پاکستان بنیادی طور پر زرعی ملک ہے اس لئے زرعی شعبے پر ملکی معیشت کا بڑا انحصار ہے مگر آبادی میں بےپناہ اضافے کے باعث تیزی سے ختم ہوتی زرعی اراضی، مقامی کاشت کار کی زراعت کے جدید طریقوں سے عدم واقفیت اور آڑھتی و آجر کی جانب سے کسانوں کے مسلسل استحصال کو روکنے کیلئے حکومتی سطح پر ٹھوس کسان دوست پالیسیوں کے نفاذ میں ناکامی سمیت ایسے ہی کئی عوامل ہیں جو زرعی شعبے کے تیزی سے انحطاط میں اپنا کر دار ادا کررہے ہیں۔ اسی طرح لائیو اسٹاک کی برآمد کا بھی جی ڈی پی میں نمایاں حصہ رہا ہے مگر یہاں بھی جدید ٹیکنالوجی کو اپنانے کی بجائے فرسودہ طریقوں کے استعمال سے لائیو اسٹاک کی برآمدات بڑھنے کی بجائے کم ہوئی ہیں۔ اچھی بات ہے کہ حکومتی سطح پر بھی ان پہلوئوں پر غور کیا جا رہا ہے جس کا اندازہ صدر عارف علوی کے کوئٹہ میں ’’گرین ٹریکٹر اسکیم‘‘ کے اجرا کے موقع پر کئے گئے خطاب سے ہوتا ہے جس میں انہوں نے مذکورہ دونوں شعبوں کے انحطاط کی نشاندہی کرتے ہوئے بجا کہا کہ ملک کی خوشحالی اور ترقی کے لئے زرعی اور لائیو اسٹاک کے سیکٹر کو جدید بنانا ناگزیر ہے۔ انہوں نے ویت نام کی مثال بھی دی کہ 1999میں دونوں ملکوں کی فشریز کی برآمدات 30سے 40کروڑ ڈالر تھیں لیکن پاکستان میں باریک جالوں سے فشنگ کی گئی جس کے باعث مچھلیوں کے بچوں کو بھی چکن فیڈ کے لئے پکڑتے رہے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان کے ساحل میں مچھلی کم ہو گئی آج 20سال بعد بھی پاکستان کی برآمدات 50کروڑ ڈالر ہے جبکہ ویتنام کی برآمدات 10ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہیں۔ کیا ہی اچھا ہو کہ جدید زرعی اصلاحات متعارف کروانے اور فش فارمنگ کے فروغ کیلئے اعلانات سے آگے بڑھ کر عملی اقدامات بروئے کار لائے جائیں تاکہ ملکی برآمدات میں اضافے کے ساتھ قومی غذائی ضروریات بھی پوری ہوسکیں۔
اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998