معروف کوہ پیما علی سدپارہ کا جسد خاکی مل گیا، بیٹے کی تصدیق

July 27, 2021

راولپنڈی (جنگ نیوز) کے-ٹو سرکرنے کی مہم کے دوران لاپتا ہونے والے پاکستانی کوہ پیما محمد علی سدپارہ اور ان کے ساتھی آئس لینڈ کے جان اسنوری اور چلی کے جوان پابلو موہر کی لاشیں 5 ماہ بعد دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے خطرناک ترین مقام سے 400؍ میٹر دور سے مل گئی ہیں۔ وزیر اطلاعات گلگت بلتستان فتح اللہ خان نے تصدیق کی ہے کہ محمد علی سدپارہ اور جان سنوری کی لاشیں مل گئی ہیں۔ ایک بیان میں انہوں نے کہا ہے کہ لاشوں کو فوج کے ہیلی کاپٹروں کے ذریعے منتقل کیا جائے گا۔ محمد علی سد پارہ کے بیٹے ساجد سد پارہ نے والد کا جسد خاکی ملنے کی تصدیق کی ہے اور کہا ہے کہ مرحوم والد کا جسدِ خاکی بوٹل نیک سے 300؍ میٹر نیچے کھائی میں نظر آرہا ہے، والد کے ساتھ ان کے دیگر ساتھیوں جان سنوری اور جان پابلو کی لاشیں بھی نظر آرہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ والد کے جسدِ خاکی کو نکالنے کی تدبیر پر غور کررہے ہیں، رات میں ہی یا صبح تک ریسکیو کرکے باڈیز کو نکالنے کی کوشش کرینگے، قوم سے مشن کی کامیابی کیلئے دعائوں کی اپیل کرتا ہوں۔ بتایا جا رہا ہے کہ محمد علی سد پارہ کی لاش کے ٹو کے ’بوٹل نیک‘ سے 300 میٹر نیچے جبکہ پہلی لاش ’بوٹل نیک‘ سے 400 میٹر نیچے ملی ہے۔ کے ٹو کے کیمپ فور سے اوپر ڈیتھ زون میں 8200؍ سے 8400؍ میٹرکے درمیان ایک چٹانوں اور برف کی ایک تنگ گلی موجود ہے، کیونکہ اس کی شکل بوتل کی گردن کی طرح نظر آتی ہے لہٰذا اسے بوٹل نیک کہتے ہیں۔ یہ وہ مقام ہے جہاں سے کےٹو سر کرنے کی کوشش کرنے والے کوہ پیماؤں کو ہر حال میں گزرنا پڑتا ہے، اس کا کوئی متبادل راستہ موجود نہیں ہے اور یہ کے ٹو کا سب سے مشکل ترین حصہ ہے۔ یاد رہے کہ پاکستانی کوہ پیما علی سدپارہ، آئس لینڈ کے جان سنوری اور چلی کے ہوان پابلو موہر کو 5؍ فروری کو 8؍ ہزار میٹر سے زیادہ بلندی پر کے ٹو کی چوٹی کے قریب آخری مرتبہ علی سدپارہ کے بیٹے ساجد سدپارہ نے دیکھا تھا جو آکسیجن ریگولیٹر کی خرابی کی وجہ سے مہم ادھوری چھوڑ کر واپس آنے پر مجبور ہو گئے تھے۔ علی سدپارہ اور ساجد سدپارہ اس مہم میں بطور ہائی الٹی ٹیوڈ پورٹر شریک تھے۔ تقریباً 2؍ ہفتے تک زمینی اور فضائی ذرائع کا استعمال کرنے کے بعد حکام نے 18؍ فروری کو علی سدپارہ سمیت لاپتہ ہونے والے 3؍ کوہ پیماؤں کی موت کی تصدیق کرتے ہوئے ان کی تلاش کیلئے جاری کارروائی ختم کرنے کا اعلان کر دیا تھا۔ ساجد سدپارہ اپنے والد علی سدپارہ، آئس لینڈ کے جان سنوری اور چلی کے ہوان پابلو موہر کی لاشوں کی تلاش کے سلسلے میں اس وقت کے ٹو پر موجود ہیں اور ان کے ہمراہ کینیڈین فوٹو گرافر اور فلم میکر ایلیا سیکلی اور نیپال کے پسنگ کاجی شرپا بھی ہیں۔ یاد رہے کہ پہلے 2؍ لاشوں کے ملنے کی اطلاعات موصول ہوئی تھیں لیکن کے ٹو پر مہمات کا انتظام کرنے والی کمپنیوں نے تیسری لاش ملنے کا بھی دعویٰ کیا ہے۔ ساجد سد پارہ کی ریسکیو مہم کے انتظامات کرنے والی کمپنی جیسمن ٹورز کے بانی اور پاکستان میں ہیڈ آف ریسکیو مشن فار پاٹو (پاکستان ٹور آپریٹر ایسوسی ایشن) اصغر علی نے برطانوی میڈیا سے بات کرتے ہوئے 3؍ لاشیں ملنے کی تصدیق کی، یہ تینوں لاشیں لاپتہ کوہ پیماؤں علی سدپارہ، جان سنوری اور جان پابلو موہر کی ہی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ فوج کے لیازن آفیسر، جن کا بذریعہ ریڈیو ساجد سدپارہ سے رابطہ ہے، نے تصدیق کی ہے کہ یہ لاشیں علی سدپارہ، جان سنوری اور ہوان پابلو موہر کی ہیں۔ اس سے قبل کے ٹو پر مہمات کا انتظام کرنے والی کمپنی مہاشا برم ایکسپیڈیشن کے مالک محمد علی نے برطانوی میڈیا سے بات کرتے ہوئے علی سدپارہ کی لاش ملنے کی تصدیق کی تھی۔ محمد علی کے مطابق ان کی مختلف ممالک کے 19؍ کوہ پیماؤں پر مشتمل ٹیم (جس میں 7؍ شیرپا شامل تھے) کے ٹو کی جانب رواں دواں تھی، یہ لوگ سب سے پہلے رسیاں فکس کرنے اوپر جا رہے تھے۔ جب یہ 7؍ افراد چوٹی کی جانب رسی فکس کرنے گئے تو کیمپ فور سے آگے بوٹل نیک کے قریب پہنچنے پر انہیں پہلے ایک لاش ملی اور کچھ دیر بعد باقی دو لاشیں بھی مل گئیں۔ لاشوں کی تصدیق سے متعلق سوال پر پاکستان میں ہیڈ آف ریسکیو مشن فار پاٹو (پاکستان ٹور آپریٹرز ایسوسی ایشن) علی اصغر کا کہنا تھا کہ یہ لاشیں کسی اور کی ہو ہی نہیں سکتیں، ہمیں اوپر جانے والے تمام افراد کی تاریخ اور تفصیلات کا علم ہوتا ہے، جس میں یہ معلومات شامل ہوتی ہیں کہ کون کب گیا، کون کوہ پیمائی کر رہا ہے اور کون ہلاک ہوا ہے، ہم ہر سال مہمات کرتے ہیں اور ہمارے پاس تمام معلومات درج ہیں۔ اصغر علی نے یہ بھی بتایا کہ آرمی کے ہیلی کاپٹر جائیں گے اور اسٹرنگ آپریشن (رسیوں کی مدد سے لاش لیجانا) کے ذریعے لاشوں کو بیس کیمپ تک لانے کی کوشش کی جائے گی۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ آج سے قبل ملک میں ایسا آپریشن کبھی نہیں کیا گیا کہ اتنی اونچائی سے لاشوں کو نیچے لایا جائے۔ اصغر علی کے مطابق اس آپریشن کیلئے فوج کو اپنے ہیلی کاپٹر میں نشستیں اور ایندھن کم کر کے ہیلی کاپٹر کا وزن کم کرنا پڑتا ہے اور یہ انتہائی خطرناک آپریشن ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر فوج کامیاب ہو گئی تو دنیا میں اتنی اونچائی سے لاش نیچے لانے کا یہ ایک پہلا ریکارڈ ہو گا۔