نواز، حمد ﷲ ملاقات

July 26, 2021

افغانستان کے سیکورٹی ایڈوائزر حمدﷲ محب اور وزیر برائے امن و امان سید سعادت منصور نادر کی لندن میں میاں نواز شریف سے ملاقات پر حکومت ِپاکستان اوردیگر حلقوں کا شدید ردِعمل سامنے آیا ہے۔ اس ملاقات کی تصاویر اور پریس ریلیزز ہفتہ کی رات افغانستان کی قومی سلامتی کونسل کے ٹویٹر ہینڈل سے جاری کی گئیں۔ مریم نواز نے اس ملاقات پر ہونے والی تنقید کا جواب دیا کہ ’’اپنے پڑوسیوں کے ساتھ پُرامن تعلقات نواز شریف کے نظریہ کی اساس ہے، یہی چیز حکومت کو سمجھ نہیں آرہی‘‘۔ نواز شریف سے حمد ﷲ محب کی ملاقات پر اتنا شدید ردِعمل اسلئے بھی سامنے آیا کہ پاکستان، افغانستان اور بھارتی میڈیا میں چلنے والی چند رپورٹوں کے مطابق حمدﷲ محب نے رواں برس مئی میں پاکستان پر طالبان کی مدد کا الزام عائد کرتے ہوئے دریدہ دہنی کی انتہا کر دی تھی اور پاکستان کے بارے میں نہایت نازیبا الفاظ استعمال کئے تھے جس کے بعد پاکستان نے افغانستان کی حکومت کو پیغام دیا تھا کہ پاکستان سیکورٹی ایڈوائزر کے ساتھ کسی قسم کا سرکاری رابطہ نہیں رکھے گا۔ پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا تھا، ’’عمران خان اور جنرل قمر جاوید باجوہ امن کا پیغام لے کر افغانستان جاتے ہیں اور تم پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کرتے ہو؟ تم کو شرم آنی چاہئے‘‘۔ شنید ہے کہ متذکرہ ملاقات میں اتفاق کیا گیا کہ’’ باہمی احترام اور ایک دوسرے کے اندرونی معاملات میں عدم مداخلت کی پالیسی دونوں ممالک کے مفاد میں ہے‘‘۔یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ یہی بات ایک عرصے سے پاکستان کے قومی بیانیے کا جزو لازم ہے تو پھر حکومت کو چھوڑ کر میاں نواز شریف سے ملاقات کرنے کی کیا حاجت تھی؟ یہ سوال اس وقت میڈیا پر شہ سرخیوں میں ہے مگر اس کا ایک تناظر بیک ڈور ڈپلومیسی بھی ہے کیوں کہ نواز شریف اس وقت ملک میں اپوزیشن کی ایک توانا آواز ہیں۔ ماضی میں بھی اپوزیشن رہنماایسی ملاقاتیں کرتے رہے ہیں۔ امید ہے کہ تمام متعلقہ فریق معاملے کی حساسیت کا ادراک کرینگے اور اسے سیاست کی بھینٹ نہیں چڑھائیں گے۔