کرامویل اور ڈاکٹر عافیہ صدیقی

July 22, 2013

لندن میں برطانوی پارلیمنٹ کے ماہر اولیور کرامویل کا مجسمہ نصب ہے۔ موسم گرما میں لندن آنے والے لاکھوں سیاح برطانوی پارلیمنٹ کے باہر اس مجسمے کے ساتھ تصویریں بنواتے ہیں لیکن بہت کم سیاح جانتے ہیں کہ کرامویل کون تھا؟ کرامویل نے کنگ چارلس اول کی حکومت کے خلاف بغاوت کر کے اقتدار پر قبضہ کر لیا تھا۔ کرامویل کی موت کے بعد اس کا بیٹا رچرڈ برطانیہ کا حکمران بن گیا لیکن 1659ء میں برطانوی فوج نے رچرڈ کو بھی حکومت سے نکال دیا اور جلا وطن بادشاہ کنگ چارلس دوئم کو تخت پر بٹھا دیا۔ کنگ چارلس دوئم کے اقتدار میں آنے کے بعد برطانیہ کی نئی پارلیمنٹ نے اولیور کرامویل کی بغاوت پر بحث کی اور فیصلہ کیا گیا کہ کرامویل کی لاش کو قبر سے نکال کر پھانسی دی جائے۔ برطانوی پارلیمنٹ نے اپنے فیصلے پر عملدرآمد کروا کر فوجی بغاوت کا راستہ ہمیشہ کے لئے بند کر دیا اور کرامویل کے مجسمے کو عبرت کی مثال کے طور پر ویسٹ منسٹر میں پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر نصب کر دیا گیا۔ دو دن پہلے ویسٹ منسٹر سے اویسٹن اسٹریٹ میں برٹش لائبریری جاتے ہوئے میں نے کرامویل کے مجسمے کے بالکل سامنے سڑک کے دوسری طرف کچھ مظاہرین کو گوانتا ناموبے جیل کے خلاف نعرے لگاتے ہوئے دیکھا۔ ان مظاہرین نے نارجی لباس پہن رکھا تھا کیونکہ گوانتا ناموبے جیل کے قیدیوں کو بھی نارجی لباس پہنایا جاتا ہے۔ ان مظاہرین کے ہاتھوں میں زنجریں اور آنکھوں پر سیاہ کپڑا تھا۔ برطانوی پارلیمنٹ کے باہر گوانتا ناموبے جیل کے خلاف مظاہرہ میرے لئے انتہائی دلچسپی کا باعث تھا لیکن مجھے برٹش لائبریری پہنچنے کی جلدی تھی جہاں ایشین اینڈ افریقن سینٹر شام پانچ بجے بند ہو جاتا ہے۔ اس سینٹر میں برصغیر پاک و ہند کے متعلق برطانوی حکومت کا پرانا ریکارڈ محفوظ ہے اور میں اس پرانے ریکارڈ کی مدد سے یہ جاننے کی کوشش کر رہا تھا کہ 1947ء میں ہندو اکثریتی ریاست جونا گڑھ کے مسلمان حکمران نے پاکستان کے ساتھ الحاق کیا تو برطانوی حکومت نے اس الحاق کو نہیں مانا لیکن مسلم اکثریتی ریاست جموں و کشمیر کے غیر مسلم حکمران نے بھارت کے ساتھ الحاق کا اعلان کیا تو یہ اعلان فوراً کیوں تسلیم کر لیا گیا؟ برٹش لائبریری میں موجود ریکارڈ میں کئی تاریخی راز دفن ہیں جو مسئلہ کشمیر کے پس منظر کو سمجھنے میں مدد دیتے ہیں۔ دو دن سے میں اس پرانے ریکارڈ میں غرق تھا اور مجھے پھر سے اس ریکارڈ تک پہنچنے کی جلدی تھی۔ میں نے دل میں ارادہ کیا کہ واپسی پر نارجی لباس والے مظاہرین اگر موجود ہوئے تو ان سے ضرور ملوں گا۔
عجیب اتفاق دیکھئے کہ مجھے کشمیر کی صورتحال کے بارے میں برطانوی فوج کے ایک افسر میجر کرنسٹن کی رپورٹوں کی تلاش تھی جو اُس نے اکتوبر اور نومبر 1947ء میں لندن بھجوائی تھیں۔ دو گھنٹے میں ان پرانی رپورٹوں میں سے مطلوبہ مواد تلاش کر کے میں واپس ویسٹ منسٹر پہنچا تو نارجی لباس والے مظاہرین بدستور گوانتا ناموبے جیل کے خلاف نعرے لگا رہے تھے۔ ان مظاہرین نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی اور شاکر عامر سمیت کئی قیدیوں کی رہائی کے حق میں بینرز بھی اٹھا رکھے تھے۔ مظاہرین میں شاکر عامر کی بیٹی اور دو بیٹے بھی شامل تھے۔ شاکر عامر سعودی عرب میں پیدا ہوئے۔ 1997ء میں انہوں نے لندن میں ایک مسلمان خاتون سے شادی کی۔ 2001ء میں جلال آباد سے گرفتار ہوئے۔ پچھلے بارہ سال سے گوانتا ناموبے اور اس سے پہلے بگرام جیل میں تھے۔ ان کی بیوی اور بچے برطانوی شہری ہیں اور لندن میں رہتے ہیں۔ شاکر عامر کی رہائی کے لئے ان کے خاندان نے بھرپور قانونی جنگ کی اور 2007ء میں امریکی عدالتوں نے شاکر عامر کی رہائی کا حکم دے دیا لیکن انہیں رہا نہیں کیا گیا۔ میں نے شاکر عامر کے اہل خانہ سے پوچھا کہ وہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو کیسے جانتے ہیں؟ انہوں نے بتایا کہ ہم ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو ذاتی طور پر نہیں جانتے لیکن شاکر عامر کے خطوط سے اندازہ ہوا کہ جب وہ بگرام جیل میں تھے تو وہاں پر ایک مسلمان خاتون بھی قید تھی جس پر بہت ظلم کیا جاتا تھا۔ گوانتا ناموبے سے رہائی پانے والے ایک اور برطانوی قیدی معظم بیگ نے بھی تصدیق کی کہ عافیہ صدیقی بگرام جیل میں قید تھیں اور وہ ان کی چیخیں سنا کرتے تھے۔ شاکر عامر کے اہل خانہ جب بھی گوانتا ناموبے جیل میں بند قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کرتے ہیں تو ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو کبھی نہیں بھولتے۔ مظاہرین میں شامل ایک سفید فام نوجوان نے کہا کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی پر دہشت گردی کا کوئی الزام ثابت نہیں ہوا۔ انہیں غزنی میں ایک امریکی فوجی پر قاتلانہ حملے کے الزام میں 86 سال قید کی سزا سنائی گئی جو انتہائی قابل شرم ہے۔ اس نوجوان کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے ساتھ کئے جانے والے غیر انسانی سلوک نے مغرب کے خلاف نفرت کو جنم دیا ہے اور وہ ایک مسیحی ہونے کے باوجود اس مظاہرے میں شریک ہے تاکہ مسلمانوں کو پیغام دے سکے کہ مغرب میں رہنے والے تمام مسیحی اپنی حکومتوں کی پالیسیوں سے اتفاق نہیں رکھتے۔ اس دوران ایک عرب خاتون نے بھارتی فوج کی طرف سے مقبوضہ کشمیر میں قرآن پاک کی بے حرمتی اور روزہ داروں پر فائرنگ کے واقعات کے خلاف نعرے بازی شروع کر دی۔ اس مظاہرے کے قریب ہی کچھ پاکستانی بدستور تماشائی کھڑے تھے۔ ایک صاحب میرے پاس آئے اور تعارف کروا کر لندن میں پاکستانی سفارت خانے کے خلاف شکائتیں سنانے لگے۔ میں نے پوچھا کہ یہاں سفید فام نوجوان اور کچھ عرب خواتین ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے حق میں نعرے لگا رہے ہیں کیا آپ نے کبھی ان لوگوں کے ساتھ مل کر نعرے لگائے پاکستانی مہربان نے جواب میں ناگوار سا منہ بنا کر کہا کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی امریکی شہری ہے ہم ان کے لئے نعرے کیوں لگائیں؟ میں نے ان کو بتایا کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی پاکستانی شہری ہیں اور میں ان کا پاکستانی پاسپورٹ جیو ٹی پر دکھا چکا ہوں۔ پاکستانی مہربان سے کوئی جواب نہ بن پڑا تو فتویٰ صادر کرتے ہوئے کہنے لگے کہ آپ کبھی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے حق میں بات کرتے ہیں کبھی ملالہ یوسفزئی کے حق میں بات کرتے ہیں آپ کی باتوں سے عوام کو کیا فائدہ ہوتا ہے؟ میں نے یہ بحث ختم کی اور واپس مظاہرین میں آ کھڑا ہوا۔ عرب خاتون مسلسل کشمیر اور فلسطین کے مسلمانوں کی آزادی اور گوانتا ناموبے جیل کے خلاف نعرے لگا رہی تھی۔ میں اولیور کرامویل کے مجسمے کے سامنے ہونے ولے اس مظاہرے میں کھڑا یہ سوچ رہا تھا کہ 2003ء میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو کراچی سے غائب کیا گیا اور 2008ء میں غزنی سے گرفتار کرا دیا گیا۔ یہ سب ایک ایسے حکمران کے دور میں ہوا جو پاکستان کا دوسرا کرامویل تھا۔ اس کرامویل نے ناصرف قوم کی بے گناہ بیٹیوں کو غیر ملکی اداروں کے ہاتھوں فروخت کیا بلکہ پاکستان کے فوجی اڈے بھی غیر ملکیوں کو دیئے۔ آج پاکستان کو جن مسائل کا سامنا ہے ان میں سے اکثر اسی کرامویل اور اس کے ساتھیوں کے پیدا کردہ ہیں۔ ستم ظریفی دیکھئے کہ آج امریکہ کہتا ہے کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو دہشت گرد تسلیم کرو تو اسے شکیل آفریدی کے بدلے میں رہا کرنے پر سوچیں گے۔ نواز شریف صاحب کی حکومت سے گزارش ہے کہ وہ پاکستانی کرامویل کا احتساب کریں یا نہ کریں لیکن ایک دفعہ سینہ تان کر امریکی صدر اوبامہ سے یہ تو پوچھیں کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی پر ایک امریکی فوجی پر قاتلانہ حملے کے جھوٹے الزام کے سوا تمہارے پاس اور کون سا ثبوت ہے؟ مجھے یقین ہے کہ اوبامہ کے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں۔