افغانستان میں جنگ کے شعلے

August 03, 2021

جوں جوں دن گزرتے جارہے ہیں۔ افغانستان کے اندر لگی ہوئی آگ میں شدت آتی جارہی ہے۔ تازہ ترین صورت حال یہ ہے کہ طالبان اور افغان کٹھ پتلی حکومت کے درمیان جنگ مضافات سے نکل کرشہروں میں داخل ہوگئی ہے۔ جس کی لپیٹ میں عام شہری بھی آرہے ہیں۔ افغانستان کے بڑے شہروں ہرات، قندھار اور لشکر گاہ کے گلی کوچوں میں شدید لڑائی ہو رہی ہے۔ اب افغان فورسز نےبھی مزاحمت شروع کر دی ہے۔ افغان فضائیہ نے طالبان پر فضائی حملے شروع کر دیئے ہیں۔ جہاں جہاں طالبان کا غلبہ ہے وہاں افغان فورسز کے اہلکار ہتھیار پھینک کر طالبان کے ساتھ مل رہے ہیں۔ افغان حکومت جس کو اب بھی امریکی حمایت حاصل ہے ،ڈٹی ہوئی ہے۔ دوسری طرف بھارت بھی افغان حکومت کی مدد کررہا ہے۔ بھارت اور اسرائیل نے بھاری مقدار میں اسلحہ افغان حکومت کے حوالہ کیا ہے۔ ان وجوہات کی بنا پر اب مذکورہ بالا بڑے اور اہم شہروں میں طالبان کو افغان فورسز کی مزاحمت کا سامنا ہے۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق دونوں جانب سے ہر قسم کے ہتھیاروں کا استعمال ہو رہا ہے۔ شہر کا پولیس ہیڈکوارٹر اور گورنر کا دفتر طالبان کے گھیرے میں ہیں۔ طالبان نے قندھار کے ہوائی اڈے پر راکٹوں سے بڑا حملہ کیا ہے۔ فی الحال وہاں جانی و مالی نقصانات کا اندازہ نہیں ہے۔ ان شہروں سے بڑے پیمانے پر شہریوں کی نقل مکانی کی اطلاعات ہیں۔ افغان فضائیہ ان شہروں کو خالی کرانے کےلئے طالبان پر بھرپور فضائی حملے کررہی ہےاور یہ تینوں شہر کھنڈرات کا منظر پیش کر رہے ہیں۔ ہر طرف انسانی لاشیں، آگ اور گولہ بارود کی بو پھیلی ہوئی ہے۔ پورے افغانستان میں خوف اور بے یقینی کا عالم ہے افغان دارالحکومت کابل میں بھی لوگ خوف و ہراس کے شکار ہیں۔ اگرچہ اشرف غنی حکومت کو امریکہ کی حمایت حاصل ہے، بھارت اور اسرائیل بھی تھپکی دے رہے ہیں لیکن آزاد انٹرنیشنل میڈیا اور شاہدین کے مطابق کٹھ پتلی افغان حکومت کے پائوں اکھڑ رہے ہیں اور اس کا کنٹرول ختم ہوتا جارہا ہے۔ طالبان تمام تر مزاحمت کے باوجود کسی بھی وقت ہرات، قندھار اور لشکر گاہ پر مکمل قبضہ کرسکتے ہیں۔ اگر طالبان ان شہروں کا مکمل کنٹرول حاصل کرلیتے ہیں تو نہ صرف ان کے حوصلے مضبوط ہوں گے بلکہ افغان فورسز کی طرف سے مزاحمت کمزور ہو جائے گی۔ اور طالبان کی پیش قدمی میں مزید تیزی آئے گی۔ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ آخر میں لرزتی افغان حکومت صرف کابل کے دفاع تک محدود ہو جائے گی۔ آنے والے دنوں میں طالبان اگر کابل کے نواح تک پہنچنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو کابل شہر اور مضافات میں شدید اور خونریز لڑائی کا امکان ہوگا۔

اب تو یہ بات صاف نظر آرہی ہے کہ افغانستان میں طالبان کی پوزیشن مضبوط سے مضبوط تر ہوتی جارہی ہے۔ ایسے میں دوحہ میں مذاکرات کے دور بھی چل رہے ہیں۔ پاکستان کی اب بھی یہ کوشش ہے کہ افغانستان میں جلد امن قائم ہوسکے اور معاملات باہمی مذاکرات اور افہام و تفہیم سے طے ہو جائیں۔ دوحہ میں آئندہ اہم اسٹیک ہولڈرز کے درمیان ہونے والی ملاقات اور مشاورتی عمل کو نہایت اہم قرار دیا جارہا ہے اورا س سے بڑی امیدیں وابستہ ہیں۔ اسٹیک ہولڈرز کوشش کریں گے کہ معاملات کا کوئی قابل قبول سیاسی حل نکالا جاسکے۔ اگرچہ امریکہ اشرف غنی کی کٹھ پتلی حکومت کی پشت پناہی کر رہا ہے اور یہ کوشش کررہا ہے کہ طالبان کے ساتھ ساتھ موجودہ افغان حکومت بھی مستقبل میں حصہ دار ہو۔ لیکن تیزی سے بدلتے حالات کے پیش نظر طالبان کبھی اس پر رضامند نہیں ہوسکتے نہ ہی اس طرح کی مخلوط حکومت افغانستان میں چل سکتی ہےاور یہ بات امریکہ بھی جانتا ہے ۔مگر وہ نہ تو اس خطے اور خصوصاً افغانستان سے لاتعلق ہونا چاہتا ہے نہ ہی امریکہ، بھارت اور اسرائیل افغانستان میں امن چاہتے ہیں۔ دوحہ میں آئندہ اجلاس جس میں امریکہ، چین، روس اور پاکستان شامل ہیں ،کے لئے ایجنڈا تیار کیا جارہا ہے۔ چین نے بھی پہلی مرتبہ افغانستان کے لئے اپنا نمائندہ مقرر کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکہ چاہے تو افغانستان میں بلاتاخیر امن قائم ہوسکتا ہے کیونکہ موجودہ افغان حکومت امریکہ کی مرہون منت ہے اور اگر اس کو امریکی اشیرباد حاصل نہ رہے تو وہ ایک دن بھی قائم نہیں رہ سکتی۔ یہ کتنی عجیب بات ہے کہ امریکہ افغانستان میں اپنی کٹھ پتلی حکومت کے بجائے پاکستان پر دبائو ڈالنے کی کوشش کرتا ہے کہ طالبان کو امریکی فیصلے تسلیم کرنے یا نرمی پر مجبور کیا جائے۔ یہ بھی عجیب ہے کہ جب امریکہ افغانستان میں اپنی شکست کو تسلیم کرنے کے مترادف وہاں سے اپنی فوج نکال چکا تو ایک طرح سے فاتح قوت یعنی طالبان کیونکر اپنے موقف اور حکمت عملی کے برعکس اقدامات پر تیار ہوں گے؟ وزیراعظم عمران خان نے گزشتہ دنوں پاکستانی موقف واضح کرتے ہوئے بجاکہا کہ جب افغانستان میں طالبان کا کنٹرول بڑھتا جارہا ہے اور ان کو اپنی فتح و کامیابی صاف نظر آرہی ہے تو وہ کیونکر پاکستان کی یہ بات مانیں گے یا کسی دبائو میں آئیں گے۔امریکی پشت پناہی اور بھارت اور اسرائیل کی اشیرباد کا صاف مطلب یہ ہے کہ یہ تینوں نہ صرف افغانستان بلکہ اس خطے میں امن نہیں چاہتے۔ یہ تینوں جانتے ہیں کہ افغانستان میں بھڑکتے شعلے صرف افغانستان تک محدود نہیں رہیں گےبلکہ پاکستان خصوصی طور پر افغان خانہ جنگی سے شدید متاثر ہوگا اوریہی ان ممالک میں واحد مشترک مقصدہے۔ اگر افغان لڑائی کے اثرات پاکستان تک پہنچتے ہیں تو نہ صرف افغان پناہ گزینوں کا ایک سیلاب پاکستان میں داخل ہوسکتا ہے بلکہ پاکستان میں دہشت گردی اور بدامنی ایک بار پھر پھیلنے کے خدشے کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جاسکتا۔ ایسی اطلاعات ہیں کہ قندھاراور دیگر شہروں سے افغان شہری کسی بھی وقت پاکستان کا رخ کرسکتے ہیں۔ پاک فوج اور ریاستی ادارے بھی الرٹ ہیں۔ اس لئے بھارت یا کوئی اور کسی غلط فہمی میں نہ رہے۔