آزاد کشمیر ریفرنڈم سے متعلق وزیراعظم کا بیان!

July 26, 2021

وزیر اعظم عمران خان نے آزاد کشمیر میں اپنی پارٹی کی انتخابی مہم کے دوران حالیہ دو جلسوں سے خطاب کرتے ہوئے کشمیرمیں دو الگ الگ ریفرنڈم کروانے کا عندیہ دیا اور کہا کہ پہلا ریفرنڈم اقوام متحدہ کے تحت ہو گا، جس میں کشمیری عوام فیصلہ کریں گے کہ وہ پاکستان کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں یا بھارت کے ساتھ۔ دوسرا ریفرنڈم تحریک انصاف کی حکومت کرائے گی، جس میں کشمیری عوام یہ فیصلہ کریں گے کہ وہ پاکستان کے ساتھ الحاق چاہتے ہیں یا آزاد ریاست کے طور پر رہنا چاہتے ہیں۔ وزیر اعظم کے اس بیان پر مختلف حلقے تنقید کر رہے ہیں لیکن میرے خیال میں اب وقت آ گیا ہے کہ جذباتی ہونے کے بجائے حقائق کا ادراک کیا جائے۔ اس ایشو پر جذباتیت مزید نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے۔

جو کچھ وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے، وہ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 257کے مطابق ہےجس میں درج ہے کہ ’’ ریاست جمو ں و کشمیر کے لوگ جب پاکستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کریں گے تو پاکستان اور ریاست جموں و کشمیر کے مابین تعلقات کا تعین ریاست کے عوام کی خواہش کے مطابق ہو گا۔ ‘‘ وزیر اعظم کا بیان نہ صرف پاکستان کے دستور کے مطابق ہے بلکہ اس میں پاکستان کی کشمیر پالیسی اور اصولی موقف کے ساتھ ساتھ اقوام متحدہ کی قرار دادوں سے بھی انحراف کی کوئی بات نہیں ہے۔

بعض حلقوں کی اس بات سے کوئی اختلاف نہیں کرے گا کہ آزاد کشمیر میں انتخابات شفاف اور منصفانہ ہونے چاہئیں۔ آزاد کشمیر کے عوام کو الحاق یا آزادی کا حق دینے سے پہلے اپنی حکومت خود بنانے کا حق دیا جائے۔ انتخابات میں مداخلت نہ کی جائے اور عوام کا مینڈیٹ نہ بدلا جائے جیسا کہ پاکستان کے صوبوں میں ہوتا ہے۔ کشمیر ایک اسٹرٹیجک لوکیشن ہے۔ آزاد کشمیر میں متنازع الیکشن ہمارے لئے بہت زیادہ مسائل پیدا کر سکتا ہے۔ لیکن کشمیر میں ریفرنڈم کے حوالے سے وزیر اعظم عمران خان کے بیان پر صرف تنقید برائے تنقید نہیں کرنی چاہئے۔ جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے وزیر اعظم کے بیان کو اس لئے اقوام متحدہ کی قرار داد وں کے خلاف قرار دیا کہ وزیرا عظم نے گلگت بلتستان میں ریفرنڈم کی بات نہیں کی۔ انہوں نے وزیر اعظم کے بیان کو کشمیر فروشی سے تعبیر کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان مودی کا ایجنڈا پورا کر رہے ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف نے بھی وزیر اعظم کے بیان کو مسترد کر دیا اور اسے پاکستان کے تاریخی موقف اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرار دادوں سے انحراف قرار دیتے ہوئے کہا کہ عمران نیازی کے بیان سے وہ خدشات درست ثابت ہو گئے ہیں، جو 5 اگست 2019 ء کے بھارتی اقدامات سے قوم کے سامنے پہلے ہی آچکے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے عمران خان کے بیان پر محتاط ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہاکہ عمران خان ہمیشہ کشمیر کے معاملے پر غلطی کرتے ہیں۔ ہم بھی ہمیشہ سے اس موقف کے حامی ہیں کہ کشمیری عوام اپنا فیصلہ خود کریں۔ ہم بھی رائے شماری کی بات کرتے ہیں۔ اگر رائے شماری اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق ہو تو ٹھیک اور اگر اس سے مودی کے موقف کی حمایت ہو تو ٹھیک نہیں۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ اپوزیشن کے رہنما وزیر اعظم کے بیان کو بھارتی اقدامات کے تناظر میں دیکھ رہے ہیں۔ وہ بین السطور یہ خدشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ جس طرح بھارتی مقبوضہ کشمیر کو بھارت کی یونین کا حصہ بنا دیا گیا ہے اور اس کی خصوصی حیثیت ختم کر دی گئی ہے، اسی طرح آزاد کشمیر کو پاکستان کا صوبہ بنا کر مسئلہ کشمیر کو ہمیشہ کے لئے دفن کرنے کی سازش ہو رہی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے آزاد کشمیر کو پاکستان کا صوبہ بنانے کی باتوں سے لاعلمی اور لاتعلقی کا اظہار کیا ہے۔ البتہ انہیں یہ وضاحت کر دینی چاہئے کہ کیا اقوام متحدہ کا ریفرنڈم مقبوضہ اور آزاد کشمیر دونوں میں ہو گا اور اس کے انعقاد کے لئے پاکستان کیا کوششیں کر رہا ہے اور جو کام سات دہائیوں سے نہیں ہو سکا، وہ اب کیسے ہو جائے گا ؟ اگر ریفرنڈم صرف آزاد کشمیر میں ہونا ہے تو کیا پاکستان کے تمام ریاستی ادارے اور سیاسی قوتیں اس معاملے پر آن بورڈ ہیں ؟

آج ہمیں اس حقیقت کا ادراک کرنا ہو گا کہ مسئلہ کشمیر پر ’’ اسٹیٹس کو ‘‘ کا سب سے زیادہ نقصان کشمیریوں کے بعد پاکستان کو ہوا ہے۔ آخر کب تک کشمیر کے مسئلے کو لٹکا کر رکھا جائے گا ؟ نئی دنیا تخلیق ہو رہی ہے۔ عالمی سطح پر بڑی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ خاص طور پر ہمارا خطہ عالمی سیاست میں بہت اہمیت اختیار کر گیا ہے۔ سی پیک اور علاقائی بلاکس کی تشکیل کا عمل اس امر کا متقاضی ہے کہ مسئلہ کشمیر کے حل میں اپنی کوششوں کو پہلے سے زیادہ تیز کیا جائے۔ سی پیک کشمیر سے ہی شروع ہو رہا ہے اور ابھی تک کشمیر کی حیثیت طے نہیں ہو سکی۔ یہ ٹھیک ہے کہ کشمیر پر اپنے اصولی موقف سے نہیں ہٹنا چاہئے لیکن بھارت مقبوضہ کشمیر کے بارے میں فیصلہ کر چکا ہے اور ہم اسے نہیں روک سکے۔ ہم پہلے وفاق کے زیر انتظام علاقوں (فاٹا ) ،صوبوں کے زیر انتظام علاقوں ( پاٹا ) کے انضمام کو حساس مسئلہ تصور کرتے تھے اور اس کا فیصلہ کرنے سے ڈرتے رہے۔ اب ان علاقوں کے انضمام سے وہاں پاکستان کے آئین اور قانون کی عمل داری ہے۔ یہ اب علاقے بفرزون کے طور پر عالمی طاقتوں کی مہم جوئی کے لئے استعمال نہیں ہو سکتے۔ گلگت بلتستان کی اسمبلی نے خود پاکستان کا صوبہ بننے کی قرار داد منظور کی ہے۔ ہم فیصلہ نہیں کر پا رہے۔ ہمیں جذباتی ہونے کی بجائے ایسے معاملات پر وسیع تر قومی مشاورت کرنی چاہئے اور نئی معروضی حکمت عملی اختیار کرنی چاہئے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)