آزاد کشمیر میں پی ٹی آئی کی فتح

July 27, 2021

آزاد کشمیر جموں و کشمیر قانون ساز اسمبلی کے انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف کی جیت غیرمتوقع ہے نہ مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کی ہار۔ مسلمہ حقیقت یہ ہے کہ جو پارٹی پاکستان میں برسراقتدار ہو آزاد کشمیر کے لوگ بالعموم اسی کو آزاد خطے میں حکومت کرنے کا حق دیتے ہیں۔ 2016میں جب آزاد کشمیر میں انتخابات ہوئے تو وفاق میں مسلم لیگ ن کی حکومت تھی۔ سو آزاد کشمیر میں اسے غیرمعمولی اکثریت حاصل ہوئی اور پی ٹی آئی، عمران خان کے دھرنوں، جارحانہ سیاست اور شعلہ بیانی کے باوجود صرف دو نشستیں حاصل کر پائی۔ اس مرتبہ صورتحال مختلف ہے۔ پاکستان میں پیٹی آئی برسراقتدار ہے اس لئے اس کی سیٹیں دو سے بڑھ کر 25ہو جانا کوئی اچھنبے کی بات نہیں۔ مسلم لیگ ن، جو آزاد کشمیر میں 5سالہ مدتِ اقتدار پورا کررہی ہے، کے ہاتھ صرف 6نشستیں آئیں جبکہ پیپلز پارٹی کو 11سیٹیں ملیں۔ یہ تینوں غیرریاستی جماعتیں شمار کی جاتی ہیں۔ ریاستی جماعتوں یعنی کل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس اور جموں و کشمیر پیپلز پارٹی کو صرف ایک ایک نشست ملی۔ ان کا یوں منظر سے غائب ہوتے جانا بھی لمحہ فکریہ ہے۔ اپوزیشن نے انتخابات میں دھاندلی کے سنگین الزامات لگائے ہیں جو درست ہوں گے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ آزاد کشمیر کے لوگ بالعموم پاکستان میں برسراقتدار پارٹی کے امیدواروں کو ووٹ ایک تو پاکستان سے جذباتی وابستگی کی وجہ سے دیتے ہیں اور دوسرے اس وجہ سے کہ انہیں پتہ ہے کہ اگر وفاق کی حکمران پارٹی آزاد کشمیر میں حکومت بنانے میں کامیاب ہو گئی تو فنڈز بھی ملیں گے اور اختیارات بھی، جس کے نتیجے میں ترقیاتی کاموں کی رفتار تیز ہو جائے گی اور روزگار کے مواقع بھی بڑھیں گے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ آسمان کو چھوتی مہنگائی اور دوسرے لاینحل مسائل کو بھی لوگ بھول گئے اور پی ٹی آئی کے امیدواروں کو ووٹ دے کر انہیں کامیاب کرایا۔ انتخابی مہم کے دوران پارٹی رہنما اپنی تقریروں میں ایک دوسرے کو نشانہ بناتے رہے۔ حکومتی کارکردگی یا عوامی مسائل پر کم ہی بولے۔ الیکشن کے دوران بعض مقامات پر لڑائی جھگڑے اور فائرنگ ہوئی۔ دو افراد جان سے گئے اور کئی زخمی ہوئے۔ قانون کو اس حوالے سے اپنا راستہ اپنانا چاہئے۔ انتخابی ضابطوں کی جو کھلے عام دھجیاں اڑائی گئیں، الیکشن کمیشن کو ان کا بھی سختی سے نوٹس لینا چاہئے اور کوئی کتنا بھی بڑا ہو اسے قانون کے کٹہرے میں کھڑا کرنا چاہئے۔ آزاد کشمیر کے انتخابات میں تمام پارٹیوں نے اپنی اپنی طاقت کا زور شور سے مظاہرہ کیا کیونکہ انہیں پاکستان میں آنے والے عام انتخابات پر اس کے اثرات کا بخوبی علم ہے۔ خاص طور پر پنجاب میں اس کے اثرات سب کی توجہ کا مرکز ہوں گے۔ تحریک انصاف کے لئے یہ امر باعث طمانیت ہوگا کہ اپوزیشن اس کی حکومتی کارکردگی اور عوامی مسائل کو اپنے فائدے میں استعمال نہیں کر سکی لیکن فتح کی خوشی میں اسے یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ آزاد کشمیر میں مجموعی طور پر ووٹ اس کے خلاف گئے۔ اس کے جیتنے والے اور اپوزیشن کے ہارنے والے زیادہ تر امیدواروں کے ووٹوں میں کوئی بڑا فرق نہیں۔ آنے والے وقت میں شادیانے بجاتے رہنے کی بجائے اسے لوگوں کو پریشان کرنے والے مسائل حل کرنا ہوں گے۔ خاص طور پر آزاد کشمیر کے حساس خطے میں جو تحریک آزادی کا بیس کیمپ ہے، فکری تقسیم روکنے کے لئے انتخابی تلخیوں سے درگزر کرکے افہام وتفہیم کی فضا پیدا کرنا ہوگی اس مقصد کے لئے گالم گلوچ، طعنہ بازی اور مخالفین کی توہین و تضحیک کی بجائے عزت واحترام اور شائستگی کا رویہ اپنانا ہوگا جو کشمیر کاز کو آگے بڑھانے کا بنیادی تقاضا ہے۔ ایسا کوئی عمل نہیں ہونا چاہئے جو کشمیری عوام کے مفاد کے خلاف ہو اور جسے اچھال کر بھارت عالمی برادری کو گمراہ کرے۔