اجازت کی رسمی کارروائی مکمل کرنا ہوگی۔‘‘

اُس وقت جامعۂ بنوریہ کے مہتمم ،مفتی احمد الرّحمٰن تھے ۔ عربی پڑھنے کا یہ سلسلہ اُس وقت ختم ہوا،جب ان اساتذہ کو مصری حکومت نے واپس بلا لیا۔ تاہم،اُس وقت تک ہم نے عربی زبان میں اتنی مہارت حاصل کر لی تھی کہ اپنے اساتذہ سے بلا تکلّف عربی زبان ہی میں بات کرتے تھے۔1978ء کے اس ایک سال کے عرصے میں ہمارے تعلقات ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر کے علاوہ مفتی احمد الرحمٰن، مفتیٔ اعظم پاکستان، مفتی ولی حسن ٹونکی، ڈاکٹر مختار حبیب، مفتی جمیل احمد اور مولانا یوسف بنوری کے صاحب زادے محمّد بنوری سے بھی ہو گئے تھے۔ ڈاکٹر عبد الرّزاق اور مفتی ولی حسن ٹونکی کے سوا باقی تمام علمائے کرام شہرِ قائد میں دہشت گردی اور قتلِ عام کےنتیجے میں شہید کر دئیے گئے۔ اللہ تعالی ان تمام مرحومین اور شہداء کے درجات مزید بلند فرمائے، آمین۔

ڈاکٹر عبد الرزاق اسکندر کا تعلیمی ریکارڈ انتہائی شان دارتھا۔ انہوں نے پاکستان کے بڑے مدارس سے درسِ نظامی کی سند لینے کے بعد تخصّص کے لیے مدینہ یونی وَرسٹی اور قاہرہ کی جامعتہ الازہر سے اسناد حاصل کیں ۔یہاں قابلِ ذکر امر یہ ہے کہ وہ اپنی تعلیمی قابلیت کی وجہ سے کئی نام وَر بین الاقوامی جامعات میں اعلیٰ ملازمت حاصل کرسکتے تھے، لیکن پاکستان کی محبّت سے سرشار ڈاکٹر عبد الرّزاق نے وطن واپس آکر اپنے ہی مُلک کی خدمت کو مقدّم جانا اور زندگی کی آخری سانس تک جامعہ علومِ اسلامیہ ،بنوری ٹاؤن میں اپنے علم و فضل کے خزانے سےطلبہ کو بہرہ وَرکرتے رہے۔ بلا مبالغہ ان کے شاگردوں کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ اُن کے اساتذہ میں علّامہ یوسف بنوریؒ، عبدالحق نافع کاکاخیل اور ولی حسن ٹونکی شامل ہیں،تو ان کے شاگردوں میں عدنان کاکا خیل اور مفتی جمیل احمد شہید کے نام شامل ہیں۔

ہمیں پاکستان میں عملی صحافت کے عرصے میں جب بھی کوئی ایسامسئلہ دَر پیش ہوتا، جس میں علمائے کرام کے تعاون کی ضرورت ہوتی تو ،ڈاکٹر عبد الرّزاق اسکندرکے لائق فرزند، مولانا سعید اسکندر کے توسّط سے یا براہِ راست رابطہ کرتے ، تو وہ ہمیشہ بھر پور تعاون فرماتے ۔ان کا شمار معتدل مزاج علماء میں ہوتا تھا ، جن کی کوشش ہوتی ہے کہ سب کو ساتھ لے کر چلا جائے ۔ ہاں، مگر ایک بات تھی کہ انہوں نے کچھ بنیادی اصولوں پر زندگی بھرسمجھوتا نہیں کیا۔

ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر کا تعلق ضلع ایبٹ آباد کے ایک گاؤں ،کاکول سے تھا ۔ جہاں وہ 1935ءمیں پیدا ہوئے۔ میٹرک تک تعلیمی مدارج گاؤں ہی میں طے کیے۔ بعدازاں، دو سال دینی تعلیم دارالعلوم چوہڑ یا، چھو ہر شریف ،ہری پور میں حاصل کی اور پھر مزید دو سال احمد المدارس اسکندر پور میں گزارے، لیکن 1952ء میں شوقِ تعلیم کراچی لے آیا ، جہاں اُس وقت دارالعلوم دیوبند کی طرز کا ایک مدرسہ مفتیٔ اعظم پاکستان، مفتی محمّد شفیع عثمانی نے نانک واڑہ میں قائم کیا تھا، جو موجودہ دارالعلوم کراچی کا ابتدائی مدرسہ تھا اور بہت جلد ہی کراچی میں اپنے معیارِ تعلیم اور لائق اساتذہ کی وجہ سے معروف ہو گیا تھا۔

سو،نوجوان عبدالرّزاق اسکندر نے اس مدرسے میں داخلہ لے لیا اور یوں ڈاکٹر صاحب کا شمار اس مدرسے کے ابتدائی طلبہ میں ہوتا ہے، جو آخری کلاسز تک یہیں رہے، لیکن دَورۂ حدیث علّامہ محمّد یوسف بنوری کے قائم کردہ جامعہ علومِ اسلامیہ، گُرو مندر میں 1956ء میں مکمل کیا۔گُرو مندر کانام بعد میں علّامہ بنوری کے نام سے نسبت کی بنا پر ’’بنوری ٹاؤن‘‘ رکھ دیا گیا۔ ڈاکٹر عبد الرّزاق اسکندر کو اس مدرسے سے درسِ نظامی مکمل کرنے والے پہلے طالب علم ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ 1955ء میں یہیں سے انہوں نے درس و تدریس کا بھی آغاز کیا۔ 1960ء میں سعودی حکومت نے مدینہ منوّرہ میں دینی علوم میں اعلیٰ تعلیم کےلیےعالمِ اسلام کے علماء کی مشاورت اور تعاون سے ’’مدینہ یونی وَرسٹی ‘‘ قائم کی، تو اس میں داخلے کے لیے دنیا بھر سے طلبہ کو دعوت دی گئی۔

اسی دعوت کے جواب میں ڈاکٹر عبد الرّزاق 1962ء میں مدینہ منوّرہ چلے گئے اور یونی وَرسٹی میں داخلہ لے کر علومِ نبو ی ﷺ میں تخصّص کی سعادت حاصل کی۔مگر تحصیلِ علم کی پیاس نہیں بُجھی ، تو 1972ء میں مزید تعلیمی مدارج طے کرنے مصر تشریف لے گئے، جہاں انہوں نے قاہرہ کی جامعتہ الازہر میں داخلہ لیا اور 1976ء میں صحابیٔ رسولﷺ، حضرت عبداللہ بن مسعودؓ پر تحقیقی مقالہ لکھ کر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ واضح رہے، انہوں نے یہ تمام اسناد جامعہ علومِ اسلامیہ ،بنوری ٹاؤن سے وابستگی کے دوران ہی حاصل کی تھیں ۔

انہوں نے جامعہ سے اپناقلبی تعلق کبھی منقطع نہیں کیا۔ یوںان کے اس دارالعلوم سے تدریسی تعلق کا عرصہ 1955ءسے 2021ءتک،لگ بھگ 66سال کے عرصے پر محیط ہے۔ڈاکٹر عبد الرّزاق کا شمار جامعہ کے مقبول اساتذہ میں ہوتا تھا۔جب 30 مئی2004ء کو شیخ الحدیث، علّامہ نظام الدّین شامزئی کوکراچی میں دہشت گردوں نے شہید کیا، تو اُن کی جگہ ڈاکٹر صاحب کو جامعہ کے’’ شیخ الحدیث‘‘ کے منصب پر فائز کیا گیا،جب کہ 1997ء میں مولانا حبیب اللہ مختار کی شہادت کے بعد سے وہ مہتمم کےفرائض پہلے ہی انجام دے رہے تھے۔

ڈاکٹر عبدالرّزاق اسکندر قادیانیوں کو اقلیت قرار دینے کے مطالبے کی تحریک میں بھی پیش پیش اور علّامہ یوسف بنوری کے شانہ بشانہ تھے۔ اُن کی انہی خدمات کے نتیجے میں 1981ء میں انہیں عالمی مجلسِ تحفّظِ ختمِ نبوّت کی مرکزی شوریٰ کا رُکن منتخب کیا گیا اور2008ء میں سید نفیس الحسینی کی وفات کے بعد اس کا نائب صدر بنادیا گیا۔ پھر 2015ء میں مجلس کے امیر، علّامہ عبدالمجید لدھیانوی کا انتقال ہوا، تو ان کی جگہ ڈاکٹر صاحب کو عالمی مجلسِ ختمِ نبوّت کا صدر منتخب کر لیاگیااور اُس عُہدے پر وہ آخری سانس تک کام کرتے رہے۔

اس کے ساتھ وہ وفاق المدارس میں بھی سرگرمِ عمل رہے۔ 1997ء میں پہلے اُنہیں اس کی مجلسِ عاملہ کا رُکن بنایا گیا،بعد ازاں،2001ء میں نائب صدر اور 5 اکتوبر 2017ء کو صدر مقررکر دیا گیا ۔ نیز، وہ اقرا ءروضتہ الاطفال ٹرسٹ کے بھی صدر تھے۔ڈاکٹر صاحب کئی کتابوں کے مصنّف اور بعض عربی کتب کے مترجّم بھی تھے۔ ان کی تصانیف کی تعداد 14 ہے ،جن میں سےزیادہ تر عربی زبان میں ہیں۔اُن کی سب سے معروف کتاب، کتاب الطریقتہ العصریہ ا لتعلیم العربیہ ( دو جِلدیں) ہے، جو وفاق المدارس کے نصاب میں بھی شامل ہے۔

ڈاکٹر عبد الرّزاق اسکندر کے ورثاء میں بیوہ کے علاوہ دو بیٹے ،ڈاکٹر سعید خان اسکندر ، مفتی محمّد یوسف خان اسکندر اور تین بیٹیاں شامل ہیں۔ جب کہ سوگواران میں ہزار ہا طلبہ کے ساتھ، ساتھی اساتذہ، علمائے کرام کی بڑی تعداد اور کُل امّتِ مسلمہ ہے۔ ان کی نمازِ جنازہ ،ان کے فرزندڈاکٹر سعید خان اسکندر نے پڑھائی۔ جنازے میں ہزاروں افراد نے شرکت کی، جس میں بڑی تعداد میں علمائے کرام جیسے، مفتی تقی عثمانی، مولانا انوارالحق حقّانی، مولانا امداد اللہ یوسف زئی،مولانا عبدالستار،مولانا اللہ و سایا، قاضی عبد الرّشید، جمعیت اتحادالعلماء کراچی کے مولانا عبدالوحید، مولانا اشرف علی، مولانا نعمان نعیم، ڈاکٹر منظور مینگل، علّامہ رب نواز حنفی وغیرہ کے علاوہ ڈی جی رینجرز، سندھ اورجماعتِ اسلامی کےحافظ نعیم الرحمٰن سمیت کئی معززینِ شہر شامل تھے ۔