فواد چوہدری اور شاہیرا شاہد

August 01, 2021

اسلام آباد میں جب بادل پھٹ پڑےاور گاڑیاں سڑکوں پر تیرنے لگیں تو میں وہاں پہنچا۔ ایک دوست نےکہا کہ اسلام آباد میں پانی کی نکاسی کا انتظام درست نہیں وگرنہ شہر میں یہ سیلابی صورت پیدا نہ ہوتی ۔میں نے کہا ’’نہیں ایسا ہرگز نہیں، میں کافی عرصہ اسلام آباد رہا ہوں۔ یہ یقیناً ’’کلائوڈ برسٹ ‘‘ہوا ہے۔ یورپ اور چین کے کئی شہروں میں اس کی وجہ سے سیلاب آئے ہیں ۔فرانس میں ایک مرتبہ بہت بڑی سطح پر بادل پھٹنے کا واقعہ ہوا تھا۔ 2019میں آزاد کشمیر میں بھی ایسا ہی ایک واقعہ ہوا تھا اور ایک پورا گائوں پانی میں بہہ گیا تھا‘‘۔

میں جب چائنا سنٹر میں فواد چوہدری کے آفس پہنچا، وہاں پانی بالکل نہیں تھا یعنی یہ ’’کلائوڈ برسٹ ‘‘ اسلام آبادکے ایک علاقے میں ہوا، سارے اسلام آباد میں نہیں۔ فواد چوہدری سےگفتگو ہوئی، وہاں پنجاب وومن پروٹیکشن اتھارٹی کی چیئر پرسن کنیز فاطمہ چدھڑ سے بھی ملاقات ہوئی۔ مہنگائی کے موضوع پر بات ہوئی تو فواد چوہدری نے ایک دلچسپ اور حیرت انگیز بات کی۔ کہنے لگے ’’عمران خان نے اتنی مہنگائی کر دی ہے کہ اس بار عید کی چھٹیوں میں مہنگائی سے تنگ آ کر 27 لاکھ عوام نے شمالی علاقہ جات کا رخ کیا جہاں ان 27لاکھ غریبوں نے سیر و تفریح، ہوٹل بکنگ اور مزیدار کھانوں پر 3دن کے دوران 23ارب سے زائد خرچ کر دیے‘‘۔

’’کورونا کا عذاب‘‘ جس کے متعلق میرا ذاتی خیال ہے کہ یہ بھی دوسرے تاریخی عذابوں کی طرح لوگوں پر نازل ہوا ۔اس نے پوری دنیا کی معیشت تباہ کردی۔ امریکہ اور برطانیہ جیسے ممالک میں بھی مہنگائی اپنے عروج پر ہے۔ بےشک پاکستان میں بھی اس وجہ سے مہنگائی ہوئی مگر اتنی نہیں جتنا اپوزیشن شور مچا رہی ہے۔ میری معلومات کے مطابق دنیا کے مقابلے میں پاکستان میں مہنگائی خاصی کم ہے۔ اگرچہ حکومت نے اس سال تنخواہوں میں بھی خاصا اضافہ کیا ہے مگر اس مہنگائی کو اور بھی کم ہونا چاہئے۔ میانوالی کے معروف شاعر نذیر یاد نے میرے کالم پر تبصرہ کرتے ہوئے مجھے میسج کیا کہ ’’ملازمین کی تنخواہوں کا ذکر آسان لفظوں میں کیا جانا ضروری تھا۔ پنجاب میں بجٹ سے پہلے ہی 25فیصد اضافہ اور وفاقی بجٹ میں دس فیصد اضافے کے ساتھ 35فیصد بڑھی میری تنخواہ میں تقریباً 9ہزار کا اضافہ ہوا ہے ۔عثمان بزدار زندہ باد‘‘۔

فواد چوہدری کے دفتر سے نکل کر وفاقی سیکرٹری اطلاعات و نشریات شاہیرا شاہد کےساتھ ملاقات کی، ملاقات کا موضوع ’’ماہِ نو‘‘ تھا۔ ماہ نو حکومت پاکستان کا ادبی ماہنامہ ہے جس کا آغاز ایوب خان دور میں ہوا۔ جب کشور ناہید اس کی چیف ایڈیٹر ہوتی تھیں تو اس وقت ادبی دنیا میں یہ ماہ نو پوری آب و تاب سے چمکتا تھا۔یہ بیچارہ ایک طویل عرصےسے گہن رسیدہ ہےکہ اسے طلوع کرنے کا فریضہ چند سرکاری افسروں کو سونپ دیا گیا ہے۔شاہیرا شاہد سے گفتگو ہوئی کہ مجلس ترقی ادب کے تعاون سے ’’ماہ نو ‘‘کوکس طرح دوبارہ پوری آب و تاب سے مطلعِ ادب پر نمودار کیا جاسکتا ہے ۔توقع ہے کہ بہت جلد اردو ادب کے لوگوں کو یہ خوشخبری ملے گی کہ ماہ نو پھر سے چمکنے لگا ہے۔ ایوب خان کے دور میں ماہ نو کے ساتھ ایک ہفت روزہ میگزین ’’پاک جمہوریت‘‘ بھی نکالا گیا تھا۔ جو ملک میں یونین کونسل کی سطح تک بھیجا جاتا تھا۔وہ بھی اب تک زندہ ہے مگر سسک سسک کر جی رہا ہے۔ مجھے وہ زمانہ یاد آرہا ہے جب پاک جمہوریت کی ایڈیٹر پروین ملک ہوا کرتی تھی۔ قائم نقوی اور صفدر بلوچ بھی انہی رسالوں میں کام کیا کرتے تھے۔ روشنی کی یہ آخری کرنیں تھیں اس کے بعد جو کہانی شروع ہوئی وہ سنائی نہیں جا سکتی۔ فواد چوہدری اور شاہیرا شاہد کی گفتگو سے لگتا تھا کہ ان رسالوں کا ایک نیا دور شروع ہونےوالا ہے۔شاہیرا شاہد بھی مجھے بڑی پُر عزم خاتون محسوس ہوئیں۔ فواد چوہدری کو مبارک کہ انہیں ایسی وفاقی سیکرٹری نصیب ہوئی ہے وگرنہ اکثر وزیروں کاتو اپنے محکموں کے سیکرٹرز کا نام سنتے ہی موڈ خراب ہو جاتا ہے۔ اور اب آخر میں ’’کورونا‘‘ جو پھر آپے سے باہر ہورہا ہے۔ چوتھی لہر زور پکڑنے لگی ہے۔ مثبت کیسز کی شرح 8فیصد سے بڑھ چکی ہے۔ دنیا بھر میں کورونا مریضوں کے حوالے سے پاکستان 31ویں نمبر پر پہنچ چکا ہے، کورونا وائرس کی ہلاکت خیزیوں میں بھی مسلسل اضافے کی خبریں ہیں اور یہ سب صرف اس لئے ہوا ہے کہ ہم نے سماجی فاصلےکی ہدایت کو نظر انداز کیا ہے۔چہروں پرماسک نہیں لگائے۔ ایس او پیز کی خلاف ورزی کی ہے۔اگر ہم تھوڑی سی احتیاط سے کام لیں تو اس چوتھی لہر پر قابو پایا جاسکتا ہے ۔اس وقت تک پاکستان میں کورونا کے سبب 23ہزار 360مریض انتقال کر چکے ہیں۔ گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران کورونا وائرس کے مزید 4ہزار 950کیسز سامنے آئے ہیں جو بہت بڑی تعداد ہے۔ باقی اسپتالوں، قرنطینہ سینٹرز اور گھروں میں کورونا وائرس کے 66ہزار 287مریض زیرِ علاج ہیں، جن میں سے 3ہزار 187مریضوں کی حالت تشویش ناک ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ بھی بن رہی ہے کہ ویکسین لگانے والے لوگوں سے فی مریض دوہزار روپے لے کرانہیں جعلی سرٹیفکیٹ جاری کئے جارہے ہیں کہ انہیں ویکسین لگا دی گئی ہے۔ برطانیہ جس نے کورونا کے حوالے سے پاکستان کوریڈ لسٹ میں ڈالا ہوا ہے وہاں کی اہم شخصیت سے بات ہوئی تو اس نے بتایا کہ پاکستان سےبہت سے مریض برطانیہ آئے جن کے پاس ویکسین لگوانے کا سرٹیفکیٹ موجود تھا مگر انہیں ویکسین نہیں لگی ہوئی تھی۔