وکیل بننا تھا، مگر فیشن ڈیزائننگ کا جنون آڑے آگیا

July 25, 2021

بات چیت : عالیہ کاشف عظیمی

ایک 17سالہ لڑکا کار حادثے میں وقتی طور پربصارت سے محروم ہوا اور جب قریباً ایک سال بعد بینائی لوٹی، تو زندگی کی کایا ہی پلٹ گئی۔وہ وکیل بننے کا ارادہ رکھتا تھا، مگر آج دُنیا بَھر میں اُسے پاکستانی فیشن کے سب سے بڑے شو مین کے طور پر سراہا جاتا ہے۔

جی یہ ذکر ہے، معروف فیشن ڈیزائنر، حسن شہریار یاسین(ایچ ایس وائے)کا، جو اب ایک کام یاب شو ہوسٹ بھی ہیں اور بہترین اداکار بھی۔ حسن شہریار کا اعتماد دیکھ کر نہیں لگتا کہ وہ ایک ٹوٹے ہوئےخاندان سے تعلق رکھتے ہیں کہ اس حوالے سے خوداُن کا کہنا ہے کہ’’ اگر بروکن فیملی کے بچّے کو والدین میں سے کسی ایک فریق کی بھی محبّت و توجّہ مل جائے، تو وہ ستاروں پر بھی کمند ڈال سکتا ہے۔‘‘

انہوں نے12سال کی عُمر میں والدہ کا ہاتھ بٹانے کے لیےکام شروع کیا اور آج نہ صرف اُن کا اپنا ایک معروف برانڈ ہے، بلکہ پاکستان فیشن ڈیزائن کاؤنسل کے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں بھی شامل ہیں۔ گزشتہ دِنوں ہم نے حسن شہریار یاسین سے ان کے بارے میں اور بھی بہت کچھ جاننے کے لیے جنگ، سنڈے میگزین کے معروف سلسلے ’’کہی اَن کہی‘‘ کے لیے خصوصی بات چیت کی، جس کا احوال نذرِ قارئین ہے۔

س: خاندان، جائے پیدایش، ابتدائی تعلیم و تربیت کے متعلق کچھ بتائیں؟

ج:میرا تعلق ایک سیاسی گھرانے سے ہے۔ہم دو بہن بھائی اپنےوالدین کی جاگیر تھے، مگر ان کی طلاق کے بعد افشاں اور مَیں والدہ کے ساتھ امریکا منتقل ہوگئے۔ مَیں امریکا ہی میں پلا بڑھا۔ وہیں سے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ پھربعض وجوہ کی بنا پر ہم پاکستان واپس آگئے۔یہاں آکر مَیں نے اے لیول کے بعد پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف فیشن اینڈ ڈیزائن سے گریجویشن کیا۔رہی بات تربیت کی، تو والدہ کے لیے یہ بہت مشکل ٹاسک تھا۔

وہ دِن میں چار نوکریاں کرتی تھیں۔ہمارے لیے اُن کے پاس بہت کم وقت بچتا تھا، اس کے باوجود انہوں نے ہمارے دِلوں میں مذہب اور وطن سے محبّت پیدا کی۔ہمیں دینِ اسلام کی جانب راغب رکھا۔ انہوں نے ہم دونوں کو بچپن ہی میں ہماری ذمّے داریاں بتادی تھیں، تاکہ ہمیں زندگی گزارنے میں مشکلات پیش نہ آئیں۔ اور سچ تو یہ ہے کہ ہم تینوں کا ساتھ ایک دوسرے کے لیے آکسیجن ثابت ہوا۔

اپنے ڈیبیو ڈرامے کے کردار کے رُوپ میں

س: سیاسی گھرانے سے تعلق ہے، تو بچپن بہت پابندیوں میں گزارا یا عام بچّوں کی طرح؟

ج: میرا بچپن عام بچّوں کی طرح نہیں گزرا۔ دو سال کا تھا، تو امریکا چلا گیا۔12سال کی عُمر میں ملازمت شروع کی اور16ویں برس میں معاشی طور پر اتنا مستحکم ہوچُکا تھا کہ اپنی کمائی سے تعلیم حاصل کرسکوں۔ چوں کہ امّی کو شب و روز محنت کرتے دیکھا، تو بچپن میں کھیلنے کودنے کی بجائے یہی سوچتا کہ مجھے ماں کا معاشی طور پر ہاتھ بٹانا ہے۔ اس لیے مَیں نے اپنا بچپن، بڑوں کی طرح گزارا ۔ ہمیں معلوم تھا کہ ہم نے گھر رہ کر امّی کا انتظار کرنا ہے اور وہ جو کہہ کر جائیں گی، اُسے ماننا ہے، تو بچپن میں شرارتوں سے زیادہ اپنی ذمّے داریاں نبھانے کا احساس غالب رہتا ۔

س: اچھا یہ تو بتائیں کہ ’’شیرو‘‘ کون ہے؟

ج: شیرو مَیں خود ہوں، جو اپنی ماں کا بے حد لاڈلا ہے۔مجھے یہ نام مصطفیٰ کھر صاحب نے دیا، جواپنے دَور میں’’شیرِپنجاب‘‘کہلاتے تھے۔ اصل میں جن دِنوں ابّو ایم این اے تھے، تب ان کی اور مصطفیٰ کھر کی گاڑھی چَھنتی تھی، تو بس اسی دوستی یاری میں انہوں نے میرا نام ’’شیرو‘‘ رکھ دیا۔

س: آپ کو دیکھ کر لگتا نہیں کہ آپ Broken Family کے بچّے ہیں، یہ خود اعتمادی وراثت میں ملی یا پھر زمانے کے نشیب و فراز نے اعتماد دیا؟

ج:ویسے تو ہر بچّے کو ایک مکمل گھرانہ، ماں اور باپ دونوں چاہیے ہوتے ہیں، لیکن اگر کسی ایک فریق کی بھی بَھرپور محبّت و توجّہ مل جائے تو وہ زندگی میں ناکام نہیں رہتا۔ میری اور میری بہن کی کام یابی کا بھی یہی راز ہے کہ ہماری والدہ نے ہمیں بَھرپور محبّت و توجّہ دی، زندگی میں آگے بڑھنے کے لیے ہر طرح سپورٹ کیا۔

س: بچپن میں کیا بننے کا خواب دیکھا کرتے تھے،فیشن کی باقاعدہ طور پر تعلیم حاصل کرنے کا شوق کیسے ہوا؟

ج: مَیں بچپن میں وکیل بننا چاہتا تھا۔ حالاں کہ شروع ہی سے میرا رجحان تخلیقی کاموں کی جانب زیادہ تھا۔ اسکول میں تھا، تو بہت اچھی ڈیزائننگ کرتا تھا، لیکن پتا نہیں کیوں، خواب وکیل بننے ہی کے دیکھا کرتا تھا، مگر پھر ایک کار حادثے میں میری بینائی چلی گئی۔ دوبارہ دیکھنے کے قابل ہوا تو شدّت سے احساس ہوا کہ انسان کو وہی زندگی جینی چاہیے، جس میں اُس کی خوشی ہو۔

اُس کے بعد مَیں نے امّی سے اس وعدے کے ساتھ فیشن ڈیزائنر بننے کی اجازت مانگی کہ مَیں آپ کو ایک کام یاب فیشن ڈیزائنر بن کر دکھائوں گا۔ انہوں نے اجازت دیتے ہوئے شرط رکھی کہ تمہیں اس کے لیے باقاعدہ تعلیم حاصل کرنی ہوگی۔ چوں کہ یہ میرا جنون تھا،تو الحمدللہ مَیں نےاپنا وعدہ پورا کر دکھایا۔ آج نہ صرف میرا اپنا برانڈ ہے ،بلکہ جس ادارے سے تعلیم حاصل کی، اُس کے بورڈ آف ڈائریکٹر ز میں بھی شامل ہوں۔

س: کارحادثے سے متعلق بھی کچھ بتائیں ؟

ج: یہ اُس دَور کی بات ہے، جب مَیں17برس کا تھا۔ ہم چند دوست گاڑی میں روزہ افطار کررہے تھے کہ ہمارا ایکسیڈنٹ ہوگیا۔ میری آنکھوں میں کانچ کے ٹکڑے چلے گئے اور مَیں بصارت سے محروم ہوگیا۔ قریباً سال بَھر میری دُنیا اندھیر رہی اور جب دوبارہ دیکھنے کے قابل ہوا، تو مجھے سب سے پہلے لال رنگ نظر آیا۔ اور تب سے لے کر آج تک یہی میرا پسندیدہ رنگ ہے۔ اسی لیے میرے ڈیزائن کردہ ملبوسات میں بھی سُرخ رنگ نمایاں ہوتا ہے۔

اپنی تیار کردہ برائیڈل کلیکشن کے ساتھ ، ماڈلز میں گھِرے ہوئے

س: بینائی سے محرومی کا تجربہ کیسا رہا؟

ج: اُس ایک سال کے عرصے میں مَیں نے خود کو پالیا کہ بعض اوقات ہم آنکھیں کھول کر بھی خود کو نہیں دیکھ رہے ہوتے۔ مجھے لگتا ہے، کُھلی آنکھوں سے ہم وہ دُنیا دیکھتے ہیں، جو دوسرے ہمارے لیے چاہتے ہیں۔ بہرحال، اب میری یہی کوشش ہے کہ جس قدر ممکن ہوسکے، بصارت سے محروم افراد کی مدد کروں کہ اگر ہم خود آگے بڑھ کر ان کی مدد نہ کرسکیں تو پھر ہمارے تعلیم یافتہ اور باشعور ہونے کا کوئی فائدہ نہیں۔

س: ڈیزائنر، ریڈیو جوکی، شو ہوسٹ، شو ڈائریکٹر اور اداکار…خود اپنا تعارف کیا کہہ کر کرواتے ہیں؟

ج:مَیں صرف ’’حسن ‘‘ہوں اور جب مَرجاؤں گا، تب بھی حسن ہی رہوں گا کہ لوگ مجھے میرے کام سے نہیں، میرے اخلاق سے یاد رکھیں گے۔ مجھے یہ دیکھ کر شدید دُکھ ہوتا ہے کہ ہم خود کو ٹائٹلز دینے میں لگے رہتے ہیں،مگر اخلاقیات، انسانیت کی طرف توجّہ نہیں دیتے۔

س: آپ نے معاشی طور پرخاصا مشکل وقت گزرا،تو زندگی سے کیا سیکھا؟

ج:جی بالکل ،مَیں نے ہر طرح کے حالات دیکھے، لوگوں کے تلخ رویّے برداشت کیے، وسائل بھی کم تھے، مگر کبھی گھبرایا نہیں اور مشکلات سے باہر نکلنے کے لیے ہمیشہ لگن سے محنت کی۔ مجھے زندگی نے یہی سکھایا کہ اگر کوئی آپ کے ساتھ کچھ بُرا بھی کررہا ہے، تو آپ اس کا بُرا سوچیں، نہ اپنے عمل سے اُسے تکلیف پہنچائیں۔

مَیں نے دیکھا ہے کہ لوگ تکلیف کےبدلے میں تکلیف پہنچا کر ہی خوش ہوتے ہیں۔ مگر میرا ماننا ہے کہ آپ دوسروں کے لیے اچھا کریں، مثبت سوچیں اور خوش رہیں کہ زندگی کا حاصل ’’حُسنِ اخلاق‘‘ ہے۔ مَیں جب بھی اپنے ماضی کا حال سے موازنہ کرتا ہوں، تو میرا رُواں رُواں اللہ تعالیٰ کا شُکر گزار ہوتا ہے۔عموماً ہم جب زندگی میں کوئی کام یابی حاصل کرتے ہیں، تو اس کو اپنا حق سمجھ لیتے ہیں، حالاں کہ ہر کامرانی اللہ تعالیٰ کی عطا ہے، تو ہمیں ہر لمحے اُسی کا شُکر گزار ہونا چاہیے۔

س: ذہن میں والدہ کے ساتھ بچپن کی کچھ باتیں، یادیں نقش ہیں؟

ج: امّی کے ساتھ تو گزرا ہر لمحہ، ہر بات میرے دِل پر نقش ہے۔ اس معاملے میں میری یادداشت بہت اچھی ہے۔ مَیں اپنی امّی سے بے پناہ عشق کرتا ہوں۔وہ میری ہیرو ہیں کہ مَیں نے زندگی کے اِک اِک قدم پر انہیں اپنے ساتھ کھڑے پایا۔ بچپن میں وہ میرا خیال رکھتی تھیں، اب مَیں ان کی ایک ایک ضرورت کا خیال رکھتا ہوں، ان کی باتیں پوری توجّہ سے سُنتا ہوں۔

س: اپنا بزنس 2500روپے سے شروع کیا، آج ایک کام یاب بزنس مین ہیں، اس کام یابی کا گُر شیئر کرنا چاہیں گے؟

ج: کام یابی کا گُر کام، کام اور صرف کام ہے۔ آپ نے کسی بھی شعبے میں کام یابی حاصل کرنی ہے، تو اپنے کام کو اپنا جنون بنالیں اور یہ بات گِرہ سے باندھ لیں کہ ہم نے اپنے آپ کو خود Question کرنا ہے، دوسروں کو اپنی ذات پر سوال نہیں اُٹھانے دینا۔ دولت کی ریل پیل، شہرت کچھ نہیں، قلبی سُکون صرف محنت اور اپنے کام سے مخلص ہونے میں ہے۔

س: اپنا لوگو ایچ ایس وائے کیوں منتخب کیا؟

ج: جب بیرونِ مُمالک میں لوگ بہت عجیب سے انداز سے میرا نام پکارتے، تو مجھے بہت بُرا لگتا۔ اور مَیں یہی سوچتا کہ جب ہم مائیکل کہہ سکتے ہیں، تو وہ حسن کیوں نہیں کہہ سکتے۔ مجھے اپنا نام بہت پسند ہے۔ پھر ہم مسلمانوں کے نام بامعنی ہوتے ہیں، تو مَیں نہیں چاہتا کہ میرا نام غلط پکارا جائے۔ اِسی لیے ’’ایچ ایس وائے‘‘ رکھ لیا، تاکہ انٹرنیشنل کمپنیز بھی میرا نام صحیح طور پر لیا کریں۔

س: اَن گنت فیشن شوز میں حصّہ لیا، اُن سے متعلق بھی کچھ بتائیں؟

ج:مَیں نے شروعات ’’فیشن ویک‘‘سے کی، پھر کام کا دائرہ وسیع ہوتا چلا گیا۔اب مَیں تقریباً 30سے زائد مُمالک میں شوز کر چُکا ہوں۔ میری خواہش ہے کہ پاکستان میں فیشن انٹرٹینمینٹ نہیں، بلکہ انڈسٹری کی صُورت اختیار کرے۔ اگر ہم نے اس فیلڈ میں ترقّی کرنی ہے، آگے بڑھنا ہے، تو اس میں سرمایہ کاری کرنا ہوگی، جو تب ہی ممکن ہے، جب نئے لوگ اسے بطور پروفیشن اختیار کریں۔

س: مستقبل قریب میں پاکستانی فیشن کے حوالے سے کیا بڑا کام کرنے جارہے ہیں؟

ج: اگر لوگ کہتے ہیں کہ میڈ اِن اٹلی یا میڈ اِن فرانس پاور فُل ہے، تو مَیں چاہتا ہوں کہ لوگ کہیں میڈ ان پاکستان پاور فُل ہے، جس کے لیے مَیں مسلسل محنت کررہا ہوں۔

س: کیا آپ سمجھتے ہیںکہ پاکستان میں فیشن ڈیزائننگ کےمزید انسٹی ٹیوٹس ہونے چاہئیں؟

ج:جی بالکل، انسٹی ٹیوٹس ہونے چاہئیں کہ یہ بہت بڑی انڈسٹری ہے۔ البتہ جو بھی انسٹی ٹیوٹس ہوں، وہ فیشن ڈیزائننگ کی اچھی تربیت دیں کہ ہماری ٹیکسٹائل انڈسٹری کو اچھے ڈیزائنر کے ساتھ انرجی کی ضرورت ہے۔ میرے خیال میں تو ابھی پاکستان میں فیشن انڈسٹری کا آغاز ہے اور ان شاء اللہ یہ بہت آگے جائے گی۔

س: فی الوقت جو انسٹی ٹیوٹس کام کررہے ہیں، ان کے معیار سے مطمئن ہیں؟

ج:دیکھیں، مَیں جس فیشن اسکول کا ڈائریکٹر ہوں، اس کی کارکردگی سے بے حد مطمئن ہوں، دیگر سے متعلق کچھ زیادہ معلومات نہیں،تو رائے بھی نہیں دے سکتا۔ ہاں، البتہ جو فیشن اسکولز مجھے لیکچر زکے لیے مدعو کرتے ہیں،وہاں ضرور جاتا ہوں اور اگر کوئی کمی محسوس ہو تو نشان دہی بھی کرتا ہوں۔

س: مغربی مُمالک میںپاکستانی فیشن کی کس قدر ڈیمانڈ ہے؟

ج: مغربی مُمالک میں پاکستانی ملبوسات کی خاصی ڈیمانڈ ہے، مگر ہر مُلک کے ملبوسات اُس کی ثقافت کے مطابق ہی ہوتے ہیں۔جس طرح ایک فرینچ ڈیزائنر فرانس کے لوگوں کےلیے کپڑے ڈیزائن کرتا ہے، تو اُس کا ہاتھ وہاں کی فیشن انڈسٹری کی نبض پر ہے، بالکل اسی طرح مَیں یہاں کے لوگوں کا مزاج سمجھتا ہوں، مجھے اپنی ثقافت، تہذیب کا پتا ہے، تو اُسی کے مطابق کپڑے ڈیزائن کرتا ہوں، جو بیرون مُلک بھی سراہے جاتےہیں۔

س: فیشن انڈسٹری میں آپ کا برانڈ خاصامعروف ہے، تو ذرا کوالٹی اور ورائٹی سے متعلق بھی کچھ بتائیں؟

ج:معیاری برانڈ کے لیے کوالٹی اور ورائٹی دونوں ہی اہمیت رکھتے ہیں، لیکن اس سے کہیں ضروری کسٹمر کیئر ہے۔ آپ کے ملبوسات چاہے کتنے ہی اعلیٰ معیار کے ہوں، لیکن آپ کے پاس خریدار تب ہی بار بار آئیں گے، جب انہیں توجّہ اور عزّت ملے گی۔ مجھےاس انڈسٹری میں 25،26سال سے زائد عرصہ گزر چُکا ہے، لیکن اگر میری مُلک یا بیرونِ مُلک کوئی پہچان ہے، تو وہ کسٹمر کو عزّت دینے ہی کی وجہ سے ہے۔

س: ملبوسات کے بعد زیورات بھی متعارف کروائے، تو اس حوالے سےبھی کچھ بتائیں؟

ج: جی بالکل، ہم نے باہمی اشتراک سےزیورات بھی متعارف کروائے، مگر تب لوگ ذہنی طور پر تیار نہیں تھے، تو یہ سلسلہ رُک گیا۔ عین ممکن ہے کہ ہم مستقبل میں دوبارہ جیولری ڈیزائن کرنا شروع کردیں۔

س: ’’ٹونائٹ ود ایچ ایس وائے‘‘کا آئیڈیا کس کا تھا؟اور کیا اتنی کام یابی کی توقع تھی؟

ج:بنیادی طور پر اس شو کا آئیڈیا چینل ہی کا تھا۔ چوں کہ مَیں خاصے عرصے سے بزنس کررہا ہوں، شوبز انڈسٹری سے وابستہ متعدّد فن کاروں سے بہت اچھے مراسم ہیں اور کوئی بھی شو ہوسٹ کرنے کے لیے سب سے زیادہ ضروری پُر اعتماد ہونے کے ساتھ اپنے مہمان کے ساتھ اچھے مراسم بھی ہیں، تو قرعۂ فال میرے نام نکل آیا۔

س: اُردو نہیں آتی تھی، جسے سیکھنے کے لیے باقاعدہ کلاسز بھی لیں، حالاں کہ آپ پاکستان میں پیدا ہوئے، کچھ عرصہ یہاں گزارا بھی، تو ایسا کیوں؟

ج: ایسا نہیں کہ مجھے اُردو بولنی نہیں آتی تھی۔ مَیں قومی زبان ہی میں بات چیت کرتا ہوں، البتہ بعض الفاظ ایسے ہیں، جن کی ادائی میں مشکل پیش آتی ہے، تو ان الفاظ کے درست تلفّظ کے لیے اُردو کلاسز لیں۔ دیکھیں، مَیں ایچ ایس وائے ضرور ہوں، لیکن جنہوں نے مجھے اداکاری کا موقع دیا، ان کی عزّت رکھنے کے لیے میری تربیت بہت ضروری تھی۔ پھر مَیں شعبۂ اداکاری میں اپنے نام کی بجائے اپنی صلاحیتوں کے بل بُوتے پرخود کو منواناچاہتا ہوں، تو اس کے لیے باقاعدہ طور پر اُردو سیکھی۔

س: ڈراما’’پہلی سی محبّت‘‘ میں اکرم کا کردار نبھایا اور خُوب نبھایا، اداکاری کی طرف رجحان کیسے ہوا؟

ج: مَیں اس ڈرامے سے قبل فلم ’’عشرت میڈ ان چائنا ‘‘میں اداکاری کرچُکا تھا، تو اس فیلڈ میں مزید آگے بڑھنے کے لیے ڈراما’’پہلی سی محبّت‘‘میں کام کی حامی بَھر لی۔

س: آپ نےتھیٹرز میں بھی کام کررکھا ہے، تو ذرا وہ تجربات بھی شیئر کریں؟

ج:مَیں کالج کے زمانے میں تھیٹرز میں پرفارم کرتا تھا ۔ آمنہ حق کے ساتھ کام کرچُکا ہوں،جب کہ بیسٹ ایکٹر کا ایوارڈ بھی جیتا۔ دراصل مَیں گھر پر ٹِک کر نہیں بیٹھ سکتا۔ مجھے لگتا ہے کہ ہر لمحہ قیمتی ہے، لہٰذا ایسے کام کرنے چاہئیں، جن سےسیکھنے کو ملے، تو تھیٹر میں کام بھی اسی سوچ کا نتیجہ تھا۔

س: والد میاں حامد یاسین سیاست سے وابستہ تھے، تو کیا کبھی سیاست دان بننے کا خیال نہیں آیا؟

ج:سیاست دان بننے کا اکثر خیال آتا ہے اور عموماً لوگ پوچھتے بھی ہیں۔ اگر کبھی وقت ملا، تو اس طرف بھی قسمت آزما لیں گے۔

س: کس سیاسی جماعت میں شمولیت اختیار کریں گے؟

ج: میرے والدین دو الگ جماعتوں کے سپورٹرز ہیں۔ مَیں وزیرِ اعظم عمران خان کی بہت عزّت کرتا ہوں، مگر مجھے کسی بھی سیاسی جماعت پر بھروسا نہیں۔ مَیں سمجھتا ہوں کہ کسی سیاسی جماعت سے وابستہ ہونے سے زیادہ ضروری عوام کی خدمت کرنا ہے اور مَیں خود کس جماعت سے وابستہ ہوں گا، فی الحال اس حوالے سے کچھ سوچا نہیں۔

س: سُنا ہے آپ نے ڈرامے میں حقیقی مار پیٹ کی ہے، کیا ایسا ہی ہے؟

ج:جی ایسا ہی ہے۔ ویسے سین میں تھپڑ مارنے سے قبل مَیں نے معافی مانگ لی تھی اور ایسا صرف سین میں حقیقت کا رنگ بَھرنے کے لیے کیا۔

س: آپ این او ڈبلیو ایف پی ڈی پی (Network Of Organizations Working For People With Disabilities , Pakistan) کے ایمبیسڈر بھی ہیں،اپنی فلاحی سرگرمیوں پر بھی کچھ روشنی ڈالیں؟

ج:چوں کہ مَیں بصارت سے محرومی کےکرب سے گزر چُکا ہوں، تو نابینا افرادکے احساسات بہت اچھی طرح سمجھ سکتا ہوں۔ اب میری زندگی کا مقصد شہرت حاصل کرنا نہیں رہا کہ اللہ کا شُکر ہے کہ میرا ایک نام، اپنی پہچان ہے، تو اب اگر اللہ تعالیٰ نے مجھے سخت حالات سے گزار کر اس قابل کردیا ہے کہ مَیں دوسروں کی مدد کرسکوں، تو فلاحِ عامّہ کے لیے کچھ کرنا میرا فرض بنتا ہے۔اور الحمداللہ این او ڈبلیو ایف پی ڈی پی کے پلیٹ فارم سے مَیں جو کرسکتا ہوں، کررہا ہوں۔

س: آپ کی پہلی فلم تاحال ریلیز نہیں ہوسکی،ڈراما ڈیبیو دے چُکے ہیں، تو آج کل کیامصروفیات ہیں، نئے پراجیکٹس کے حوالے سے بھی کچھ بتائیں؟

ج: اس وقت تین اسکرینز پڑھ رہا ہوں، مگر فی الحال کوئی فیصلہ نہیں کیا۔ہاں یہ ضرور ہے کہ میںجِلد ہی ایک ڈرامے میں کام کرنے کے ساتھ ایک منفرد انداز کے ٹی وی شوکی میزبانی کروں گا۔

س: سال گِرہ مناتے ہیں ؟

ج: جی بالکل،مَیں خوشی کا ہر موقع سلیبریٹ کرتا ہوں۔

س: کیا کبھی کسی سے عشق ہوا،شادی کب کررہے ہیں؟

ج:کوئی ایک عشق ہو تو بتاؤں۔ مَیں تو بڑا دِل پھینک ہوں۔ رہی بات شادی کی، تو جب اس کا وقت آئے گا،ہوجائے گی۔ مَیں نے تجرباتی طور پر جانا ہے کہ ہر چیزاپنے وقت پرہوتی ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ آپ اداکاری کی جانب دیر سے آئے، تو جب اس فیلڈ میں آنے کا وقت آیا، تو راستے بھی کھلتے چلے گئے۔ اس وقت میری سب سے بڑی ذمّے داری، میری والدہ ہیں، جو گزشتہ ڈیڑھ سال سے علیل ہیں۔

س: کوئی خواہش، جو ادھوری ہو؟

ج: کوئی نہیں، کیوں کہ مَیں پیسے اور خواہشات کے پیچھے نہیں بھاگتا۔ مجھے اللہ تعالیٰ نے جتنا نوازا ہے، اس پر صابر و شاکر ہوں۔اور یہ حقیقت ہے کہ جو اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شُکر گزار ہو، پھر اُس کی کوئی خواہش تشنہ نہیں رہتی، وہ راضی بہ رضا ہوجاتا ہے۔

س: والدین کے لیے کیا کہنا چاہیں گے؟

ج:یہی کہ میری ماں، میری زندگی، میری کُل کائنات ہے۔

س: کوئی پیغام دینا چاہیں گے؟

ج: شکوے، شکایات کم کیا کریں، اپنی ذمّے داریاں سمجھیں، اُنہیں نبھائیں اور اپنی زندگی خوش رہ کر گزاریں۔ شہرت اور پیسے کے پیچھے مت بھاگیں، صرف اپنی صلاحیتوں پر بھروسا رکھیں اور سخت محنت کریں کہ محنت ہی میں اجر ہے۔