”علیحدہ“

July 17, 2013

عنوان بالا سے مراد کسی نامعلوم ڈپٹی کمشنر کی ڈائری کا ایسا غیر مطبوعہ ورق ہے جو ڈائری ہذا سے پھٹ کر علیحدہ ہو گیا اور ہمارے ہاتھ لگ گیا ۔ورق کی خوبصورت تحریر اس بات کی گواہ ہے کہ موصوف اپنے ”عہد“ کے قدرت اللہ شہاب رہے ہیں ۔ لکھا ہے :۔
”یہ جنرل ضیاء الحق کا دور تھا چنانچہ میں فطری طور پر صوم و صلوٰة کا پابند ہو گیا۔ الناس علیٰ دینِ ملوکہم، میرے دیکھا دیکھی میرے ماتحت افسران اور جملہ اہلکار بھی نماز کی پابندی کرنے لگے۔ ضلع کچہری کی مسجد آباد ہو گئی ۔ متعلقہ پٹواری سرکل نے میرے ذوق و شوق کو دیکھتے ہوئے مسجد کی خوب تزئین و آرائش بھی کرا دی تھی ۔ مولانا صاحب جب خطبہ جمعہ کے دوران میرے ان اقدامات، عادلانہ طبیعت اور سادگی کی تعریفیں کرتے تو میرا سر جھک جھک جاتا اور آنسو بہہ بہہ نکلتے۔ میں نے اس دور میں امپورٹڈ کپڑے کی نصف درجن سے زائد قیمتی شیروانیاں بھی سلوالیں تھیں جو میں نماز جمعہ کے علاوہ مختلف تقاریب اور میٹنگز وغیرہ میں پہن کر جاتا۔ ایک دن میں دفتر سے نکل کر گاڑی میں بیٹھنے لگا تو میری نظر سامنے شیشم کے درخت کے نیچے ایک مفلوک الحال عورت اور اس کے چار پانچ ننگ دھڑنگ بچوں پر پڑی جو میرے آگے فریادی انداز میں ہاتھ جوڑے کھڑے تھے جبکہ سیکورٹی اہلکار انہیں ٹھڈے مار کر بھگانے کی سعی کر رہے تھے۔ مجھے غصہ آگیا، میں نے سیکورٹی اہلکاروں کو ڈانٹ دیا اور فریادیوں کو قریب بلا لیا۔ عورت کی آنکھوں میں غم کا اتھاہ سمندر تھا۔ اس نے رو رو کر واویلا کیا کہ اس کا مزدور پیشہ خاوند ایک حادثے میں ہلاک ہو گیا ہے اور اب کرایہ ادا نہ کر سکنے کی پاداش میں جھونپڑی کا مالک اس کے بچوں کے سر سے چھت چھیننے کے درپے ہے۔ نیز قرض خواہوں نے بھی اس غریب کا جینا حرام کر رکھا تھا ۔ بدقسمت خاندان دو دن سے بھوکا تھا اور اوپر سے چھوٹا بچہ بخار میں بھی تپ رہا تھا ۔ ان کی حالت زار دیکھ کر میرا کلیجہ منہ کو آ گیا۔ میں نے وہیں کھڑے کھڑے ڈسٹرکٹ ناظر کو طلب کیا اور کسی بھی فنڈ کی مد سے اس عورت کی مبلغ دو ہزار روپے نقد فوری مدد کرنے کا حکم دے کر گاڑی میں بیٹھ گیا۔
ناظر صاحب نے میرے حکم کی بابت ڈسٹرکٹ چیئرمین زکوٰة و عشر سے بات کی، جنہوں نے بغیر وقت ضائع کئے ضابطے کی کارروائی شروع کردی ۔ انہوں نے اس خاندان کی غربت کی تصدیق کے لئے متعلقہ زکوٰة کمیٹی ، نمبردار، پٹواری ،گرداور ، تحصیلدار اور اسسٹنٹ کمشنر وغیرہ کی مفصل رپورٹس منگوا کر ملاحظہ کیں ۔ دو ماہ کی اس ضابطے کی کارروائی کے بعد جب امدادی چیک تیار ہوا تو ناظر اور چیئرمین صاحب اس عورت اور اخباری فوٹو گرافر کو لے کر میرے دفتر میں آدھمکے ۔ انہوں نے درخواست کی کہ میں یہ چیک اپنے دست مبارک سے اس غریب کو عطا کروں ۔ میں اپنی نیکیوں کی تشہیر کے سخت خلاف ہوں ، سو میں نے صاف انکار کرتے ہوئے کہا کہ میں تو وہ ہوں کہ ایک ہاتھ سے دیتا ہوں تو دوسرے ہاتھ کو بھی خبر نہیں ہوتی ۔ چیئرمین صاحب بولے ”سر! آپ کی سخاوت کی حدود بے کنار ہیں اور دوسر اہاتھ تو کیا، ایک دنیا آپ کی دریا دلی کی معترف ہے“۔ میں نے ماتحتوں سے بحث کرنا اپنے منصب کی توہین سمجھا اور گھر سے شیروانی منگوا کر فوٹو بنوانے کے لئے تیار ہوگیا۔ اگرچہ عورت کا بیمار بچہ ضابطے کی کارروائی کے دوران ہی فوت ہو گیا تھا مگر جب میں نے اسے چیک دیا تو سارے غم بھول کر خوشی سے اس کے آنسو تھمتے ہی نہیں تھے ۔ بے چاری بڑی سادہ لوح تھی، وہ چیک کو نوٹ سمجھی اور اسے واپس میری طرف بڑھا کر بولی ”صاحب! مجھے اس کا بھان دے دو، میرے پاس واپسی کا کرایہ نہیں ہے“ میں نے فوراً جیب میں ہاتھ ڈالا اور اسے پچاس روپے کا ایک مزید نوٹ دیتے ہوئے کہا کہ یہ لو کرایہ اور بچوں کے لئے فروٹ بھی لیتی جانا۔ دوسرے دن اخبارات میں جب اس سادہ مگر پروقار تقریب کی تصویریں شائع ہوئیں تو مجھے مبارکباد دینے والوں کا تانتا بندھ گیا۔
رمضان المبارک شروع ہوتے ہی میرے طور طریقے یکسر بدل جاتے ہیں۔ میں دفتر میں مصلیٰ بچھا لیتا اور ہر طرح کی درخواستوں اور ایرے غیرے سائلوں کا داخلہ بند کرا دیتا تاکہ خشوع وخضوع میں خلل نہ پڑے، البتہ اشرافیہ کے لئے میرے دروازے کھلے رہتے۔ ایک دن صوبائی حکومت کی طرف سے حکم آیا کہ مقامی علمائے کرام اور معززین کے اعزاز میں شاندار سا افطار ڈنر دیا جائے جس میں ایک وفاقی اور ایک صوبائی وزیر صاحبان بھی شرکت فرمائیں گے ۔ میں نے فوراً انتظامیہ کی میٹنگ طلب کرلی ۔ حسب روایت تحصیلدار صاحب نے سارا نتظام اپنے ذمہ لے لیا۔ انہوں نے اسی دن سٹی سرکلز کے پٹواریوں سے میٹنگ کی اور انتظامات کو آخری شکل بھی دے دی۔ رازدار درون میخانہ جانتے ہیں کہ ایک ڈپٹی کمشنر کی ”ڈپٹی کمشنری“ کا انحصار محکمہ مال پر ہوتا ہے۔ میں ذاتی طور پر ان پٹواریوں کی انتظامی صلاحیتوں اور مالی وسائل پر بہت حیران ہوں ۔ نہ فنڈز ،نہ آڈٹ۔ وی وی آئی پی جلسے یا شکار کا انتظار کرنا ہو تو یہ حاضر۔ جلسے کے لئے حاضرین اکٹھے کرنے ہوں تو یہ بسیں بھر بھر لاتے ہیں ۔ صدر یا وزیراعظم کے سیلابی فنڈ میں رقوم کا ٹارگٹ پورا کرنا ہو تو یہ پیچھے نہیں رہتے۔ ریفرنڈم میں بیلٹ باکس بھرنے ہوں تو ان کا ثانی نہیں۔ سرکاری دعوت کا انتظام کرنا ہو تو من و سلویٰ حاضر کر دیتے ہیں ۔ سستا رمضان بازار لگانا ہو، ریسٹ ہاؤس یا افسران کا کچن چلانا ہو تو بھی یہ سرخرو۔ ہمارے لیڈر پٹواری کلچر کے خاتمے کے بڑے دعوے کرتے ہیں مگر لطیفہ یہ ہے کہ ان ”دشمنان ِ پٹواری کلچر “ کے گلشن کا کاروبار ہی پٹواری کا مرہونِ منت ہے۔
میں ذاتی طور پر سادگی کا قائل ہوں مگر ان بھلے مانسوں نے افطار پارٹی کے لئے فور اسٹار ہوٹل کو پُرتکلف اشیائے خوردونوش برائے افطار کے علاوہ سیخ کباب، چکن تکہ ، بیف تکہ ، چکن روسٹ، مٹن پلاؤ، مٹن قورمہ، چکن جلفریزی ،روغنی نان اور حلوے جیسی دس ڈشوں کا آرڈر دے ڈالا۔ میں اس اصراف پر معترض ہوا تو ایک مجسٹریٹ صاحب کہنے لگے کہ سر پٹواریوں کو روزہ داروں کی خدمت کر کے ثواب کمانے دیجئے اور ویسے بھی اس اسلامی دور میں ایسے ہی نیک اعمال کی بدولت آپ کی اے سی آر کو چار چاند لگیں گے، میں خاموش ہو گیا ۔ بھلے مانسوں نے سرکاری ریسٹ ہاؤس کے وسیع لان کو دلہن کی طرح سجادیا۔ برقی قمقموں کی بہار سے دن کا سماں محسوس ہوتا تھا ۔ افطار سے قبل وزرائے محترم اور علمائے کرام نے ماہ صیام کی برکتوں اور روزے کی فضیلت پر ایمان افروز تقاریر کیں ۔ انہوں نے پیارے نبی ﷺ کی سادگی سے فقط نمک یا کھجور سے روزہ افطار کرنے کی اس پُراثر انداز سے مثالیں دیں کہ ماحول پر وجد آفریں کیفیت طاری ہو گئی ۔جذبہ ایمانی سے سرشار یہ تقاریر اور فور اسٹار کھانوں کی اشتہا انگیز خوشبوئیں مہمانوں کو مست کئے جا رہی تھیں ۔ قبل ازیں میں نے اپنے خطبہ استقبالیہ میں عرض کیا کہ رمضان المبارک مفلسوں کی کفالت اور بھوکوں کو کھانا کھلا کر اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کا وسیلہ ہے۔ اس موقع پر پولیس اہلکاروں نے ریسٹ ہاؤس کو چاروں طرف سے گھیر رکھا تھا۔ میرے حکم پر سیکورٹی کا سخت بندوبست کیا گیا تاکہ کوئی فقیر فقراء یا غریب غرباء افطار پارٹی کے قریب بھی نہ بھٹکنے پائے ۔ میرا مشاہدہ ہے کہ یہ لالچی لوگ ایسی روحانی محافل پر بن بلائے مہمانوں کی طرح یلغار کر کے رمضان المبارک کا تقدس مجروح کرتے ہیں اور اس مبارک مہینے کے حوالے سے اہل ایمان کو جذباتی طور پر بلیک میل کر کے اپنے گندے ہاتھوں سے کھانے پر ہاتھ صاف کر جاتے ہیں تاہم خدا کا شکر ہے کہ فول پروف سیکورٹی انتظامات کی بنا پر یہ مقدس محفل ایسے بے وضو لوگوں سے پاک و صاف رہ کر اختتام پذیر ہوئی۔ معزز مہمانوں نے خوب تسلی سے روزہ افطار کیا اور پورے اطمینان سے انواع و اقسام کے کھانوں سے مستفید ہوکر خدا کی ان نعمتوں کا شکر ادا کیا اور پھر میرے انتظامات اور کھانوں کی دل کھول کر تعریفیں کرتے رخصت ہوگئے“۔